شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (قسط نمبر 38)

آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، صوبہ سرحد اور آزاد جموں وکشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ کتابیں صوبہ سرحد اور گیارہ کتابیں حکومت آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کے لیے منظور ہوچکی ہیں
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔لودھی صاحب۔واں رادھا رام کی گزری ہوئی زندگی بھی آپ کی بہت انمول تھی ۔ واقعی سونا اس وقت کندن بنتا ہے جب تک اسے بھٹی سے نہ گزار ا جائے ۔اﷲ تعالی نے آپ کو اس وقت جو مقام دیا ہے اور آپ اپنی زندگی کی جو کہانی اس وقت لکھ رہے ہیں ۔یہ موجود ہ نسل کے لیے مشعل راہ باتیں ہیں کیونکہ اس وقت ٹی وی، کمپوٹراور موبائل نے ہر انسان کی زندگی کو مشین بنا کر رکھ دیا ہے ۔بہرحال گزرا ہوا ماضی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے ۔مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کی کہانی زندگی کے اہم موڑ کی جانب پیش رفت کررہی ہے لیکن ہمارے قارئین کو یقینا اس میں دلچسپی ہو گی ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد چودھری صاحب جس زمانے کی یہ کہانی ہے ،وہ بھی ایک حقیقت رہا ہے، اس دور میں بھی انسان اپنی روایات کے مطابق زندہ تھے اور ہم سے زیادہ بہتر انسان تھے۔اس وقت چھوٹے بڑے کی تمیز ہر سطح پر ملحوظ رکھی جا تی تھی ۔ سلام میں پہلے کرنے والا دوسروں سے افضل سمجھا جاتا تھا ۔ ہم پچھلی قسط سے آگے کا سفر شروع کرتے ہیں۔
.....................
ہر اتوار کی صبح والد صاحب ہم سب بھائیوں کو لے کر اس کنویں پر پہنچ جاتے جو پلیٹ فارم کے ساتھ تھا۔ وہاں سے پانی نکال کر باری باری ہمیں نہلا کر گھر بھیجتے رہتے۔ سب سے آخر میں وہ خود بھی نہاکر گھر آ جاتے۔ سخت سردیوں میں جب گھاس پر صبح صبح برف نما کورا جما نظر آتا‘ کنویں کے ٹھنڈے پانی سے نہانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چولہے میں لکڑیاں جلا کر پانی گرم کرنے کا اس وقت اس لئے رواج نہیں تھا کہ اتنی مشقت سے تو بہتر ہے, انسان نہانے ہی سے باز رہے۔ چنانچہ جب کبھی ریلوے کا کالا سٹیم انجن اسٹیشن پر رکتا تو اس سے ابلتا ہوا گرم پانی ہمیں مفت مل جاتا۔ اس گرم پانی سے گھر کے سبھی افراد باری باری نہا لیتے اور اپنے جسم پر جمی ہوئی میل اکھٹی ہی اتار لیتے۔ سردی کی شدت سے بچنے کے لئے جرسیاں یا کوٹ آسانی دستیاب نہیں تھے اگر کسی کو یہ نصیب ہوتے بھی تووہ لنڈے ہی کی جرسی ہوتی۔ گھر میں بہنیں یا مائیں سارا سال سویٹر بنتی رہتیں‘ سال کی محنت مشقت کے بعد بمشکل ایک سویٹر تیار ہو پاتا۔ ہر ماں کی طرح میری ماں بھی سارا سال جو جرسی یا سویٹر بنتی وہ بڑے بھائیوں کے لئے مخصوص ہو جاتا۔ مجھے سردی سے بچنے کے لئے دد دو تین تین قمیضیں اور دو دو تین تین پاجامے پہننے پڑتے۔ ہاتھوں کو گرم رکھنے کے لئے میں اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ لیتا یا بغلوں میں دبا لیتا۔ سکول میں کبھی ماسٹر سے پٹائی ہو جاتی تو ہاتھ گرم کرنے کا یہی طریقہ کام آتا۔
گرمیوں میں زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بڑا منفرد ہوا کرتا تھا۔ دوپہر کو جب ہم سوتے تو ماں ہاتھ کا پنکھا ہلا کر ہمارے لئے ہوا پیدا کرتیں۔ پانچ بھائیوں کو مسلسل ہاتھ کے پنکھے سے ہوا دینا ایک مشکل ترین کام تھا جو میری والدہ ہر دوپہر کو کیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ گھر کی چھت پر رسی کے ساتھ ایک بڑا سا کپڑا بندھ لیا جاتا جس کی رسی ،ماں کے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے باندھ کر وہ کئی کئی گھنٹے مسلسل ہلاتی رہتی۔ اس سے ہمیں پرسکون نیند آ جاتی۔ آج جب میں اپنے ماں‘ باپ کی ان قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو نکل آتے ہیں کہ ہم اس کے صلے میں انہیں کچھ نہیں دے سکے۔ ہر شخص اپنی اولاد کی پرورش تو نخوبی کر لیتا ہے لیکن بڑھاپے میں ماں‘ باپ اولاد پر بھاری ہو جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہے۔ خالص خوراک کھانے اور مٹی کے گھڑے کا ٹھنڈا پانی مٹی کے ہی پیالے میں پینے کی وجہ سے انسان اتنے توانا اور تندرست ہوا کرتے تھے کہ لوگ پہلوانوں کے اکھاڑوں اور کبڈی کے میدانوں میں شوق سے جا کر اپنی طاقت کا لوہا منواتے ۔شاید اسی لیے رات کی ڈیوٹی میں والد صاحب نیند سے بیدار کرکے اپنے ساتھ کیبن پر لے جاتے اور لکڑی کے پھٹوں پر کپڑا بچھا کر سلا دیتے ۔ صبح تین چار بچے مجھے بیدار کرکے پہلے میرے جسم پر سرسوں کے تیل کی مالش کرتے پھر ڈنڈ بیٹھکیں نکلواتے ۔والد صاحب مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے ۔کیونکہ اس زمانے میں گاماں پہلوان کے بہت چرچے تھے ۔والد صاحب کی ان کوششوں اور جستجو کی وجہ سے میں بھی خود کو مستقبل کا پہلوان سمجھنے لگا تھا ، ایک مرتبہ کبڈی کا میچ ہمارے کوارٹروں کے پیچھے ہورہا تھا جس میں بھائی رمضان خان بطور کھلاڑی شریک تھے ،میں بھی لنگوٹ کس کے بھائی رمضان کی ٹیم میں شامل ہوگیا ۔پورا شہر وہاں جمع تھا ۔مخالف ٹیم کا ایک طاقتور جوان کبڈی ڈالنے کے لیے ہماری جانب آیا تو اس نے آتے ہی مجھے ہاتھ لگادیا اب میری ذمہ داری تھی کہ میں اس کو پکڑوں ،جب میں آگے بڑھا تو اس نے زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کردیا جس سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔والد صاحب نے بازو سے پکڑ کر مجھے گراؤنڈ سے باہر نکال لیا۔اس کے بعد بھائی رمضان کبڈی ڈالنے کے لیے مخالف سمت گئے اور جاتے ہی اسی نو جوان کو دانستہ ہاتھ لگایاجس نے چند لمحے پہلے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔ جب وہ پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تو بھائی رمضان نے اس پر تھپڑوں کی بارش کردی ۔لوگ یہ کہتے ہوئے درمیان میں آگئے کہ رمضان کبڈی نہیں کھیل رہا بلکہ اپنے بھائی کا بدلہ لے رہا ہے ۔بس وہی کبڈی کے میدان میں میرا آخری دن تھا۔ میرے دونوں چھوٹے بھائی محمد اشرف خاں لودھی 1962ء اور محمد ارشد خاں لودھی 1964ء کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ انہی دنوں یہاں سے ایک ایسی
مجیب الرحمان شامی صاحب کے بقول وہ خلاف کعبہ ایوب دور میں جماعت اسلامی کی جانب سے اعزاز کے طورپر بذریعہ بحری جہاز بھیجنا جا نا تھا جو ٹرین کے ذریعے پہلے لاہور سے کراچی تک پہنچاجا نا تھا۔ سارے شہر کے لوگ واں رادھا رام اسٹیشن پر جمع ہو کر اسٹیشن ماسٹر کو مجبور کرنے لگے کہ ٹرین کو یہاں ضرور روکا جائے چونکہ ریلوے حکام کے مطابق اس ٹرین کو یہاں سے بغیر رکے جانا تھا ,اس لئے اگر اسے روک لیا جاتا تو اس سے اسٹیشن ماسٹر کی نوکری کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ وہ کسی صورت بھی ٹرین روکنے کے لئے تیار نہ تھا جبکہ میرے والد صاحب نے خاموشی سے لوگوں کو یقین دلایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ جتنی آپ لوگوں کو اس ٹرین میں موجود غلاف کعبہ سے عقیدت ہے ،اس سے زیادہ مجھے بھی ہے۔ چنانچہ ریلوے لائن کے دونوں ا طراف انسانوں کا جمع غفیر اکٹھا ہو گیا۔ ان دنوں جہاں سے ٹرین کور کے بغیر جانا ہوتا تھا وہاں لوہے کا بنا ہوا گولہ‘ تار کے گول چکر کے ایک فریم میں رکھ دیا جاتا، جسے فائر مین انجن کے ساتھ لگے ہوئے لیورسے نکال لیتا تھا اور اگر وہ گولہ نہ نکالا جاتا تو گاڑی رک جاتی۔ دوسرے لفظوں میں وہ گولہ اسٹیشن سے گزرنے کا اجازت نامہ تھا۔ اس وقت گولہ دینے پر میرے والد صاحب کی ڈیوٹی تھی اور اسی بھروسے پر انہوں نے پورے شہرکے لوگوں سے وعدہ کیا تھا۔ اب ان کے ہاتھ میں گاڑی کو روکنا تھا ،اس طرح ان کی نوکری بھی جا سکتی تھی۔
متبرک ٹرین کے سگنل ہو گئے۔ میرے والد گولہ لے کر اپنے مقام پر پہنچ گئے اور گولے کا رنگ اپنی مخصوص جگہ پر فکس کر دیا۔ دور سے آتی ہوئی ٹرین کو دیکھ کر لوگ دیوانہ وار ریلوے لائن پر آ گئے جنہیں پولیس کی مدد سے زبردستی وہاں سے نکالا گیا۔ جب اس ٹرین کا انجن گولے کے قریب پہنچا تو والد صاحب نے یکدم گولے کو نیچے پھینک دیا اس طرح وہ گولہ ٹرین کے فائرمین کو نہ مل سکا اور ٹرین ہارن بجاتی ہوئی رک گئی۔ ٹرین کے رکتے ہی پورا شہر غلاف کعبہ کو چومنے کے لئے پہنچ گیا اور آدھے گھنٹے تک گاڑی کو وہاں روکے رکھا‘ جی بھر کر لوگوں نے غلاف کعبہ کی زیارت کی اور اسے چوما۔ بعد میں بے شک والد صاحب کو وضاحتیں دینا پڑیں لیکن ایک بار انہوں نے شہر والوں کی موج کروا دی اور خود بھی غلاف کعبہ کو چومنے کا شرف حاصل کر لیا۔ دراصل یہ غلاف کعبہ جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستاتی قوم کی طرف تحفتاً اور عقیدتاً بھجوایا تھا۔
بہترین کرکٹر ہونے کے ناطے میرے والد‘واں رادھا رام میں خاصے مشہور تھے۔پورے شہر کی ایک ٹیم بنائی گئی تھی جس کی کپتانی والد محترم کے سپرد تھی۔ کیبن کے ساتھ ہی بہت بڑا کھلا میدان تھا جہاں اکثر کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے۔ والد صاحب ڈیوٹی پر ہونے کے باوجود بھی کرکٹ میچ میں حصہ لیتے اور آڑے وقت میں اپنی ٹیم کے کام آتے۔ اس بناء پر انہیں شہر کا ہر چھوٹا بڑا استاد جی کے نام سے پکارتا تھا۔
ایک مرتبہ ساہیوال کی جانب اوٹر سگنل رات کے 1بجے بجھ گیا ،اسے ہر حال میں جلانا مقصود تھا۔ رات کے پچھلے پہر گھپ اندھیرے میں جانا بڑے دل گردے کا کام تھا‘ میرے والد چونکہ خاصے سخت دل واقع ہوئے تھے اس لئے وہ بے دھڑک پٹڑی کے درمیان چل پڑے۔ جب نصف راستہ ہی طے کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں ایک بھاری بھرکم ’’سور‘‘ ان کے بالمقابل آ کھڑا ہوا۔ یہ درندہ انسانوں کا دشمن تصور کیا جاتا ہے لیکن والد صاحب نے ریلوے لائن پر پڑے ہوئے پتھر مار کر ہی اسے دور بھگا دیا۔ صبح جب والد صاحب نے یہ واقعہ اسٹیشن پر سنایا تو مجھ جیسے بہت سے ڈرپوک خوفزدہ ہو گئے۔
رات کے بارہ بجے جب والد صاحب کی اے کیبن پر ڈیوٹی ہوتی تو وہ اکثر مجھے جگا کر اپنے ساتھ لے جاتے اور کیبن میں لکڑی کے پھٹوں پر کپڑا بچھا کر سلا دیتے۔ علی الصبح چار بجے بیدار کر کے میرے جسم پر تیل لگا کر ڈنڈ‘ بیٹھکیں نکلواتے۔ وہ مجھے حقیقت میں مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے۔ صبح ہوتے ہی اس کیبن سے ملحقہ ایک ریلوے پھاٹک ہوتا تھا جہاں سے پھل اور سبزیاں لے کر کسان اپنے بیل گاڑیوں پر جاتے تھے ، جب والد صاحب کی ڈیوٹی ہوتی تو اس پھاٹک کوکھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری میری ہوتی اور یہاں سے گزرنے والے ہربیل گاڑی والا مجھے انعام کے طور پر کچھ نہ کچھ دے جاتا۔ اس پھل میں اکثر تربوز، خربوزے اور طرحیں ہی ہوتیں جن کو اٹھا کر گھر لانا میری ہی ذمہ داری ہوا کرتی تھی ۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ والد صاحب کو ہوا میں اڑنے والے پرندوں کے شکارکا بھی خاصا شو ق تھا ،ان کے پاس بطور خاص دن کی ڈیوٹی میں ایک غلیل ہوا کرتی تھی ۔ جس میں مٹی کا چھوٹی غولیلہ ڈال کر بھی ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کو نشان بنایا کرتے تھے ۔کسی پرندے کو نشانہ لگ جاتا لیکن کوئی پرندہ نشانے سے محفوظ بھی رہتا ۔چکنی اورنرم مٹی کے غلیلے بنانے کے لیے والد صاحب مجھے حکم دیتے کہ کیبن کے قریب ہی ایک گہری خالی جگہ پر بارش کا پانی ہمیشہ جمع رہتا تھا ،میں اس جوہڑ میں داخل ہوکر چکنی اور گیلی مٹی وہاں سے نکالوں اوراسے خشک مٹی سے ملا کر غلیلے بناؤں پھر انہیں کسی محفوظ جگہ پر سوکھنے کے لیے دھوپ میں ترتیب سے رکھ دوں ۔اس عمل میں کئی دن گزر جاتے تب کہیں جا کر غلیلے فائرنگ کی پوزیشن میں آتے ۔میری اس محنت سے والد صاحب بطور خاص مجھ سے بہت خوش تھے ، ان کے سر پر اس وقت بال بہت کم تھے ، وہ اکثر یہ کہانی ہمیں بہت تجسس سے سنایا کرتے تھے کہ جوانی میں ان کے سر پر اتنے گہرے بال ہوا کرتے تھے کہ بالوں کو سنوارنے والا کنگھا ٹوٹ جایا کرتا تھا،پھر یکدم سر کے بال ایسے گرنے لگے کہ سرکے کناروں پر بال محفوظ رہے اورسر کا درمیانی علاقہ صاف ہو گیا ۔ اس زمانے میں کچھ لوگ یہ کہاکرتے تھے کہ جن لوگوں کے سر کے درمیانی علاقہ بالوں سے صاف ہوتا ہے ،ان کا شمار دولت مند لوگوں میں ہوتا ہے لیکن یہ کہنے والوں کی بات اس لیے غلط ثابت ہوتی کہ والد صاحب کے پاس تو سوائے تنخواہ کے اور پیسوں کے انبار نہیں تھے ۔ میں نے جب سے انہیں ہوش سنبھالنے کے بعد دیکھا ہے ،غربت کی بدترین حالت ہی میں دیکھا ہے ۔چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پورا کرنے کے لیے کئی مہینے گزر جاتے۔ جب سے میں نے واں رادھارام میں ایک نوجوان کو پتلون پہنے دیکھا میری راتوں کی نیند حرام ہو گئی ۔ میں نے ایسی ہی ایک پتلون خریدنے کے لیے والد صاحب سے فرمائش کردی ۔انہوں نے حکم دیا کہ روزانہ ان کے سر پر سو دو سو چٹکیا ں کاٹا کرو۔ میرے اس عمل سے انہیں میٹھی اور گہری نیند آجایا کرتی تھی ۔جب میں چٹکیاں کاٹتا تو وہ سکون سے سو جاتے ،لیکن جب تنخواہ کادن آتا تھا تو تنخواہ کا آدھے سے زیادہ حصہ چاچا موج دین کی دوکان کا ادھار چکانے میں صرف ہو جاتا اور میرے حصے میں صرف چار آنے کی برفی آتی ۔جو راستے ہی میں کھالیا کرتا تھا ۔جب والد صاحب کو پتلون خریدنے کا وعدہ یاد دلاتا تو وہ اگلے مہینے کا وعدہ کرکے ایک بار پھر چٹکیاں کاٹنے کا حکم دے دیتے ۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665646 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.