تاریخ سے جڑا ایک اور تاریک دن

27 اکتوبر 1947۔
جب کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی اور ان کے حق الحاق پاکستان اور حق خود ارادیت کو کچلنے اور دبانے کے لیئے بھارتی فوجیں وادی کشمیر میں داخل ہوئیں اور 76 سال ہونے کو ہے۔ پوری وادی کو ایک کھلی جیل بنا دیا گیا ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کو ختم کر دیا گیا یے۔اس عرصے میں گھر گھر تلاشی ناکہ بندیوں اور تحریک آزادی کو دبانے کے لیئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا ان کو بے گھر کیا۔ گھر مسمار کیے۔ مساجد اور سکولوں کو گرایا۔ خبری اغوا کیا۔ان پر بارود اور گولیاں برسائیں۔ حریت رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا۔ ان پر ناجائز مقدمے بناۓ۔ ماوراۓ عدالت قتل کیا۔ لاکھوں عورتوں کے سہاگ اور گودیں اجڑی۔ بارود اور گولیوں سے معصوم بچے شہید ہوۓ۔ کئی بہنوں بیٹیوں کی عصمتیں لٹیں۔ ان پر ایک سے ایک سے بڑھ کر ایک نے شرم بے رحم اور کٹھ پتلی حکمران مسلط ہوۓ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگوں کے علاوہ مسلسل کشیدگی رہی۔ بھارت کی طرف سے بارڈر پر خلاف ورزیاں اور بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ معمول میں رہا۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے کشمیریوں کو استصواب راۓ۔ یعنی حق خود ارادیت کا حق دیا گیا۔ مگر امن عالم کا یہ ٹھیکیدار ادارہ نہ تو اپنے احکامات اور شفارشات پر عمل درآمد کروا سکا اور نہ ہی ظلم و ستم کا سلسلہ رکوا سکا۔ اور تب سے لے کر اب تک شہدا کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دہائیوں سے بے گناہ رہنما قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر ریے ہیں۔اس دوران ریاستی اداروں علاقائی انجمنوں اور تنظمیوں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی و سلامتی کونسل اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کے سفراء کے ضمیروں کو بھی جھنجھوڑا گیا۔ مگر ساری کوششیں لا حاصل اور بے سود۔ شاید معاملہ مسمانوں کے حقوق کا یے۔ اگر یہ خطہ کشمیر یورپ امریکہ یا افریقہ کے کسی ملک کا حصہ ہوتا تویہ مسئلہ شاید کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ مودی حکومت کی بے شرمی تو دیکھیۓ کہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیۓ قوانین میں اور رائج ملکی آئین میں تبدیلی کر کے اسے انڈیا کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔جسے بھارت کی اپنی اعلی ٰ عدالتوں نے بھی قبول نہ کیا۔ اس عرصہ میں ریاستی زمین کو غیر ریاستی باشندوں خصوصا ً ہندو اقلیتیوں کے ہاتھوں بیچا گیا اور دیگر علاقوں سے ہندوؤں کو لا کر بسایا گیا۔ مقامی لوگوں کی حق تلفی کرتے ہوۓ کشمیری کوٹے پر ان کی ملازمیں دی گئیں۔ یہ سب اس لیئے کہ یہاں کے مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو کم کر کے ان کو اقلیت میں بدلا جاۓ ۔کبھی کبھی انٹر نیٹ بند کیا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی صحافیوں کو حقائق تک رسائی نہیں دی جاتی۔یہ بھارت کا وہ مکروہ اور گھناؤنا چہرہ ہے جس سے پوری دنیا میں نقاب الٹ چکا ہے ۔ اتنے بڑے انسانی المیے پر بھی بیرونی آنکھیں بند اور زبانیں گنگ کیوں ۔ ان بیچاروں پر اپنی ہی زمین تنگ کیوں۔ ان ساری کھلی حقیقتوں پر بناوٹی رنگ گیوں۔ اور اقوام عالم کے دل سنگ کیوں ۔ کیا خون مسلم اتنا ارزاں ہے ؟

سبطین ضیا رضوی
About the Author: سبطین ضیا رضوی Read More Articles by سبطین ضیا رضوی: 25 Articles with 15059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.