کہیں ماں نے کفن میں بیٹے کا ماتھا چوما تو کہیں بچے مردہ باپ کو پکارتے رہے، سیاست میں بہنے والے خون جو جلد بھلا دیے جاتے ہیں

image
 
پاکستان کی سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اپنی مقبولیت کا گراف بڑھانے اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے خون اور لاشیں چاہیے ہوتی ہیں- جس کے بعد وہ ایسے افراد کے بڑے بڑے جنازے پڑھتے ہیں اس کے خون کا بدلہ لینے کے لیے مظاہرے کرتے ہیں کچھ دن تک یہ خون خبروں کی ہیڈ لائن میں رہتے ہیں اور اس کے بعد یہ غم صرف مرنے والے کے گھر والوں تک رہ جاتا ہے اور سیاسی جماعتیں کسی اور کے خون کے حصول کے لیے نکل پڑتی ہیں-
 
اس حوالے سے کوئی کچھ بھی کہے مگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پیپلز پارٹی آج تک بھٹو کی لاش پر سیاست کر رہی ہے بینظیر بھٹو کے قتل کو کس طرح کیش کروایا گیا کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے اقتدار تو لے لیا مگر آج کے دن تک ان کے قاتل گرفتار نہ ہو سکے-
 
کچھ مظلوم جن کی لاشیں سیاست چمکانے کے کام آئيں
آج ہم ایسے ہی کچھ شہیدوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے اپنی جانیں تو سیاسی کارکن کے طور پر دے دیں مگر وقت گزرنے کے بعد اب ان کا غم صرف ان کے گھر والے ہی منا رہے ہیں-
 
لاہور کی ریلی میں مارا جانے والا علی بلال
گزشتہ دنوں جب الیکشن کی مہم کے آغاز کے طور پر پاکستان تحریک انصاف کے چئیر پرسن عمران خان نے لاہور سے ایک ریلی کا اعلان کیا تو حکومتی ارکان نے اس ریلی کو روکنے کے لیے دفعہ 144 لگانے کا اعلان کر دیا- اس کے بعد حکومت نے اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے واٹر کینن ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کر کے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی جس کے بعد علی بلال جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک سرگرم کارکن تھے ان کی لاش کچھ نامعلوم افراد نے ہسپتال لا کر چھوڑی اور خود غائب ہو گئے- 40 سالہ علی بلال کے بوڑھے والد نے اپنے بیٹے کی موت کا یہ سانحہ کس طرح سہا اس اذیت کو ان کی آنکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے جو ساری رات ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بیٹے کی لاش چھوڑ کر بیٹھا رہا جبکہ علی بلال کی ماں اپنے بیٹے کی پیشانی پر ہاتھ رکھے ساری رات اس تکلیف کو محسوس کرتی رہی جو مرنے سے قبل اس کے بیٹے نے اٹھائی ہوگی-
image
 
نیوز رپورٹر صدف نعیم کنٹینر سے گر کر ہلاک
پاکستان تحریک انصاف کی ریلیوں میں ایک اور افسوسناک واقعہ نیوز رپورٹر صدف نعیم کی موت تھی جو کہ عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کے دوران گر کر ہلاک ہو گئيں- ان کے مرنے کے بعد عمران خان نے نہ صرف ریلی کو وہیں روک دیا بلکہ صدف نعیم کے گھر جا کر نہ صرف ان کے شوہر سے ملاقات کی بلکہ ان سے تعزیت بھی کی- مگر آج ان کی موت کو چار مہینے گزر چکے ہیں ان کی موت کا غم صرف ان کے شوہر اور ان کے بچوں تک محدود ہو گیا ہے اور سیاسی جماعتیں آگے بڑھ گئی ہیں-
image
 
دو بچوں کا باپ جو کسی اور کی گولی کا نشانہ بن گیا
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران جب ریلی ملتان کے قریب پہنچی تو ایک شخص نے عمران خان کو گولی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جو ایک نوجوان کی کوشش سے ناکام ہو گئی مگر اس دوران چلنے والی گولیوں کا شکار ایک اور سیاسی کارکن بن گیا جو اپنے بچوں کے ساتھ عمران خان کی ریلی میں شرکت کے لیے آیا تھا- مگر جب گولی لگنے کے سبب موت کے منہ تک جا پہنچا تو اس کے معصوم بچے ہی اس کے سرہانے کھڑے رہ گئے-
image
 
ایک بچی جس نے اپنی ماں اور پھپھو کو ایک ہی دن کھو دیا
17 جون سال 2014 کا ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جبکہ عوامی تحریک کے دفتر کے باہر سے حفاظتی بند ہٹانے کے لیے کی جانے والی کاروائی کے دوران سات افراد ہلاک ہوئے جن میں 13 سالہ بسمہ امجد کی والدہ اور پھپھو بھی شامل تھیں- اس دن کو یاد کرتے ہوئے بسمہ کا کہنا تھا کہ ان کی پوری فیملی پاکستان عوامی تحریک کے پرجوش کارکن تھے اور ان کو رات ہی پولیس کے ارادوں کی خبر مل چکی تھی- اس وجہ سے وہ لوگ صبح نو بجے ہی وہاں پہنچ گئے تھے اور دفتر کے سامنے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کھڑے ہو گئے تھے- اسی دوران پولیس نے فائرنگ شروع کر دی اور ایک گولی اس کی والدہ کے چہرے پر آکر لگی جب کہ دوسری گولی اس کی پھپھو کے سینے میں جا کر لگی اور یہ دونوں خواتین اس وقت ہی شہید ہو گئيں- اس واقعہ کو نو سال گزر چکے ہیں مگر اب تک اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا-
image
 
یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نقصان سیاسی کارکن کی جان کا ہو تو اس کا اثر چند دن تک ہی ہوتا ہے اور اس کے بعد دکھ کے بادل صرف اس کے لواحیقن کو ہی اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں اور لیڈر ان کو بھول کر آگے بڑھ جاتے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: