بیٹی کی موت زندگی دے گئی، صرف چار ماہ زندہ رہنے والی بچی کے ماں باپ کا ایسا انوکھا فیصلہ جس نے بچی کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے

image
 
سرجری کے بعد بھی ڈاکٹر اس کی زندگی کے لیے پر امید نہ تھے۔ میں اور میرے شوہر آرا کی زندگی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔ لیکن اس وقت میں پتہ چلا کہ ہر چیز پیسے سے نہیں خریدی جا سکتی
اگر پیسوں سے ہی زندگی خریدی جا سکتی تو میرے اور میرے شوہر کے میڈیکل انشورنس کارڈ آرا کی بچی کی زندگی کو محفوظ کر سکتے تھے-
 
یہ الفاظ ہیں پریا گلیانی کے جو کہ بھارت کی ایک معروف جرنلسٹ ہیں جن کے شوہر انامی بھٹاچاریہ ایک وکیل ہیں۔ سال 2015 میں جب وہ امید سے ہوئيں تو ان کی یہ پریگننسی اگرچہ ان پلان تھی۔ اور ان کی عمر بھی 35 سال ہو چکی تھی۔ جبکہ میڈيکل ماہرین کے مطابق اس وقت حمل کا ٹہرنا پیچیدگیوں کا سبب ہو سکتا ہے۔
 
حمل کے نو مہینے
مگر اس سب کے باوجود ان کی یہ پریگننسی بہت پرفیکٹ رہی اور کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر کی دی گئی تاریخ سے ایک ہفتہ قبل فروری 2016 میں ان کی بیٹی آرا نارمل ڈلیوری سے پیدا ہوئی-
 
دل کی پیچیدہ بیماری
ڈلیوری کے بعد جب ان کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی بچی کو نرسری میں رکھا گیا ہے تو ان کا یہی خیال تھا کہ جب سب ٹھیک ہے تو یہ روٹین کی ایک پریکٹس ہے۔ مگر جب شام تک ان کی بچی ان کے حوالے نہیں کی گئی، تو انہوں نے اپنے شوہر سے پوچھا تو اس وقت ان کے شوہر نے یہ روح فرسا انکشاف کیا ۔کہ ان کی بچی پیدائشی طور پر ٹرنکس آرٹیوسس نامی ایک دل کی بیماری میں مبتلا ہے-اس بیماری کے مطابق دل میں آنے والا خون پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے اور وہاں جا کر سانس میں دشواری پیدا کرتا ہے-
 
 
اس بیماری سے بچا جا سکتا تھا
پریا گلیانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بیماری سے بچا جا سکتا تھا اگر ان کی بچی کا دوران حمل ایک دل کا الٹرا ساونڈ کر دیا جاتا جو کہ عام طور پر مغربی ممالک میں حمل کے دوران کروایا جاتا ہے- مگر بھارت اور اس جیسے ترقی پزیر ممالک میں اس قسم کی پریکٹس موجود نہیں ہے-
 
14 دن بعد پہلی سرجری
پریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب انہوں نے ڈاکٹروں سے اس حوالے سے پوچھا کہ ان کی بچی ٹھیک تو ہو جائے گی؟ تو ان کا جواب بہت عجیب تھا ان کا یہ کہنا تھا کہ ہر بڑھتی عمر کے ساتھ بچی کو سرجری کی ضرورت ہو گی۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی زندگی کو برقرار رکھا جا سکے گا۔
 
پہلی سرجری کے موقع پر جب آرا کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا اور یہ دونوں ماں باپ تھیٹر کے باہر بیٹھ کر دعا کر رہے تھے۔ اسی وقت ان کے پاس اسی ہسپتال میں داخل ایک اور بچے کا باپ بھی آیا جس کا کہنا تھا کہ اس کے بچے کی جان آپریشن سے بچ سکتی ہے۔
 
اس وقت پریا کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر نے اس بچے کے آپریشن کے تمام اخراجات کا انتظام اپنے دوستوں اور جاننے والوں کی مدد سے کر دیا اور اس کی جان بچا لی-
 
آپریشن کے بعد پیچیدگی
آرا کے دل کے آپریشن کے بعد ہونے والی پیچیدگی نے اس کی ہاضمی نالی کو متاثر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کا کھانا پینا بند کر دیا گیا اور ڈيڑھ مہینے تک اس بچی کو صرف ڈرپس پر رکھا گیا۔ مگر اس کے بعد جب آرا کی حالت بہتر ہوئی تو اس کو یہ لوگ گھر لے آئے۔
 
آرا کی موت اور بڑا فیصلہ
مگر ایک رات سونے کے دوران اچانک آرا کا سانس بند ہو گیا دونوں ماں باپ اس کو فوری طور پر ہسپتال لے کر گئے۔ مگر صرف چار مہینے زندہ رہنے کے بعد وہ ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی-
 
image
 
یہ وقت ایسا تھا جب کہ ان ماں باپ نے اپنی بچی کی موت سے سبق سیکھا کہ تمام تر وسائل کے باوجود اگر وہ اپنی بچی کو نہیں بچا سکے۔ تو وہ کسی اور ماں باپ کو یہ دیکھ برداشت نہیں کرنے دیں گے کہ وہ سوچیں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کا بچہ اس دنیا سے چلا گیا۔
 
اس وجہ سے انہوں نے جینیسس فاونڈیشن نامی ایک ایسی این جی او سے خود کو جوڑ لیا جو کہ ایسے بچوں کے علاج معالجے کے انتظامات کرتی ہے جن کے والدین اخراجات افورڈ نہیں کر سکتے-
 
پریا اور انامی کو ان کی نیک نیتی کے سبب اللہ تعالیٰ نے دو سال پہلے ایک بیٹے سے بھی نوازہ ہے جو مکمل طور پر صحت مند ہے- مگر اس کے باوجود انہوں نے آرا کی موت کے بعد جس کام کا آغاز کیا تھا اس سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آج بھی وہ کئی بچوں کے علاج کے اخراجات جمع کر کے ان کو نئی زندگی دے چکے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: