جہاز کی ونڈ سکرین ٹوٹی اور پائلٹ باہر لٹک گیا لیکن پھر... انٹرنیٹ پر وائرل اس تصویر کی حقیقی کہانی جو اپ کو حیران کردے گی

image
 
10 جون 1990 کو برٹش ایئرویز کا جہاز برمنگھم سے اڑا تو اس کی منزل سپین کا شہر مالاگا تھی۔ یہ تقریباً تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ کپتان ٹم لانکیسٹر اور ان کے کو پائلٹ الیسٹر ایچیسن آرام سے کاک پٹ میں محو گفتگو تھے۔
 
سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ جہاز کا عملہ مسافروں کو کھانا دینے کی تیاری کر رہا تھا جبکہ مسافروں کی اکثریت سپین کے ساحل پر چھٹیاں منانے کی تیاری میں مشغول تھی۔
 
پھر اچانک کچھ ایسا ہوا جس نے سب کو حیران کر دیا۔
 
ٹیک آف کو 13 منٹ ہی گزرے تھے کہ جہاز کے کیبن سے زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ فلائٹ اٹینڈنٹ نائجل اوگڈن نے چند ہی لمحے قبل دونوں پائلٹس کو چائے کا کپ دیا تھا۔ ان کو لگا کہ کیبن میں بم پھٹا ہے۔
 
سڈنی مارننگ ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے نائجل اوگڈن کا کہنا تھا کہ ’پورا کیبن جیسے دھند سے بھر گیا تھا۔ پھر اچانک جہاز نیچے کی طرف جانا شروع ہو گیا۔‘
 
یہی وہ لمحہ تھا جب ان پر حقیقت آشکار ہوئی۔ کیبن کی ایک کھڑکی غائب ہو چکی تھی اور اس جگہ ایک واضح شگاف موجود تھا۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ اس شگاف سے جہاز کے کپتان ٹم لینکاسٹر باہر لٹک رہے تھے۔
 
’مجھے صرف ان کی ٹانگیں نظر آ رہی تھیں۔ میں نے چھلانگ لگائی اور ان کو کمر کے گرد سے دبوچ لیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے جہاز سے کوئی ہر چیز باہر کی طرف کھینچ رہا ہے۔ ایک آکسیجن کی بوتل جو نیچے گر چکی تھی اڑ کر میرے سر پر آ کر لگی۔‘
 
ایسے میں نائجل اوگڈن کے لیے کپتان کو مزید پکڑ کر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ٹم کا باقی جسم بھی آہستہ آہستہ جہاز سے باہر کی جانب کھسک رہا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسی وقت کیبن کے عملے کے دو اراکین سائمن راجرز اور جان ہیورڈ بھی کیبن میں داخل ہوئے۔
 
نائجل اوگڈن کا کہنا ہے کہ ’میرے بازو شل ہو رہے تھے۔ مجھے لگا ہم ٹم کو کھو دیں گے لیکن پھر اس کے جسم نے کھڑکی پر یو کی شکل بنا لی۔ اس کا چہرہ کھڑکی سے ٹکرائے جا رہا تھا۔ اس کی ناک اور سر سے خون بہہ رہا تھا۔‘
 
’سب سے خوفناک منظر اس کی آنکھوں کا تھا جو ہوا کے زور سے پوری کھلی ہوئی تھیں۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھلا سکتا۔‘
 
image
 
ایک دستاویزی سیریز مے ڈے میں پائلٹ ٹم لینکاسٹر نے بتایا کہ ان کو یاد ہے کہ ’جہاز کی ونڈ سکرین ایک گولی کی طرح غائب ہوئی جس کے بعد مجھے لگا جیسے میں ہوا میں بلند ہوا اور مجھے یاد ہے کہ میں جہاز سے باہر معلق تھا۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے مشکل چیز سانس لینا تھا۔
 
’مجھے جہاز کی دم اور انجن نظر آیا۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔ میری یادداشت اس لمحے کے بعد رک گئی تھی۔‘
 
فلائٹ اٹنڈینٹ راجرز نے کپتان کے پیر سیٹ سے باندھ کر ان کے ٹخنے پکڑ لیے۔ ان سب کو لگا کہ ٹم مر چکا ہے۔
 
تقریباً 400 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا ٹم کے جسم کو جہاز سے بار بار ٹکرانے پر مجبور کر رہی تھی۔ عملے کو یہ خوف بھی تھا کہ اگر انھوں نے ٹم کے جسم کو چھوڑ دیا تو وہ جہاز کے انجن سے ٹکرا سکتا ہے۔
 
کو پائلٹ ایچیسن نے جہاز کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی اور عملے نے جہاز میں سوار 81 مسافروں کو اطمینان دلانے کی کوشش جاری رکھی۔
 
image
 
ایک مسافر نے بتایا کہ ’ایک فلائٹ اٹنڈینٹ جہاز کے پچھلے حصے میں کھڑا رو رہا تھا۔ مجھے لگا جہاز کریش کرنے والا ہے۔ میں نے دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔‘
 
کو پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کی ونڈ شیلڈ ٹوٹ گئی ہے اور اب وہ ایمرجنسی لینڈنگ کی کوشش کریں گے اور اچنسن اس میں کامیاب رہے۔ سات بج کر 55 منٹ پر جہاز ساؤتھ ہیمپٹن ایئر پورٹ پر اترا تو سب کی جان میں جان آئی۔
 
حیران کن طور پر ٹم بھی زندہ تھے۔ وہ بیہوش اور زخمی تھے لیکن سانس لے رہے تھے۔
 
image
 
یہ کافی اچنبھے کی بات تھی خصوصاً طبی عملے کے لیے کہ 20 منٹ سے زیادہ وقت تک اتنی بلندی پر جما دینے والے درجہ حرارت میں طاقتور ہوا میں وہ کیسے زندہ رہے۔
 
ٹم کے جسم میں کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ وہ فراسٹ بائٹ کا شکار بھی تھے لیکن چند ماہ میں وہ کام پر واپس آ گئے اور حادثے کے پانچ ماہ بعد ایک بار پھر فضا میں جہاز اڑا رہے تھے۔
 
برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کی فضائی حادثات کی تفتیش کرنے والی برانچ کے مطابق جہاز کی اڑان سے پہلے ونڈ سکرین کی دیکھ بھال قوائد و ضوابط کے مطابق نہیں کی گئی تھی اور اسی لیے یہ دوران پرواز ٹوٹ گئی۔
 
دیکھ بھال کے ذمہ دار اہلکار نے ایسے پیچ استعمال کیے تھے جو ونڈ سکرین کے لیے درکار سائز سے کافی چھوٹے تھے اور وہ ونڈ سکرین کو اپنی جگہ رکھنے میں ناکام رہے۔
 
1992 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مینٹیننس مینیجر نے قوائد کا خیال نہیں رکھا اور کمپنی کے قوانین کو لاگو کرنے میں ناکام رہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: