|
|
مہنگائی کا طوفان ایسا ہے جس نے اس وقت پورے ملک کو لپیٹ
میں لے رکھا ہے۔ ملک بھر کے لوگوں کی تنخواہ میں سال میں ایک بار اضافہ
ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف اشیا ضرورت کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ دیکھنے میں
آرہا ہے- |
|
ملک بھر میں پیاز جیسی عام ضرورت کی چیز بھی
180 سے 200 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے جبکہ بیرون ملک سے منگوایا گیا پیاز
بندرگاہ پر کنٹینر میں سڑ رہا ہے- دوسری طرف آٹا 130 روپے کلو سے اوپر
فروخت ہو رہا ہے ایک انڈہ 25 روپے اور چکن کی قیمت 600 روپے کلو تک جا
پہنـچی ہے- |
|
ان تمام چیزوں کے باوجود ہماری قوم مہنگائی
کے اس طوفان میں پسنے کے باوجود خاموشی سے ہر روز صبح کاروبار زندگی کے لیے
نکل رہی ہے اور رات گئے تھکے ہارے جب گھر لوٹ رہے ہیں تو کسی نہ کسی گلی کی
نکڑ پر ڈکیت ان سے ان کی ساری محنت کی کمائی لوٹ کر ان کو گولی مار کر فرار
ہو جاتے ہیں اور عوام نہ تو حکومت کے خلاف احتجاج کر پا رہی ہے اور نہ ان
ڈکیتوں کا کچھ بگاڑ پا رہی ہے- |
|
کیا
پاکستانی عوام ہمیشہ سے ایسی ہی بے حس تھی؟ |
ایسا نہیں ہے بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے
کہ اس ملک میں ایک وقت میں پاکستانی عوام اتنی بیدار اور طاقتور تھی کہ جب
ایک ڈکٹیٹر نے چینی کی قیمت میں صرف پونے دو روپے اضافہ کیا اور اس کی راشن
بندی کی تو پاکستانی عوام نے ایسے موقع پر اتنا پر اثر احتجاج کیا کہ اس کے
بعد اس حکمران کو خود استعفیٰ دے کر اقتدار کی کرسی سے خود کو علیحدہ کرنا
پڑا - |
|
|
|
1968 کی تحریک اور ایوب
خان |
ایوب خان کا عشرہ ترقی اور چینی ملک میں دونوں ایک ساتھ
ختم ہوئے- یہ جملہ ایوب خان کے دور کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کا ہے جو کہ
1958 سے لے کر 1969 تک ایوب خان کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے- مگر اس وقت
ایک بڑی مشکل کا شکار ہو گئے جبکہ ایوب خان میں ملک بھر میں چینی کی کمی کا
سامنا کرنا پڑا اور اس وقت میں حکومت نے جب چینی کی قیمت میں پونے دو روپے
اضافے کا اعلان اور راشن بندی کا اعلان کیا تو عوام احتجاج کے لیے اٹھ کھڑی
ہو گئی- |
|
یہ احتجاج 1968 میں ملک میں دولت کی بیس گھرانوں کے
درمیان غیر منصفانہ تقسیم اور مہنگائی کے خلاف تھا- جس کا آغاز کراچی کے
بورڈ آفس کے سامنے سے ہوا اور اس کی تپش پورے ملک میں اس شدت سے پھیل گئی
کہ مجبوراً ایوب خان جیسے طاقتور حکمران کو مسند اقتدار سے علیحدہ ہو کر
اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا- |
|
صرف چینی
نہیں بلکہ ٹرام کا کرایہ بڑھانا بھی دشوار |
پاکستانی قوم کے یہ حوصلے صرف 1968 تک ہی
زندہ نہ تھے بلکہ 1973 میں کراچی میں ٹرام سروس کو بھی کرایہ بڑھانے کی
ضرورت محسوس کی گئی اور کرايہ میں 5 پیسے کا اضافہ کر دیا گیا تو عوام نے
اس پر احتجاج کیا جس کو اخبارات نے شائع کیا اور عوام کے احتجاج سے مطلع
کیا- |
|
|
|
مگر اس کے بعد اس قوم نے جو روش اختیار کر لی
اس کے بعد سب کو اپنی اپنی پڑ گئی اور انہوں نے ایک دوسرے کے حق کے لیے
کھڑا ہونا چھوڑ دیا اور یہی وجہ ہے کہ آج کے اس دور میں جب مہنگائی آسمان
سے باتیں کر رہی ہے پھر بھی یہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار
نہیں- |