بارش میں غم کی بارش

تحریر:علیزہ بنتِ محمد منشاء (کھیرے)
وہ صبح سے سڑک کے کنارے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔دسمبر کی پہلی بارش تھی صبح سے وقفے وقفے سے بارش ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا جسم کے آرپار ہو رہی تھی ۔ ایک عورت نے اُسکی طرف دس روپے کا نوٹ بڑھایا۔ اُس کے دل سے بہت سی دعائیں نکلیں۔ وہ نوٹ مٹھی میں دبائے نم آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ آتے جاتے لوگ اُسے حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ۔کچھ نصیحتیں کر کے گُزر رہے تھے اور کچھ طنز۔سموسوں اور پکوڑوں کی دُکانوں پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ نہ جانے صبح سے کتنی ہی آوازیں اُسکے کانوں میں پڑی تھیں کہ'' آج موسم بہت لُطف اندوز ہے'' مگر اسکے دل کی کیفیت اُن سب کو نفی کر رہی تھی۔ آنسو پلکوں سے گرنے کو بے تاب تھے مگر وہ ضبط کیے کھڑی تھی۔سڑک پہ آنے جانے والوں کی تعداد میں کمی آگئی تھی اِکادُکا لوگ ہی نظر آرہے تھے ۔وہ ہر راہ گیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتی مگر بے سُود۔ وہ کھبی ہاتھ میں پکڑے دس روپے کے نوٹ کو دیکھتی تو کھبی بیمار باپ اور دو چھوٹی بہنوں کا سراپا اُسکی آنکھوں کے سامنے گھومتا۔آج پھر وہ ان کو صرف دلاسے ہی دے سکے گی ۔یہ سوچ کر دو موٹے موٹے آنسو اُسکی آنکھوں سے گِرے۔ سردی میں کھڑے رہنے کی وجہ سے کمر میں شدید درد تھا بھوک کی وجہ سے قدم بوجھل تھے مگر وہ ہار نہیں سکتی تھی کیونکہ اگر وہ ہمت ہار جاتی تو اُسکے باپ اور بہنوں کا سہارا کون بنتا۔ مایوس ہو کر اُس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ راستے میں پکوڑوں اور سموسوں کی دکانوں سے آتی خوشبو اُسکا دل للچا رہی تھی مگر وہ دس روپے کا نوٹ ہاتھ میں دبائے گلی کی نُکڑپہ چھوٹی سی دُکان پہ پہنچی اور چائے کی پتی کا ساشے ہاتھ میں لیے سڑک سے نیچے کی جانب مُڑ گئی۔ اُسکی نظر ٹرین کی لائن کے ساتھ آخر والی خستہ خال جھونپڑی پر پڑی، ہوا جسکے آرپار ہو رہی تھی۔ وہ آج بھی خالی ہاتھ لوٹی تھی۔ نم آنکھیں لیے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی وہ جھونپڑی میں پہنچی جہاں دو ننھی جانیں اور ایک بے بس مرد آنکھوں میں اُداسی اور بے بسی کے ملے جُلے تاثُرات لیے ایک کونے میں بیٹھے تھے جبکہ باقی ساری جھونپڑی سے پانی ٹپک رہا تھا اُس نے جھونپڑی میں سوراخوں کے نیچے برتن رکھے مگر پانی متواتر ٹپک رہا تھا اور زمین پر بچھی پھٹی ہوئی چٹائی گیلی ہو گئی تھی ۔اُداس چہرے اُسے خالی ہاتھ لوٹتا دیکھ کر ہی مُرجھا گئے تھے۔ جھونپڑی کے ایک طرف چھوٹا سا مٹی کا چولھا رکھا تھا جو کہ تقریباً گیلا ہو چُکا تھا۔ اُس نے کچھ لکڑیوں کی مدد سے آگ جلانے کی ناکام کوشش کی پوری جھونپڑی میں دھواں دھواں تھا مگر وہ ابھی بھی پھونکیں مار مار کر آگ جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے کی مسلسل کوشش کے بعد چولھے سے سُرخ آگ کے شعلے نکلے اُس نے سیاہ دیگیچی میں پانی اور چائے کی پتی ڈال کر پکنے کے لیے رکھ دیا۔ وہ برستی ہوئی آنکھوں کے ساتھ آگ پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں توڑ کر رکھ رہی تھی۔ دسمبر کی پہلی بارش نے بہت سے زخموں کو تازہ کر دیا تھا۔ آج بھی حالات تین سال پہلے جیسے تھے جب اُسکا بھائی سردی سے تڑپ رہا تھا مگر اُسکے لیے ایک کپ چائے میسر نہیں تھی اور آج بھی وہ پانی پکا رہی تھی۔ اسے دسمبر کی سردی سے خوف آتا تھا اِسکی پہلی بارش میں اُسکی ماں ٹھٹھرتی ہوئی ہمیشہ کے لیے سکون کی نیند سو گئی تھی اور باپ کی حالت دیکھ کر اسکا دل خوف سے کانپتا تھا وہ اِس سہارے کو کھونے سے بہت ڈرتی تھی اُسے دسمبر کی پہلی بارش سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اُسکا ذہن ماضی میں سفر کر رہا تھا جب باپ کے کھانسنے سے اُسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔

اُس نے اُبلتے ہوئے پانی کو کپ میں ڈال کر سرکاری ہسپتال کی کچھ دواؤں کے ساتھ باپ کو دیا جس نے با مشکل کڑوا پانی حلق میں انڈھیلا اور نم آنکھوں سے وہیں لیٹ گیا۔ باپ کے بعد وہ دونوں بہنوں کی طرف بڑھی جنکی آنکھیں بُجھ سی گئی تھیں۔ گرم کپ ہاتھوں میں پکڑاتے ہوئے وہ اُنکو دلاسے دینے لگی کے دسمبر تو گُزر گیا ہے اب سردی بس کچھ ہی دن ہے اگلے سال سردیوں میں تم دونوں کو سوئٹر لے کردوں گی۔اُسکی آنکھوں سے بے بسی عیاں تھی جبکہ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ چکے تھے اُسکے ذہن میں ابھی تک وہ
الفاظ گونج رہے تھے ’’آج موسم بہت لُطف اندوز ہے‘‘
 
Aasia Muneer
About the Author: Aasia Muneer Read More Articles by Aasia Muneer: 28 Articles with 22425 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.