یہی ’خدا کا فیصلہ‘ تھا٬ بدترین حادثہ جس میں پوری ٹرین سمندر میں غائب ہو گئی لیکن غلطی کسی انسان کی نہیں

image
 
سمندر میں پیش آنے والے اس ٹرین حادثے میں کسی انسان کا قصور نہیں تھا، یہ ’قدرتی امر‘ تھا اور بعدازاں اس حادثے کو ’خدا کا فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے فائل بند کر دی گئی۔

15 دسمبر 1964 کو محکمہ موسمیات نے خلیج بنگال میں جزائر انڈمان کے جنوب میں ایک طوفان کے بننے کی پیش گوئی کی۔ اُسی دن سے تیز آندھی اور بارش بھی شروع ہو گئی اور اگلے چند دنوں میں یہ طوفان جنوبی انڈیا کی طرف بڑھنے لگا۔

اس طوفان کی پیش گوئی کے سات روز بعد یعنی 22 دسمبر 1964 کو یہ تقریباً 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سری لنکا کی سمندری حدود سے انڈیا کی طرف بڑھا لگا اور ملک کے جنوبی سرے کی ریاست تامل ناڈو کے پامبن جزیرے سے ٹکرا گیا۔

جب یہ طوفان انڈیا سے ٹکرایا تو اس کی رفتار تقریباً 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔

طوفان کے ٹکرانے سے پہلے پامبن جزیرے کے دھنوشکوڈی ریلوے سٹیشن پر کافی ہلچل تھی۔ کیونکہ جیسے جیسے طوفان قریب آیا، کچھ لوگ جزیرے کو چھوڑ کر جزیرے سے باہر آبادیوں میں واقع اپنے رشتہ داروں کے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ کچھ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دیگر محفوظ مقامات کی تلاش میں تھے۔

یہ 1960 کی دہائی تھی، اس لیے جزیرے سے سمندر کنارے شہر تک جانے کے لیے ریل کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں تھا۔

جیسا کہ طوفان کی پیشن گوئی کی گئی تھی، بہت سے لوگوں نے دن میں ٹرین سے سفر کیا۔ لیکن جن لوگوں نے 22 دسمبر سے پہلے رات کو ٹرین پکڑی تھی ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

دو کلومیٹر طویل ’پمبن برج‘، جو پامبن جزیرے کو انڈین سرزمین سے ملاتا ہے، آج بھی اپنے قدرتی نظاروں کے لیے جانا جاتا ہے۔

یہ پُل جزیرے کو تمل ناڈو کے منڈپم ریلوے سٹیشن سے جوڑتا ہے۔ دھنوشکوڈی سے منڈپم جانے والی مسافر ٹرین کے ڈرائیور نے رات 8:30 بجے منڈپم کنٹرول روم کو اطلاع دی کہ ’دھنوشکوڈی، رامیشورم روڈ سیکشن میں گرد و غبار اُڑ رہی ہے۔ ٹریک پر اتنی دھول ہے کہ آگے بڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔‘

پیغام ملتے ہی کنٹرول روم میں پُل انسپکٹر کچھ ملاحوں کے ساتھ راستہ صاف کرنے گئے کیونکہ پمبن، دھنوشکوڈی مسافر ٹرین کو رات کو اس راستے سے گزرنا تھا۔

دریں اثنا، رات 9 بجے پامبن برج آپریٹر نے کنٹرول روم کو پیغام بھیجا کہ موجودہ ہوا کی رفتار 64 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہے، اور یہ رفتار مسافر ٹرینوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔

کنٹرول روم کو بھیجے گئے اس پیغام کے بعد ہوا کی رفتار مزید بڑھنے لگی اور موسلادھار بارش ہونے لگی۔

اور اسی دوران چھ بوگیوں پر مشتمل مسافر ٹرین تقریباً 130 مسافروں کے ساتھ 11:10 بجے پمبن ریلوے سٹیشن سے دھنوشکوڈی کے لیے روانہ ہوئی۔ اس میں ریلوے کے 18 ملازمین بھی شامل تھے۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت پر رامیشورم روڈ سٹیشن پر پہنچی، تاہم سگنل کی تاخیر کی وجہ سے وہ وہاں سے پندرہ منٹ تاخیر سے روانہ ہوئی۔

اگلا ریلوے سٹیشن دھنوشکوڈی تھا۔ ٹرین 12:30 بجے دھنوشکوڈی ریلوے سٹیشن پہنچنے والی تھی۔ سگنل مین سٹیشن کے قریب ایک کیبن میں ٹرین کا انتظار کرتا رہا لیکن ٹرین وہاں تک نہیں پہنچی۔
 
image
 
رات 12:30 کے قریب تیز ہواؤں کے ساتھ تیز بارش ہو رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں دھنوشکوڈی میں کنٹرول روم اور سگنل کیبن کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔ صورتحال اس قدر خراب تھی کہ دھنوشکوڈی ریلوے سٹیشن پوری طرح پانی میں ڈوب گیا۔

اس دوران ٹرین مقررہ وقت پر نہیں پہنچی۔ دھنوشکوڈی ریلوے کے عملے نے محسوس کیا کہ شاید اس طرح کے طوفانی اور برساتی موسم کی وجہ سے ٹرین رامیشورم سٹیشن پر واپس چلی گئی ہے۔

دوسری جانب رامیشورم روڈ سٹیشن پر ریلوے کے عملے نے سوچا کہ ٹرین بحفاظت دھنوشکوڈی مقررہ وقت پر پہنچ گئی ہو گی۔ آسمانی بجلی، تیز آندھی اور تیز بارش کی وجہ سے دونوں ریلوے سٹیشنوں کا عملہ ٹرین کا حال دریافت کرنے نہ جا سکا اور پھر صبح ہو گئی۔

23 دسمبر کو طوفان تھوڑا سا تھم گیا لیکن قدرت کے قہر کی بدولت دھنشکوڈی سٹیشن کا وجود تقریباً ختم ہو گیا۔ یہاں کے مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔ رامیشورم روڈ اور دھنوشکوڈی ریلوے سٹیشن کے درمیان رابطہ بحال ہوا اور تب یہ معلوم ہوا کہ ٹرین غائب ہے۔

پورا راستہ چیک کیا گیا لیکن ٹرین کہیں نظر نہیں آئی۔ راستہ چونکہ سمندر میں گھرا ہوا تھا اور موسمی حالات کے باعث اُس وقت سمندر میں ریسکیو آپریشن تقریباً ناممکن تھا۔ یہ ٹرین کی تلاش میں نکلنے والے ریلوے ملازمین اور امدادی عملے کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ پورا دن گزر گیا لیکن ٹرین اور اس میں سفر کرنے والے تقریباً 130 لوگ نہیں ملے۔
 
image

24 دسمبر کو طوفان مکمل طور پر تھم گیا، لیکن تباہی پیچھے رہ گئی۔ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، اربوں روپے کا نقصان ہوا، جزیرہ پر بسا پورا شہر تباہ ہو گیا۔ اسی دوران ریلوے کے ایک ملازم نے ساحل سمندر پر کوئی مشکوک چیز دیکھی۔ طوفان نے بہت سی اشیا کو زمین سے سمندر میں گرا دیا تھا، لیکن کارکن جانتا تھا کہ یہ ایک الگ کہانی ہے۔

اس نے واقعے کی اطلاع اپنے اعلیٰ افسران کو دی اور جائے وقوعہ کا جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ یہ وہی گمشدہ ٹرین ہے۔ بالکل واضح طور پر، مگر یہ صرف ٹرین کا ملبہ تھا۔۔۔ بس!

یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ ٹرین میں سفر کرنے والے 130 افراد میں سے کوئی بھی زندہ بچا ہو گا۔ ٹرین کا ملبہ ملنے کے بعد قیاس کیا جا رہا تھا کہ طوفان کے باعث مسافروں سے بھری ٹرین سمندر میں الٹ گئی اور کوئی زندہ نہیں بچا۔

اگلے روز مسافر ٹرین کے سمندر میں الٹنے کی خبر ’انڈین ایکسپریس‘ کے صفحہ اول پر تھی۔ پمبن ریلوے سٹیشن کے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کو اس رات پمبن، دھنوشکوڈی مسافر ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد گننے کا کام سونپا گیا تھا۔

انھوں نے بعدازاں اس سلسلے میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ ’عام طور پر ہم ٹرین میں سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد نہیں گنتے۔ لیکن اس دن ہم سے ایسا کرنے کو کہا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ مسافروں کی تعداد گننے کی وجہ یہ تھی کہ اگر مسافروں کی تعداد کم ہوتی تو ٹرین منسوخ کر دی جاتی، لیکن مسافر ٹرین کو جھنڈی دکھانے (روانہ کرنے) کے لیے چھ بوگیوں میں کافی مسافر تھے۔

انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق حادثے میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کا کسی کو علم نہیں ہے۔ ٹرین میں سفر کرنے والے 110 عام افراد اور 18 ریلوے ملازمین کو مردہ قرار دیا گیا۔ چونکہ یہ سانحہ ایک ’ایکٹ آف گاڈ‘ (یعنی خدا کا فیصلہ) تھا، اس لیے کسی انسان کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: