ہمارے ساتھ چلو رقم بھی وہاں پہنچ کر دینا٬ پاکستانی نوجوانوں سے یورپ کے خواب دکھانے والے ایجنٹ کتنے کم پیسے مانگتے ہیں؟

image
 
’جس دن گیم ہوگی اس دن آپ کو کوئٹہ آنا ہوگا اور بس اڈے پر پہنچنا ہوگا۔ راستے کا خرچہ 35000 ہزار روپے تک آ سکتا ہے۔ گیم کا مطلب ہے جس دن سفر شروع ہوگا۔‘

’خواتین کے لیے گاڑی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کے پیسے الگ سے دینے پڑتے ہیں۔ کیونکہ لوگوں کو جمع کرنا پڑتا ہے گاڑی میں ساتھ جانے کے لیے ہر کوئی راضی نہیں ہوتا۔۔۔ تمام تر پیسے جگہ پر پہنچ کر دینے پڑتے ہیں۔ اور ایڈوانس کچھ نہیں ہوتا۔‘

یہ میری اس مختصر سی گفتگو کے چند جملے ہیں جن میں ایک ایجنٹ مجھے غیر قانونی طور پر یورپ تک ’ڈنکی لگانے‘ کے ریٹ اور طریقہ کار سمجھا رہا تھا۔

یاد رہے کہ غیرقانونی طریقے سے پیدل یا پھر کشتی میں سوار ہو کر ترکی سے یونان یا اٹلی یا کسی یورپی ملک جانے کو ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ زیادہ تر گجرات، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں استعمال ہوتا ہے جبکہ بلوچستان کے راستے ایران جانے والوں کو وہاں کے انسانی سمگلرز ’مہمان‘ کہتے ہیں۔

مگر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے انسانی سمگلرز سے رابطہ کرنے یا ان سے بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

مجھے قطعاً غیرقانونی طریقے سے یورپ نہیں جانا مگر مجھے اس سوال کے جواب کی ضرور تلاش تھی کہ وہ پاکستان شہری جو یورپ جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ ان انسانی سمگلرز تک کیسے پہنچتے ہیں اور ابتدائی معاملات کیسے طے پاتے ہیں؟
 
image
 
’کیا کوئی اٹلی تک ڈنکی لگا رہا ہے؟‘
اپنی تحقیق کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا وہ بڑا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے انسانی سمگلر عام لوگوں کو اپنے دام میں پھنساتے ہیں۔

تھوڑی سی تحقیق کرنے پر فیس بُک اور ٹک ٹاک پر ایسے متعدد صفحات سامنے آ گئے جہاں لوگوں کو یورپ تک ’ڈنکی لگانے‘ کی آفر دی جا رہی تھی۔ اور یاد رہے کہ یہ صورتحال اس وقت ہے جب یونان میں کشتی حادثہ پیش آ چکا ہے اور حکومت کے مطابق وہ انسانی سمگلرز کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

ان مختلف سوشل میڈیا صفحات پر 200 سے لے کر 12000 تک ارکان شامل ہیں۔ یہاں اکثر لوگ سوال پوچھتے نظر آئے کہ ’کیا کوئی اٹلی تک ڈنکی لگا رہا ہے؟‘ یا پھر ایجنٹ کی جانب سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’اگر کوئی ترکی تک ڈنکی لگانا چاہتا ہے تو کمنٹس میں جواب دے۔‘

جواب دینے پر لوگوں کو واٹس ایپ نمبر اور ایجنٹ کا نام (جو کہ فرضی لگتا ہے) بتا دیا جاتا ہے۔ پھر ان سے باقی کی باتیں اسی واٹس ایپ نمبر پر کرنے کو کہا جاتا ہے۔ فرضی نام اس لیے لگتا ہے کیونکہ اسی نام کا پہلے ایک فرد آپ سے بات کرتا ہے اور پھر فون کرنے پر دوسرا۔

اس رپورٹ کی تحقیق کے لیے جب میں نے ایک ایسے ہی عام سے فیس بُک پیج پر موجود نمبر کے ذریعے ایک ایجنٹ (حاجی عظمت) کے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ مجھے ترکی جانا ہے تو اس نے فوراً واٹس ایپ پر ایک فہرست بھیج دی۔

اس فہرست میں مختلف سروسز کی قیمت اور طریقہ کار لکھا ہوا تھا۔

مثال کے طور پر مجھے بتایا گیا کہ کیسے مجھے تین طریقوں سے ترکی پہنچایا جا سکتا ہے۔

’نارمل‘ اور ’وی آئی پی‘ گیم
ان کی جانب سے بھیجی گئی تفصیلات کے مطابق پہلا طریقہ ’نارمل گیم‘ کے ذریعے جانے کا جس میں تین لاکھ روپے لگیں گے۔

دوسرا طریقہ ہے ’وی آئی پی گیم‘ کا جس کے ساڑھے تین لاکھ ہوں گے اور تیسرا طریقہ ہے ’فُل وی آئی پی گیم‘ کا جس کے لیے ساڑھے چار لاکھ روپے لگ سکتے ہیں۔

اس کے فوراً بعد مجھے ایک وائس نوٹ کے ذریعے ایجنٹ نے بتایا کہ کیسے ’تمام تر پیسے جگہ (منزل پر پہنچ کر) پر پہنچ کر دینے پڑتے ہیں۔ اور ایڈوانس کچھ نہیں ہوتا۔‘
 
image

دوسری بات یہ بتائی گئی کہ ’جس دن گیم ہو گی اس دن آپ کو کوئٹہ آنا ہوگا۔ اور بس اڈے پر پہنچنا ہو گا۔ راستے کا خرچہ 35000 ہزار روپے تک آ سکتا ہے۔۔۔‘

ایجنٹ نے بتایا کہ ’گیم کا مطلب ہے جس دن سفر شروع ہوگا۔‘

یورپ تک پہنچنے کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ اس سفر کی حامی اور پیسے بھرنے والوں کو پنجاب سے کوئٹہ، کوئٹہ سے ایران اور ایران سے پھر ترکی لے جایا جاتا ہے۔ ترکی کے بعد یورپ تک جانے کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اور یہاں سے کشتیوں کے نچلے حصے میں بند ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے۔

اس تمام تر سفر کی تیاری سے لے کر تفصیلات تک سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔ جبکہ ٹک ٹاک پر ترکی کے راستے یورپ پہنچنے والوں سے تعریفی ویڈیوز بھی بنوانے کو کہا جاتا ہے جہاں پہنچنے والے افراد بتاتے ہیں کہ انھیں کتنی اچھی ’سروس‘ ملی ہے۔
 
image

ٹک ٹاک پر ’ڈنکی‘ کی داستانیں
ٹِک ٹاک پر زیادہ تر یورپ تک سفر کرنے والے ایسے کئی صارفین نے اپنی ویڈیوز لگائی ہوئی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق گجرات اور سیالکوٹ یا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔

ان میں پاکستان سے اٹلی، رومانیہ، بلغاریہ اور ترکی کے راستے یونان جانے کی بھی ویڈیوز موجود ہیں۔

سوشل میڈیا صفحات پر پوسٹ کی گئی ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے صارفین یورپ کے نزدیک پہنچنے پر سیڑھی کے ذریعے سرحد پر لگی باڑ کو عبور کر رہے ہیں۔

چند ویڈیوز میں صارفین اٹلی یا رومانیہ پہنچنے کے بعد ’ڈنکی‘ کروانے والوں کا شکریہ بھی ادا کر رہے ہیں اور اپنے دیگر دوستوں کو ان کے ساتھ جانے کی تاکید بھی کر رہے ہیں۔
 
image

ان تمام تر ویڈیوز کو کہیں 90 ہزار افراد تو کہیں 10 لاکھ لوگوں نے دیکھا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ کے فائل کرنے تک چند اکاؤنٹ، جن تک بی بی سی نے رسائی حاصل کی تھی، وہ اب ڈیلیٹ کیے جا چکے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے ایجنٹ دور کیوں؟
اب سوال یہ ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے متعلق یہ معلومات جب اتنی آسانی سے ان ویب سائٹس پر موجود ہیں تو ان تک قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں؟

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ترجمان نے بتایا کہ ’ڈائریکٹر جنرل کی ہدایات کا انتظار ہے جس کے بعد ان تمام تر صفحات کو بلاک کر دیا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آے کا پورا ارادہ ہے کہ ’ناصرف پاکستان میں بلکہ غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد سے ایسے ایجنٹس تک پہنچا جائے۔‘

انھوں نے منگل کے روز ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ایسے تمام تر ایجنٹس اور انسانی سمگلروں کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک ملازمت کی آگاہی بھی دی جائے گی۔‘

ایف آئی اے کے دعوے اپنی جگہ لیکن اس وقت سوشل میڈیا پر ایسا مواد دیکھ کر تاثر یہی ملتا ہے کہ پاکستان سے انسانی سمگلنگ کا باآسانی خاتمہ ہونا کافی مشکل ہے۔
 
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: