قصہ ایک محفل کا-حصہ دوئم

(میں اور وہ سے اقتباس)

9/11اور 7/7 کے بعد جہاد کا فوکس پاکستان بنا۔ ایک طرف ڈومور کا حکم ہے تودوسری طرف ڈاؤں و وڈراؤن کی مشق جاری ہے۔ فرقہ واریت کو جہاد کا نام دیا گیا ہے اور پاکستان کو ان جہادیوں کی جنت قرار دیا گیا ہے۔ مزاروں اور قبروں کو دھماکوں سے اڑانے کی کاروائیوں پر بعض دینی اور سیاسی حلقے رسمی تنقید اور مذمت تو کرتے ہیں مگر اندر سے خوش ہیں کہ بدعت کے مراکز مٹ رہے ہیں۔ آج کل پاکستان پر چاروں اطراف سے حملے ہورہے ہیں مگر بچاؤ کرنے والے نیم خوابیدہ ہیں۔ ہمارے عرب دوست اور بھائی ہمیں بدعت سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ایرانی اپنے نظریات کے تحفظ میں کوشاں ہیں۔ افغانی رہتے اور کھاتے پاکستان سے ہیں اور بدلے میں بھارت اور امریکی کی حمایت میں پاکستان کو ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کا پانی بند کرکے اسے صحرا میں بدلنے کی کوشش میں ہے اور اے این پی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو پاکستان کی سلامتی سے مشروط کئے ہوئے ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کی عدم تکمیل کی صورت میں اس ملک کا کیا حشر ہوگا اور جو تھوڑا بہت پانی بھارت اپنی مرضی سے چھوڑے گا وہ سمندر میں چلا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھا جائے تو پاکستان کو بنجر بنانے کے منصوبے میں بھارت، اے این پی اور دیگر قوم پرست برابر کے شریک ہیں۔ نواز لیگ مصلحت کا شکار ہے اور ق لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر قوم پرستوں کے ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے۔ عدلیہ الجھاؤ اور حکومتی حکم عدولی کا شکار ہے جبکہ فوج این آر او کی حفاظت اور جمہوریت کی علمبرداری کا فیصلہ کرچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں تک قیادت کا سوال ہے تو اس کے ضمن میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہرنوں کی فوج جس کی قیادت ایک شیر کر رہا ہو ایسی فوج سے بہتر ہے جو شیروں پر مشتمل ہو مگر قیادت ہرن کے ہاتھ ہو۔ ایسے ہی ایک کہاوت ہے کہ ہر گاؤں میں ایک بدھو ہوتا ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے چونکہ اگر سارے بدھو ایک ہی گاؤں میں آجائیں تو گاؤں کا حشر نشر ہوجائے۔ ایک بدھو گاؤں کے لئے قابل برداشت ہوتا ہے اور بدھوُں کا گاؤں سارے شہر کے لئے باعث زوال بنتا ہے۔ ایسے ہی ہر گاؤں کے لئے ایک ہی عقلمند کافی ہوتا ہے۔ زیادہ عقلمند بھی زوال کا باعث بنتے ہیں۔ عرب کی ایک کہاوت ہے کہ صحرا میں اونٹ ایک جیسی رفتار سے ایک ہی لائن میں چلتے ہیں چونکہ ان کی نکیل ایک دوسرے کی دم سے بندھی ہوتی ہے اور سب سے اگلے اونٹ پر ایک حدی خواں بیٹھا گیت گاتا ہے جس کی لے اورردم پر اونٹ ایک ہی رفتار سے چلتے ہیں۔ ایک دن کسی عقلمند نے دیکھا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے مگر اونٹ بے ترتیبی سے چل رہے ہیں۔ کبھی کوئی اونٹ رک جاتا ہے اور اگلا اونٹ اسے کھینچتا ہے۔کبھی قطار ٹوٹ جاتی ہے اور پچھلا اونٹ اگلے سے جاٹکراتا ہے۔ عقلمند پریشان ہوا اور گھوڑا دوڑاتا ہو ا سب سے اگلے اونٹ تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ سب سے اگلے اونٹ کی نکیل ایک گدھے کی دم سے بندھی ہے اور حدی خوان کہ جگہ ایک کمہار گدھے ہر بیٹھا اونگھ رہا ہے۔ عقلمند نے اونٹ کو گدھے کی دم سے آزاد کیا تو اونٹوں کی رفتار درست ہوگئی اور قطاربھی سیدھی ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی نے پوچھا کہ اے عقلمند تو نے اونٹوں کو گدھے کی قیادت سے تو آزاد کردیا مگر یہ قافلہ بغیر حدی خوان اور گائیڈ کے منزل تک کیسے پہنچے گا۔ عقلمند نے کہا کہ گدھے اور کمہار کی قیادت سے اونٹ کی قیادت بہتر ہے۔ اونٹ عقلمند، بردبار، ذہین اور مستقل مزاج جانور ہے۔ وہ جس منزل کو ایک بار دیکھ لے اسے بھولتا نہیں۔ اگلا اونٹ قافلے کو منزل پر لے جائیگا فکر کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔

آج کل پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ کئی گدھے قیادت کے لئے میدان میں اترے ہوئے ہیں اور کئی بدھووں میں قیادت کا مقابلہ ہے۔ خودساختہ عقلمندوں اور خوش فہم دانشوروں کی بھی کمی نہیں۔ مغرب نواز، بھارت نواز اور امریکہ نواز دانشوروں کا ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ خوش فہمی اور دانشوری کے میدان میں سابق فوجی بھی کسی سے کم نہیں اور شوخ شٹرنگ اینکروں کی ہاں میں ہاں ملا کر دانشوری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے امریکی ویزوں اور بیرون ملک اثاثوں کو محفوظ بنا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے عائشہ صدیقہ کی ملٹری انک پڑھی ہے۔۔۔۔ نینا نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں پڑھی ہے اور عائشہ سے ایک بار لندن میں بات بھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کتاب کی تیاری میں عائشہ کا ساتھ دینے والے سبھی حضرات فوجی ہیں جن کی ذہانت اور عقلمندی کا معیار کتاب کے مطالعے سے جج کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ نینا نے بددلی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا جیسے اس نے کھٹا آم چوس لیا ہو۔۔۔۔۔۔۔

پھر کہنے لگی۔ اس کتاب میں بھارت، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کی افواج کے ویلفئیر پراجیکٹ کی تفصیل کے بعد فوجی فاؤنڈیشن ،سی ایس ڈی اور دیگر ویلفیئر پراجیکٹ کا ذکر اور موازنہ ہے جس میں نفع، نقصان، کاروباری حجم، کرپشن اور دیگر پیچیدگیوں کا ذکر ہے جو کہ ایک روٹین کی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں من پسند لوگوں کو تعینات کیا جائے وہاں نفع و نقصان اور کرپشن ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر فوج کی زیرنگرانی چلنے والے اداروں میں یہ بات نہ چھپ سکتی ہے اور نہ ہی زیادہ دیر چل سکتی ہے۔ جنرل طلعت مسعود اورا ن کے ہمنوا افسروں کی جرنیلی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جن اداروں کے سربراہ رہے ان ہی کی دھوتی کھینچنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔ جہاں تک تجزیے اور موازنے کا تعلق ہے تو ایسی کتاب سے سی ایس ڈی کا کوئی منیجر یا پھر سی او ڈی، سپلائی ڈپو فوجی فاؤنڈیشن، ڈیفنس ہاؤ سنگ سوسائٹی یا آرمی ہاوسنگ سکیم کاہیڈ کلرک بھی لکھ سکتا ہے چونکہ جن سمریوں اور اعداد و شمار کو اس تجزیہ نگاری اور موازنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے یہ ان ہی حضرات کے پاس ہوتی ہیں۔ کتاب کا موضوع اس بات پر فوکس ہے کہ فوجی ادارے کرپشن کے مراکز ہیں اور ہر طرف نیپوٹزم اور لاقانونیت کا ہنگامہ ہے۔ اس کتاب کا مقصد سویلین کرپشن بمقابلہ ملٹری کرپشن ہے تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ سیاستدان اور سول بیوروکریٹ ہی نہیں بلکہ فوج بھی کرپٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو میں فوج کی وکالت نہیں کررہی اور نہ ہی اس بات سے اتفاق ہے کہ فوج کے اداروں میں کرپشن نہیں مگر جن اداروں کا ذکر عائشہ صدیقہ نے کیا ہے وہ ذیلی اور ویلفیئر کے ادارے ہیں ان اداروں کا فوج کی کارکردگی پر براہ راست اثر نہیں۔ اس کے مقابلے میں جو لوٹ مار پٹواری سے سیکرٹری اور یونین کونسل سے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس تک ہوتی ہے اس کا اثر براہ راست ملک اور قوم پر ہوتا ہے چونکہ یہ لوگ ملکی خزانہ لوٹتے ہیں اور دولت ڈنکے کی چوٹ پر بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ تم اینکروں کے متعلق کچھ پوچھو اور میں جواب دیتے دیتے کئی اور نکل جاؤں اور میرے لئے واپسی مشکل ہوجائے۔ تم سے کہونگی کہ کمپیوٹر پر آل مائیٹی نامی کتاب ڈھونڈ کر پڑھ لو تو تمہیں کافی ساری باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ شائد حالات، واقعات اور طریقہ واردات میں کچھ تبدیلیاں ہوں مگر کہانیاں، تبصرے، تجزیے اور مائنڈسیٹ وہی ہے جس کی بنیاد اغیار کی خوشنودی، ذاتی مفادات، تشہیر اور ذہنی خلفشار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم دلو رام کی بات کر رہی تھی۔۔۔۔۔ میں نے نینا کو یاد دلایا۔۔۔۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔ میں کہہ رہی تھی کہ آپﷺ کی شان کا بیان کسی کے بس کار وگ نہیں۔ یہ سمجھ کی بات ہے مگر جس پر رب کی عنایت ہو وہی سمجھتا ہے۔ دلورام پر بھی ربّ کی عنایت ہوئی اور اس نے رحمت اللعالمین کا راز پالیا۔ دلورام نے ان الفاظ میں اس راز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحمت الالمین کے حشر کو معنی کھلے
خلق ساری شافعی روز اجزأ کے ساتھ ہے
لے کے دلورام کو جنت میں جب حضرت ﷺ گئے
غل ہوا ہندو بھی محبوب خدا کے ساتھ ہے

ذرا تصور کرو کہ میدان حشر میں جب دلورام جیسے عاشق رسولﷺ کے ساتھ جنت کی طرف جارہے ہونگے تو مسجدوں میں بیٹھ کر آپﷺ کی شان پر تنقید کرنے والے آپﷺ کا سامنا کیسے کرینگے۔۔۔۔۔۔۔۔

میں یہ یہی پر ختم کرتی ہوں اور تم سے گزارش کرتی ہوں کہ اس پر مزید کچھ نہ پوچھنا۔ میں جانے سے پہلے اپنے وطن کے متعلق صرف یہی کہونگی کہ پاکستان نعمت خدا وندی ہے اور یہ نعمت ناشکروں کے ہاتھ ہے ۔جس کارواں کا کوئی حدی خواں نہ ہو اور ڈور گدھے کی دم سے بندھی ہوئی ہو وہ صحرا میں بھٹک کرفناہ ہوجاتا ہے۔ آج پاکستان کی یہی حالت ہے۔ ہمارے پاس شیروں کی فوج تو ہے مگرقیادت امریکی ہرنوں کے ہاتھ ہے۔ ہمارے شہروں اور گاؤں میں عقلمندوں اور بدھوؤں کی بہتات ہے اور دونوں میں مفاہمت ہے کہ عوام کو ہر حال میں رعایا بنا کر رکھا جائے۔ عقلمندوں کے پاس امریکی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں اور لوٹ کھسوٹ کے تجربے ہیں اور بدھوؤں کے پاس دولت کے انبار اور جعلی ڈگریاں ہیں۔عقلمند بدھوؤں کی رہنمائی کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر انہیں حکمران بنا کر ملک لوٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ضرورت ہے کہ کوئی سچا حدی خوان آئے اور قافلے کا رخ منزل کی طرف موڑ دے۔ کوئی شتر سوار آئے اور گدھے کی دم سے کارواں کی نکیل کھول دے۔۔۔۔۔۔۔

تمہار ا کیا خیال ہے کوئی آئے گا۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضرور آئے گا۔۔۔۔۔۔ سچا ربّ سب دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہرنائی والے استاد جمعہ خان نے ایک بولتی تحریر لکھی تھی جو میں نے سنی ہے۔۔۔۔۔۔نینا نے کہا۔۔۔۔۔۔

بولتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں بولتی تحریر۔۔۔۔۔۔ میں کہہ چکی ہوں کہ سچے حرف بولتے ہیں۔ اور جھوٹے پڑھے جاتے ہیں او ربکتے ہیں۔۔۔۔۔ نینا نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔

پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو سچے حرف بولتے ہیں جیسے الحامی کتابوں میں لکھے حرف آیتیں، سورتیں اور سپارے سننے والے کے دل اور دماغ پر اثر کرتے ہیں اور پڑھنے والے کی روح میں سما جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے عارفانہ کلام کے حرف، شعر، ستریں اور ورق بھی بولتے ہیں۔ مگر کمرشل حرفوں پر مشتمل کتابیں بے زبان اور گونگی ہوتی ہیں اور صرف بکتی ہیں۔ پاکستان میں چالیس سالہ شاعر کی چالیس کتابیں بازار میں موجود ہیں اور بک رہی ہیں چونکہ پبلشر کو کتاب بیچنے کا ہنر آتا ہے۔ سیکرٹریوں، جرنیلوں اور کچھ کاروباری مصنفوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی کتابیں بھی ہزاروں کے حساب سے چھپتیں اور بکتیں ہیں اور الماریوں میں سجتی ہیں مگر بولتی نہیں بس بکتی رہتی ہیں۔ کتاب اور ماڈل میں فرق نہیں رہا۔ اچھی اور نخریلی ماڈل کی مارکیٹ بھی اچھی ہوتی ہے اور آمدنی بھی۔ وہ دن میں دس دس بار بکتی ہیں۔ وہ عورت تو ہوتی ہے مگر کمرشل ہوجاتی ہے اس میں شرم و حیا باقی نہیں رہتی۔ ماڈلیں اور فنکارائیں ہر لباس پہن لیتی ہیں جیسے کمرشل کتاب کی جیکٹ۔ تم کسی حسین لڑکی کی تصویر کتاب کی کاٹھی پر لگا دو تو کبھی نہیں بکے گی۔ اگر کاٹھی پر چغتائی، گل جی، حنیف رامے یا کسی ولائتی یا بھارتی مصور کا نیم برہنہ برش یا پنسل ورک لگا ہو تو کتاب دس روپے کی اور کاٹھی سمیت پندرہ سو دس کی ہوجاتی ہے اور خوب بکتی ہے اور الماری میں سجتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پڑھی نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثر پیش لفظ وغیرہ پڑھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ نینا نے کہا۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر پیش لفظ کسی مشہور شخصیت اور اچھے کمرشل رائیٹر یا شاعر وغیرہ نے لکھا ہو تو کتاب کی نہ صرف اہمیت بڑھ جاتی ہے بلکہ بکری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب اور ماڈل گرل کی حیثیت اب ایک جیسی ہے۔ کتاب میں کیا لکھا ہے اس کی اہمیت نہیں ہوتی چونکہ سب کو پتہ ہوتا ہے کہ مصنف کون ہے اور اس کا رجحان، میلان اور کردار کیسا ہے۔ وہ کس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے اور کسی قسم کے خیالات کا پرچار کرتا ہے۔ کتاب کی کمرشل ویلیو کے لیے ضروری ہے کہ کسی اچھے پبلشر کی ایک بار قدم بوسی کی جائے اور پھر اسی کے درپر ڈیرے ڈال دیئے جائیں۔ پبلشر کے بعد سرورق اور پھر پیش لفظ بھی کتاب کی کمرشل ویلیو میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کتاب کی اہمیت اس کی بکری سے ہوتی ہے پڑھنے سے نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کا پہلا ایڈیشن تو سرکاری لائبریریوں، دفتروں اور اداروں میں ہی کھپ جاتا ہے چونکہ سکولوں، کالجوں، دفتروں اور کچھ اداروں اور سرکاری محکموں کے پاس لاکھوں روپے کا فنڈ ہوتا ہے اور یہ فنڈ بڑے شاعروں اور ادیبوں کی چھوٹی چھوٹی کتابوں کے لئے رکھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو پہلے دو تین ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں اور شاعر اور مصنف کے لئے عمرہ، حج اور پھر امریکہ کی سیر کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ یہی حال ماڈل کا ہوتا ہے۔ وہ دن میں کئی بار نیم برہنہ ہوتی ہے اور کبھی اس سے بھی آگے ہوکر آتی ہے۔ گھر سے جو کپڑے پہن کر آتی ہے انہیں اتار کر دن میں کئی کئی لباس زیب تن کرتی ہے مگر جن کپڑوں میں گھر سے آتی ہے انہی میں لوٹ جاتی ہے۔ وہ کئی طرح کے پروڈکٹ بیچنے کا باعث بنتی ہے اور خود بھی پروڈکٹ بن جاتی ہے۔ ماڈلوں اور ادکاراؤں کو بھی کسی بڑی اشتہاری کمپنی، پروڈیوسر اور فنانسر کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ بے جان جسموں کو مصنوعی زبان دیکر اشتہاروں میں سجایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچے معنوں اور معصوم حسن کی عمریں طویل ہوتی ہیں۔ استاد جمعہ خان کاکڑ کی تحریر سچے اور بولتے حرفوں پر مشتمل تھی مگر ایسی تحریروں کو کوئی پبلشر ہاتھ نہیں لگاتا اور نہ ہی اخبار والے اسے چھاپتے ہیں۔ کوئی بڑا اور کمرشل قلمکار اس کا دیباچہ اور پیش لفظ بھی نہیں لکھتا اور نہ ہی کوئی اسے پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجہ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ خان نے سارے بلوچستان کا دورہ کیا۔ وہ جھالا وان اور ساراوان کی بستیوں اور کھیتوں میں گیا۔ اس نے ندی نالوں اور پہاڑی ڈھلوانوں کو دل کی آنکھ سے دیکھا اور پھر ایک تحریر لکھی کہ بلوچستان کس طرح پاکستان کی خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس نے لکھا کہ چھوٹے ڈیم کہاں بن سکتے ہیں اور کون سے علاقوں کو نخلستانوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ کو ن سے درخت اور کس علاقے میں لگائے جاسکتے ہیں۔ بھیڑوں، بکریوں اور اونٹوں کے فارم بنانے کے لئے کون سے علاقے موزوں ہیں۔ انگور، انار، بادام، سیب، خوبانی، شہتوت اور چیری کے باغات میں جدید طریقہ باغبانی سے کیسے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اور ان پھلوں سے کروڑوں روپے زرمبادلہ کیسے کمایا جاسکتا ہے۔ گندم، باجرے، چنے اور کپاس کے لئے بلوچستان کے کون سے علاقے موزوں ہیںآلو، پیاز اور کالا زیرہ کس خطے میں ہر سال بمپر کراپ دے سکتا ہے۔ استاد نے لکھا کہ اگر بلوچستان کی زمین اور پانی کا دیانتداری سے استعمال کیا جائے تو زمین میں چھپے خزانوں کے علاوہ بھی بلوچستان میں خوشحالی آسکتی ہے اور اس سے پاکستان کی معیشت بھی مضبوط ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

استاد جمعہ خان نے سندھ، پنجاب، سرحد، قبائلی علاقوں ، آزادکشمیر اور شمالی علاقوں کا چپہ چپہ دیکھااور زمینی پیداوار کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے طریقہ کار پر مفصل تحریر لکھی۔ کیا تم بتاسکتے ہو کہ کسی کمرشل شاعر، ادیب اور امریکہ پلٹ دانشور کو بلوچستان کی زمین کا علم ہے۔۔۔۔۔ نینا نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا خیال ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہار خیال صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔نینا نے کہا اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ذرعی ماہرین کو یہ بھی علم نہ ہوگا کہ قلات کے علاقوں میں بہترین کپاس ہوتی ہے۔ اتنی چمکیلی اور سفید کہ تازہ برف لگتی ہے۔ بلوچستان میں پیاز کی ایسی فصل ہوتی ہے کہ آدمی دیکھتا ہی رہے۔ اتنے بڑے سائز کا پیاز شائد ہی دنیا میں کہیں ہوتا ہو۔ ہرنائی، خوست، زیارت اور ملحقہ علاقوں میں چیری، سیب اور انار کی درجنوں اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ مگر جدید سہولیات کی کمی کے باعث اندرون ملک اور بیرون ملک منڈیوں تک پھل نہیں پہنچتا۔ افغان تاجر بھی اس سلسلے میں منفی رول ادا کرتے ہیں اور زیادہ تر پھل افغانستان سے آتا ہے۔ قلات اور کوئٹہ ڈویژن میں انگور کی بہتات ہے مگر پیداوار بڑھائی نہیں جاتی چونکہ پانی کی کمی حائل ہوتی ہے۔ چھوٹے ڈیموں کی صورت میں یہ کمی پوری ہوسکتی ہے مگر کسی کو اس کا خیال ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوہلو اور ملحقہ علاقوں میں سیب، انار اور بادام پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ قلات اور مری کے علاقوں میں زیرہ اور ایسی جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے جس پر ریسرچ سے ادویات تیار ہوسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ اور پنجاب میں بنجر اور بیکار زمین کی کوئی حد نہیں۔اب یہ زمینیں جو شہروں کے گرد و نواح میں ہیں فوجی جرنیلوں اور لینڈ مافیا کے قبضے میں آرہی ہیں۔ زیادہ تر رقبہ خالصہ سرکار اور شاملات دیہہ پر مشتمل ہے یا پھر جنگلات کا ہے۔ پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جو لینڈ مافیا اور صاحب اختیار لوگوں کے مددگار ہیں۔ شاملات کے قوانین تو ایسے ہونے چاہئے کہ جب تک علاقہ بھر کے لوگ متفق نہ ہوں کوئی اسے بیچنے یا خریدنے کا مجاز نہ ہو چونکہ شاملات دیہہ اور مقبوضہ مالکان محلے، گاؤں یا پھرکسی خاندان یا قبیلے کی ملکیت ہوتی ہے۔ موجودہ قانون کے مطابق گاؤں کی کوئی بھی شخصی قبضہ مافیا کی ایمأ پر محکمہ مال کی اجازت اور تقسیم کے فیصلے کے بغیر ہی اپنے حصے کی زمین بیچ دیتا ہے۔چونکہ اس زمین کا کوئی تعین نہیں ہوتا اور نہ ہی مروجہ طریقہ کار کے تحت متعلقہ شخص کے حصے کی زمین باقائدہ تقسیم کے دعوے کے تحت اس کی نشاندہی ہوتی ہے اس لئے قبضہ گروپ صرف پٹواری اور تحصیلدار کی طرف سے کی گئی جعلی کاروائی پر سینکڑوں کنال زمین کے عین درمیان میں قابض ہوجاتا ہے۔ اور پھر حکومتی اہلکاروں کی مدد سے چاروں اطراف پھیل کر سارے علاقہ پر قابض ہوجاتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی اور اسلام آباداس کی بدترین مثالیں ہیں جہاں کئی گاؤں اور دیہات اجڑ گئے.شاملات کے علاوہ خالصہ سرکار اور جنگلات کی زمین بھی مشترکہ پراجیکٹ میں شامل ہوگئی اور ہر طرف بحریہ ٹاؤں کی ہمسائیگی میں جرنیل پورے آباد ہورہے ہیں۔ اگر اسی زمین کو گاؤں والوں میں تقسیم کیا جاتا اور انہیں حکومتی امدار دیکر جدید فارم ہاؤس بنائے جاتے تو بڑے شہروں کے لئے دودھ، گوشت اور سبزیوں کے مسائل حل ہوجاتے اور شہروں کے قرب و جوار میں سرسبز ماحول کی وجہ سے آلودگی کم ہوتی اور موسموں کی شدت میں بھی کمی آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

استاد جمعہ خان کاکڑ نے کشمیر اور شمالی علاقوں کے باب میں لکھا ہے کہ میرپور، بھمبھراور کوٹلی کے اضلاع میں جنگلی زیتون کی بہتات ہے اگر اسی زیتون پر پیوندکاری کی جائے اور ان تین اضلاع کے علاوہ جہلم، راولپنڈی، چکوال، میانوالی، ڈیرہ غازی خان اور نوشہرہ کے اضلاع میں زیتوں کا شت کی جائے تو پاکستان یورپ اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک کی نسبت دوگنا زیتون پیدا کرسکتا ہے اور اس زیتون سے ملک کے اندر ایک نئی صنعت متعارف ہوسکتی ہے ۔ ایک کروڑ کے قریب لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے اور کروڑ ڈالر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

گلگت، بلتستان، آزادکشمیر کے ضلع باغ اور راولاکوٹ میں دنیا کا بہترین آلو اور لوبیا پیدا ہوتا ہے مگر اسے باقائدہ صنعت کا درجہ حاصل نہیں اور نہ ہی اس پر ریسرچ ہوئی ہے۔ اگر محکمہ زراعت کسانوں کی حوصلہ افزائی کرے انہیں اچھے بیج اور کھادیں مہیا کرے تو ان غذائی اجناس سے نہ صرف ملک کی ضرور ت پوری ہوسکتی ہے بلکہ دیگر ممالک تک بھی یہ فصل بھیجی اور بیچی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمالی علاقوں میں پیدا ہونے والی پھلوں میں شہتوت، سیب، اخروٹ ، ناشپاتی اور خوبانی شامل ہے جس کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ شمالی علاقوں کے ویرانوں میں ان پھلوں کے جنگل اگائے جاسکتے ہیں۔ مگر ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کو نہ اس کا شعور ہے اور نہ ہی اپنے ملک کے عوام کی مصیبتوں کا احساس۔ استاد جمعہ خان نے سارے پاکستان کی مٹی کی خاصیت کے مطابق وہاں پیدا ہونے والے پھلوں، سبزیوں اور فصلوں کا حساب لگایا اور ان کے انداز کے مطابق پاکستان کی مٹی اپنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے بعد تین گنا پیداوار دوسرے ممالک کو بیچنے کے قابل ہے مگر اس کے عوام بے حس، حکمران نا اہل اور بیوروکریسی کرپٹ ہے۔ جبر، ظلم، استحصال اور غنڈہ گردی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور جعل سازی کو جمہوریت تصور کیا جاتا ہے۔ جعلی جمہوریت ناکام ہوتی ہے تو عیش و عشرت سے مزین آمریت آتی ہے جسے جعلی جمہوری اور کرپٹ سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ گجرات کے چوہدری ایسی سیاست کے ماہر ہیں۔ یہ لوگ ہر آمر اور جابر کے ہر اول دستے میں شامل ہوتے ہیں اور جمہوریت کے علمبردار بھی ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کی اشرافیہ میں ہے اور بیرون ملک بھی ان کے غم خواروں اور دوستوں، یاروں کی کمی نہیں۔ آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے مگر عوام میں مقبول ہیں۔ جس ملک کے عوام کی شعوری کیفیت ایسی ہو وہاں استاد جمعہ جیسے لوگوں کے خیالات کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ پاکستانی پبلشرز کو سکینڈل، سکس، چربے اور چاپلوسیاں چھاپنے سے دولت اور شہرت ملتی ہے اور ایسا مواد منوں اور ٹنوں کے حساب سے پاکستانی معاشرے میں موجود ہے۔بڑے بڑے کھلاڑی منافقت کے کھلاڑی ہیں۔وہ جو کل تک افتخار احمد چوہدری کے گیت گاتے تھے آج زرداری اور گیلانی کا کھاتے اور خوب ناچتے اور گاتے ہیں۔

لوگ انڈیا سے آیا ہوا جھٹکے والا اور مرے ہوئے جانوروں کا گوشت کھا لیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اپنے ملک میں سستا، حلال اور صحت مند گوشت بھی دستیاب ہوسکتا ہے۔ آلو، پیاز، ٹماٹر بھی بھارت سے آتا ہے مگر کسی کو خبر ہی نہیں کہ شمالی علاقوں اور بلوچستان میں اس کی بہتات ہے۔ پاکستان میں اب اچھا پھل صرف ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز میں ہی کھایا جاتا ہے۔ اگر کشمیر، شمالی علاقوں، سرحد اور بلوچستان میں پھلوں کی پیداوار بڑھائی جائے اور دستیاب سٹاک کو منڈیوں تک رسائی مل جائے تو عام آدمی کو بھی اچھا اور سستا پھل مل سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

استاد جمعہ خان نے درہ آدم خیل، کرک، لکی مروت، ڈنڈوت، کٹھہ سگرال، منارہ سمیت بلوچستان میں ایک سو بارہ مقام کی نشاندہی کی جہاں کوئلے سے چلنے والے چھوٹے اور درمیانے پلانٹ لگا کر سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت چاہے تو پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے سستی بجلی پیدا کرکے اس بحران سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے اور ملک میں صنعتی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ استاد جمعہ خان کا کڑ کے مطابق بلوچستان میں دوسو مقامات پر بارشوں اور برفوں کے پانی کو روک کر وافر مقدار میں پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ جس سے بلوچستان کو سرسبز اور پیداوار کے لحاظ سے خود کفیل کیا جاسکتا ہے مگر ایسے منصوبوں کے مکمل ہونے سے کمیشن اور لوٹ مار سیاسی مافیا اور بیوروکریسی کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ رینٹل پاور پراجیکٹ، بھارت سے بزنس اور آسٹریلیا سے فنگس لگی گندم جیسے منصوبوں سے جن لوگوں کو اربوں ڈالر کمانے کا چسکا لگا ہے ان کے منہ سے سونے کا چمچہ نکل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر میں استادجمعہ خان کے مسودے کا بیان کرنے لگی تو یہ محفل لمبی ہوجائے گی اور پھر جس مسودے کو کوئی پبلشر چھاپنے کو تیار نہ تھا اس کا رونا رونے کا کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔

شائد تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری دادی کہتی تھی کہ دروازہ بچے بھی کھول دیتے ہیں مگر بند کرکے تالہ لگانے کے لئے کسی بڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں تمہیں ملنے آئی تھی اور باتوں کے درکھول کر بیٹھ گئی۔ اب میں یہ دروازہ بند کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے سے پہلے دو سوالوں کے جواب دیتی جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوچھو۔۔۔۔۔۔نینا نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارا مذہب کیا ہے اور پاکستان کو موجودہ حالات کے بھنور سے نکالنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا۔۔۔۔

میرا مذہب انسانیت ہے ۔ ہر مذہب کی بنیاد سچائی، خالق کی پہچان، اس کی حکم کی تعمیل اور اس کی مخلوق سے محبت ہے۔ جب انسان اپنی زندگی میں ان بنیادی احکامات کو اولیت دیتا ہے تو اپنی ذات کی اہمیت کو پہچان لیتا ہے۔ جو شخص جتنی گہرائی سے اپنے آپ کو پہچانتا ہے اس کے تخیل میں اتنی ہی لطافت اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے خالق کے قریب اور دنیا کی آرائشوں سے دور ہوجاتا ہے۔ ربّ نے اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے اور میں یہ پیغام اپنے علم و عقل کے مطابق دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ عدالتیں ہرکرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹ کو قرار واقعی سزا دیکر ملک کو سیاسی آرائشوں سے پاک کریں اور ہر دولت مند سے اس کی دولت کا حساب لیاجائے۔ جج مصلحتوں کا شکار نہ ہوں اور لوٹ مار کی دولت واپس خزانے میں آنے تک صدر اور وزیراعظم سے لیکر پٹواری اور ٹھانیدار تک سب کو جیل میں ڈالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آرمی چیف جرنیلوں کی کرپشن اور شاہانہ مراعات کا خاتمہ کرے اور جرنیلوں کو درجنوں پلاٹ اور عالیشان محلات آلاٹ کرنے کا سلسلہ بند کرکے سادگی اور مساوات کا عملی ثبوت دے۔ آرمی چیف عدلیہ کا ساتھ دے اور جعلی جمہوریت کی پاسبانی چھوڑ کر عوامی جمہوریت کو فروغ دینے میں عوام اور عدلیہ کی پاسبانی کا فریضہ انجام دے۔میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہورہا ہے اس کی ذمہ دار فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی ہے اور یہی اسے موجودہ حالات سے نکالنے کی ذمہ دار بھی ہے۔ ا گر عدلیہ اور فوج پر جعلی جمہوریت کا سائیہ رہا تو آنے والا دور بھیانک اور بدتر ہوگا۔۔۔۔۔۔۔

آج پاکستان کا اصل حکمران رحمن ملک ہے اور اس کا مشن ملک کا حلیہ بھگاڑنا ہے۔ اگر رحمن ملک کی حکومت مزید دو سال تک قائم رہی تو شائد پاکستان موجودہ شکل میں نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔۔

نینا نے توقف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے پتہ ہے کہ تم آخری جواب کی وضاحت چاہتے ہو مگر میں دروازہ بند کرنا چاہتی ہو.

جب تک رحمن ملک کی پاکستان میں حکمرانی ہے۔ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔ کرپٹ سیاستدانوں اور نوکرشاہی کے معاملے میں عدالتیں مصلحتوں کا شکار ہیں اور اسے عدلیہ کا صبر کہہ کر جج اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں۔ طالبانائیزیشن بڑھے گی۔ لاقانونیت اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔ ملکی معیشت مزید تباہ اور ادارے برباد اور دیوالیہ ہونگے۔ فرقہ واریت خانہ جنگی کی شکل اختیار کرے گی۔ میڈیاکا کردار مزید منفی اور اغیار کا مددگار ہوگا اور سیاستدان فوج اور عدلیہ کی تضحیک میں اضافہ کرکے ان کے رول کو مشکوک کردینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فوج اور عدلیہ جتنا جلدی رحمن ملک جیسے کرداروں کو سمجھ کر ان کے عمل کو روکنے میں کامیاب ہوگی اتنا ہی جلد پاکستان محفوظ ہوگا ورنہ دو سال بعد موجودہ سکرپٹ پرنئے کرداروں کا کھیل شروع ہوگا اور اگلے سکرپٹ میں کردار امریکی، بھارتی، سعودی، ایرانی، افغانی اور برطانوی ہونگے۔۔۔۔۔۔۔

تم نے جو ناتھن کی تصنیف سیون پلرز آف وژڈم اور ہمسفرے کے اعترافات پڑھی ہیں۔۔۔۔۔۔نینا نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت ملے تو ضرور پڑھنا تمہیں بہت سے سوالوں کے جواب مل جائینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نینا کچھ دیر خاموش رہی اور کھلے دروازے کی چوکھٹ پر نینا کی نظر ٹھہرگئی۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے چھلک کر سرخ و سفید گالوں سے پھسلتے ہونٹوں تک آگئے جیسے ترچ میر کی ڈھلوانوں سے بہتا پانی گلیشر کی دراڑوں میں گم ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

نینا خاموش سے اٹھی اور چلی گئی مگر اس کے جسم و روح میں رچی پاکستانیت اور وطنیت کی خوشبو سے ماحول معطر ہوگیا۔ میں نے دروازہ کھلا رکھا اور دیر تک اس راستے کو تکتا رہا جدھر نینا کا وجود انسانی بھیڑمیں جذب ہوکر گم ہوگیا تھا۔ میں نے ٹیلیویژن آن کیا تو آصف علی زرداری قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کسی لوہار کے وژن پر پھبتاں کس رہے تھے۔ دوسرے چینل پر بابر اعوان نے طنزو مزاج کی محفل سجا رکھی تھی۔ تیسرے چینل پر نواز شریف فوج پر تنقید کر رہے تھے اور چوہدری برادرز نواز شریف کو کو نسنے دے رہے تھے۔ آگے الطاف بھائی تھے اور پھر مولانا فضل الرحمن تھے۔ میں نے ٹیلیویژن کا بٹن آف کیا تو پاکستان سے ایک دوست نے فون پر بتایا کہ آزادکشمیر میں وٹو فارمولہ اور کائیرہ پلان کامیاب ہوگیا ہے۔ تازہ ڈروؤن حملوں میں پچاس اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں دوسو سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ رحمن ملک سعودی بادشاہ سے ملنے چلا گیا ہے اور وزیر اعظم نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے اور حالات کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اگلی جنگ پاکستان میں لڑنے کا عندیہ دیا ہے اور لاہور میں پاکستان پائندہ باد کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے کوئی جواب دیئے بغیر کال منقطع کردی اور نینا کی بات پر عمل کرتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70688 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More