شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (قسط نمبر 37)

آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، صوبہ سرحد اور آزاد جموں وکشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ کتابیں صوبہ سرحد اور گیارہ کتابیں حکومت آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔لودھی صاحب آپ کے بچپن کی کہانی تو واقعی بہت سنسنی خیز ہے ۔جس میں آپ نے اپنی زندگی کی ابتداء کی تھی ، آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے والد صاحب کی زندگی تو اور بھی مشکل ، کٹھن ،تکلیف دہ اور آزمائشوں سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔حقیقت میں پرانے لوگ بہت نڈر، بہادر اور محنتی انسان تھے ۔جو اپنی اولاد کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی جان پر بھی کھیل جاتے تھے ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب آپ نے جو کہا اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ ہم پانچ بھائی اور ایک بہن تھی۔ بہن بچپن ہی میں اﷲ کو پیاری ہوگئی ۔ والد صاحب اولاد میں سب سے زیادہ مجھے پیار کرتے تھے ،حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پڑھائی کے معاملے میں پھینٹی بھی مجھے ہی پڑھتی تھی ،اس کا تذکرہ اسی قسط میں شاید آئے گا۔
......................
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ان دنوں فریج اور ریفریجریٹر کے ساتھ ساتھ برف کا بھی رواج نہیں تھا لیکن گرمی اس قدرپڑتی تھی کہ اس کی شدت سے لوگ مربھی جاتے تھے اور پاگل بھی ہو جایا کرتے تھے بطور خاص ساون بھادوں کے مہنیوں میں۔ چونکہ ہم جیسے انسانوں کے لئے آسائشوں کے دروازے ابھی کھلے نہیں تھے، اس لئے ہم لوگ پیاس کی شدت کوکم کرنے کے لئے گھڑوں کا پانی ہی صبر شکر کر کے پی لیاکرتے تھے۔ مہمانوں کو شکر کے شربت میں ستو ڈال پلا دیئے جاتے تاکہ تاثیر ٹھنڈی ہو جائے۔ پانی کی ایک ایک بوند کو چونکہ اپنے کندھوں پر اٹھا کرلانا پڑتا تھا۔ اس لئے لوگ ہفتہ ہفتہ نہاتے نہیں تھے اور کپڑے بھی ہفتے میں ایک ہی بار بدلتے تھے۔ استری کا رواج عام نہیں تھا۔ لوگ کپڑوں کو تہہ کرکے تکیوں کے نیچے رکھ لیتے۔ پھر اگلی صبح بڑے اہتمام سے نکال کر پہن لیتے۔ لکیر دار پاجامے اور سفید کرتے کا رواج عام تھا‘ کچھ لوگ تہمند بھی شوق سے پہنتے تھے۔دوپہر ڈھلتے ہی والدہ ہمیں ایک کہلاڑی دے کر دو بڑے تالابوں کے اردگرد اگی ہوئی جھاڑیاں کاٹ کر لانے کو بھیج دیتیں۔ انہیں ہم کلہاڑی سے کاٹ کر رسی باندھ کر کھینچ کر گھر لے آتے ‘ اس کے علاوہ کپاس کی سوکھی چھڑیاں بھی جلانے کے کام آتیں۔ آگ جلانے کے لئے صرف مٹی کا تیل ہی دستیاب تھا ،جسے لکڑیوں پر ڈال کر آگ سلگانے کی جستجو کی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لئے لوہے کی بنی ہوئی پھونکنی کا سہارا لیا جاتا ۔اگر لکڑیاں گیلی ہوتیں تو آگ جلانے والے کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں بلکہ سوج بھی جاتیں۔ اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان دنوں مسعود رانا کا ایک گانا بڑا مشہور ہوا تھا۔
’’رناں والیاں دے پکن پراٹھے تے چھڑیاں دی اَگ نہ بلے‘‘
اس گانے کے بولوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ آگ جلا نا ہی بہت مشکل کام تھا یہ کام صرف مضبوط اعصاب کی خواتین ہی کر سکتی تھیں۔ مرد حضرات اکثر اس میں ناکام رہتے تھے۔ ہمارے گھر میں کالے تیل میں بھیگا ہوا سوتر آگ جلانے کے لیے محفوظ کرلیا جاتا تھا جو ہمیں ریلوے کے اسٹیم انجن سے مفت دستیاب ہو جاتا۔ ہم یہ سوتر مٹکے میں رکھ کر ایسے محفوظ کر لیتے کہ وہاں تک پانی کی سیلن نہ پہنچ سکتی۔
اوپر جن دو بڑے تالابوں کی بات ہوئی ہے ۔ جس زمانے میں کالے اسٹیم انجن چلا کرتے تھے اس وقت کچھ اسٹیشن بعد انگریزوں نے اسٹیم انجنوں میں پانی بھرنے کے لیے اسٹیشن کے قریب ہی بڑے بڑے تالاب تعمیر کررکھے تھے۔ مجھے یہ علم نہیں کہ ان تالابوں میں پانی کیسے بھرا جاتا تھا اور کس طرح تالابوں سے نکال کر پانی اسٹیم انجنوں میں ڈالا جاتا تھا ۔ پتوکی ریلوے اسٹیشن سے ملحقہ ایک بڑا سا پختہ تالاب اب بھی موجود ہے جو اس مقصد کے لیے کام آتا تھا لیکن واں رادھارام میں جو بہت بڑے اور گہرے تالاب کھود کر ادھورے چھوڑ دیے گئے ، وہ ہمارے لیے خوف کی علامت بن چکے تھے ، جن میں نہ اترنے کا کوئی راستہ تھا اور نہ اوپر چڑھنے کا ۔جو بندہ رات کے اندھیرے میں غلطی سے ان تالابوں میں گر جاتا اس کا زندہ باہر نکلنا ناممکن تھا ۔ یہ دونوں خوفناک تالاب ہمارے کوارٹروں سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھے ۔جن سے مجھے بھی خوف آتا تھا۔ یہ تالاب انگریز حکومت نے کس مقصد کے لیے کھود رکھے تھے ، میں اس بات سے لاعلم تھا لیکن جب والدہ ایک چنگیر میں سالن اور روٹی رکھ کریہ کہتی کہ جاؤ اس کھانے کو اپنے والد کو کیبن پر دے آؤ تو میں والدہ کے کہنے پر چلا تو جاتا لیکن میری کوشش ہوتی کہ ان خوفناک تالابوں کی طرف نہ ہی دیکھوں ۔ انہی دنوں کالے اسٹیم انجنوں کی جگہ ایک بھاری بھرکم ڈیزل انجن بھی آگئے جو بطور خاص ایکسپریس ٹرینوں کے ساتھ لگائے جاتے ۔ جب وہ انجن چلنے سے پہلے ہارن بجاتے تو اتنی خوفناک آواز پیدا ہوتی کہ میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر گھر کی جانب بھاگ کھڑا ہوتا ۔جب ان خوف کی علامتوں سے خود کو بچتا بچاتا کیبن تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا تو جس وقت والد صاحب کھانا کھا رہے ہوتے تھے ،میں ان کے چہرے کو پیار بھری نظر سے دیکھتا رہتا ۔میں دل ہی دل میں دعا کرتا کہ کاش والد صاحب کچھ کھانا میرے لیے بھی چھوڑ دیں۔ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنے والد کا چھوڑا ہوا کھانا کھانے میں بہت مزا آتا تھا ۔میری اس بات کا علم والد صاحب کو بھی تھا۔ اسی لیے وہ کچھ کھانا میرے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جسے مزے لے کر کھاتا اور وہ مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ۔کبھی کبھی کھانا کھاتے وقت ہی سلاٹر بج اٹھتا، جس کا مقصد تھا کہ کسی طرف سے ٹرین آ رہی ہے ۔سب کچھ چھوڑ کر والد صاحب پہلے سیاہ رنگ کے فون کی پھرکی گھماتے پھر ریسور اٹھا کر بلند آواز میں ہیلو کا لفظ بولتے ۔دوسری جانب اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر( اے ایس ایم) انہیں ہدایت دیتا کہ فلاں ٹرین آرہی ہے اس کا یہ نمبر ہے ،یہ ہمارے اسٹیشن سے رکے بغیر گزرے گی یا ہمارے اسٹیشن پر روکے گی ۔ والد صاحب پہلے ایک رجسٹر میں اس ٹرین کی آمد کا وقت اور نمبر کا اندراج کرتے ،پھر کانٹے سیٹ کرنے کے بعد بھاری بھرکم لوھے کے لیور پوری طاقت سے کھینچ کر سیٹ کردیتے ۔پھر کھڑکی میں کھڑے ہوکر سبز جھنڈی لہرا دیتے ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لائن کلیئر ہے آپ جا سکتے ہیں ۔جس وقت والد صاحب یہ سب کررہے ہوتے تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے کہ والد صاحب صرف ہمارا پیٹ بھرنے اور ہمیں تعلیم دلوانے کے لیے کس قدر مشکل کام کررہے ہیں ۔
گرمیوں کے موسم میں والد صاحب ڈیوٹی پر ہوتے تو وہ ریلوے کی بھاری بھرکم نیلی شرٹ پہنتے ۔ نیچے پاجامے کی جگہ انہوں نے کھچا پہنا ہوتا۔کوئی بھی ٹرین گزرتی تو وہ اسی حالت میں سبز جھنڈی دکھا دیتے لیکن ایک دن انہوں نے شدید گرمیوں کے موسم میں موٹے کپڑے کانیلا پاجامہ بھی پہن رکھا تھا ۔ جب میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو والد صاحب بتایا کہ آج کسی ٹرین میں اے ٹی او صاحب بہادر سفر کررہے ہیں۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ وہ کہیں ٹرین سے اتر کر کیبن پر آکر مجھے چیک نہ کر لیں ۔ اس لیے اسٹیشن ماسٹر کا حکم ہے کہ ڈیوٹی پر موجود تمام سٹاف پوری وردی پہنے۔
میں اس وقت اپنے دل ہی دل میں سوچتا کہ یہ اے ٹی او صاحب بہادر ہوتے کیسے ہیں ؟ جن سے ریلوے کا عملہ اس قدرخوفزدہ ہوتا ہے ۔ پھر زندگی نے کروٹ لی اور اﷲ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے مجھے نوائے وقت کا کالم نگار بنادیا ۔ میں نے نوائے وقت میں کیبن مینوں کے مسائل پر مشتمل ایک کالم لکھا جو ڈی ایس لاہور جناب حمید رازی کی نظروں سے گزرا ۔انہوں نے اسی وقت اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعے مجھ سے موبائل پر رابطہ کیا اور ڈی ایس آفس میں چائے کی دعوت بھی دے دی ۔یقینا یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی ۔ کیونکہ جس اے ٹی او صاحب سے میرے والد ڈرتے تھے ، ڈی ایس عہدے کے اعتبار سے اس سے تین گنا بڑا تھا ۔ مقررہ وقت پر جب میں قاری محمد اقبال صاحب کے ساتھ ڈی ایس ریلوے کے آفس میں داخل ہوا تو جناب حمید رازی( جو واقعی فرشتہ صفت انسان ہیں) انہو ں نے اپنی کرسی سے اٹھ کر میرا استقبال کیا ۔مصافحہ کے بعد ہم جیسے ہی کرسیوں پر براجمان ہوئے تو دوسرے ہی لمحے چائے اور بسکٹوں کی بھری پلیٹ ہمارے سامنے تھی ۔دوران گفتگو رازی صاحب سے کیبن مین کے مسائل سمیت ریلوے کے بیشمار معاملات پر گفتگو ہورہی تھی کہ میں نے اچانک مطالبہ کردیا کہ مجھے اے ٹی او صاحب بہادر کا چہرہ دکھا دیں ۔ رازی صاحب نے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک خوبرونوجوان کی جانب اشارہ کرکے بتا یا لودھی یہ ڈی ٹی او صاحب ہیں ۔یہ اے ٹی او صاحب سے عہدے کے اعتبار سے بڑے ہیں ۔جب میرا اصرار اپنی جگہ قائم رہا کہ مجھے اے ٹی او صاحب ہی کو دیکھنا ہے تو چند منٹوں کے بعد ڈی ایس لاہور کے کمرے میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے ایک صاحب داخل ہوئے اور آکر ہماری کرسیوں کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ رازی صاحب نے مجھے بتایاکہ لودھی صاحب یہ ہیں اے ٹی او صاحب ۔یہ سن کر میں کرسی سے اٹھا اور ان کے ساتھ ایک یادگار تصویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کردیا ۔ ڈی ایس اور ڈی ٹی اوصاحب بھی اس تصویر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگئے اور ایک دو یادگار تصویریں موبائل کیمرے میں محفوظ ہوگئیں ۔میں نے اے ٹی او صاحب کو بتایا کہ میں ایک کیبن مین کا بیٹا ہوں جو آپ کی آمد پر پریشان ہوکر شدید گرمیوں میں بھی پوری وردی پہن لیا کرتے تھے ۔
.................
اس زمانے میں سالن کو مزیدار بنانے کے لئے جو مرچ مصالحے ڈالے جاتے وہ بھی خود پیسنے پڑتے تھے اور یہ کام اکثر والد صاحب ہی کرتے تھے اگر وہ ڈیوٹی پر ہوتے تو والدہ کو یہ کام بھی کرنا پڑتا ۔ سہ پہر کے بعد ہی یہ کام شروع ہو جایاکرتا تھا ، جب تک ہانڈی چولہے پر رکھنے کے لئے تیار ہوجاتی‘ مرچیں بھی پس جاتیں ،ہاتھ سے چلانے والی چکی پر آٹا پیسنا میری اور والدہ کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔ ہم دونوں اپنا ایک ایک ہاتھ لکڑی کے دستے پر رکھ کر چکی گھماتے رہتے ۔ماں ساتھ ساتھ بائیں ہاتھ سے چکی کے سوراخ میں گندم بھی ڈالتی رہتیں۔ جب دو وقت کا آٹا پس جاتا توچکی چلنا بند ہو جاتی۔ اس زمانے میں ٹوٹھ پیسٹ کی بجائے جلی ہوئی لکڑیوں کا کوئلہ پیس کر دانت صاف کر لیے جاتے تھے یا پسا ہوا نمک دانتوں پر مار لیا جاتا تھا۔ اس وقت نہ تو ڈینٹل سرجن تھے اور نہ ہی دانتوں کے ہسپتال ۔پھر بھی کسی کو دانت کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے نہیں سنا تھا۔کانوں کی صفائی کا کام بھی ہرچھٹی کے دن دھوپ میں بیٹھ کر والدصاحب خود کیا کرتے تھے ۔
یہاں پر عرض کرتا چلوں کہ جن لوگوں کو صبح کی سیر کی عادت تھی ،وہ صبح میلوں دور فع حاجت کے لئے جاتے اور راستے میں نیم یا کیکر کی مسواک بنا کر دانتوں کو صاف کرتے ہوئے گھر لوٹ آتے۔ چونکہ گھروں میں لیٹرین نہیں ہوا کرتی تھی اور جہاں تھیں وہاں ہر وقت تعفن پھیلا رہتا تھا۔ اس لئے عورتیں رات کے وقت قرب و جوار یا اجاڑ جگہوں پر رفع حاجت کے لئے جاتیں جبکہ مرد حسب ضرورت دن کو بھی اپنا کام جہاں چاہتے دکھا آ تے تھے۔پلیٹ فارم پر مشترکہ لیٹرین موجود تھیں لیکن وہ مسافروں کے لیے بنائی گئی تھیں ،ان میں کوارٹروں کے لوگ بہت کم ہی جاتے تھے۔ ان دنوں زندگی اتنی پرسکون تھی کہ ایک دن بھی آج کل کے ہفتے کے برابر ہواکرتا تھا‘ صبح سویرے گڑ کی پکی ہوئی کالی چائے سے ایک آدھ باسی روٹی کھا کر پیٹ بھر لیا جاتا تھا۔ شام کا سالن چونکہ صبح ہی ختم ہو چکا ہوتا۔ اس لئے دوپہر کو ہم لوگ گڑ‘ شکر‘ اچار یا پیاز کو نمک لگا کر روٹی اس کے ساتھ کھا لیا کرتے۔ میں چونکہ سب سے چھوٹا تھا اس لئے والدین میری بجائے بڑے بھائیوں کو وہنگی دے کر پانی لانے کے لئے بھیجتے۔ کئی بار کنویں میں سے پانی نکالتے وقت بالٹیاں اور برتن بھی اس میں گر جاتے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.