آزاد کشمیر میں بااختیار ،ذمہ دار حکومت کا خواب؟

آزاد جموں و کشمیر کونسل اور آزاد کشمیر کے احتساب بیورو کے درمیان تنازعہ کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974ءمیں ترامیم کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ان ترامیم سے ریاستی عوام کو کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ،یہ بات نہ پہلے اور نہ ہی اب پیش نظر ہے۔اس طرح کی ترامیم آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار و ذمہ دار بنانے کے بجائے حصول مفادات کے لئے اختیارت کی کھینچا تانی لگتی ہے۔یہ کہنابھی بے جا نہ ہو گا کہ ان ترامیم کے ذریعے آزاد کشمیر کے سیاستدان اپنے مفادات کا بہتر ماحول بھی چاہتے ہیں۔پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی خرابیاں اس قدر بڑھ گئی ہیںکہ جس سے آزاد کشمیر کے مختصر رقبے اور آبادی والے خطے کے عوام کو تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے آئینی ، انتظامی اور معاشی انحطاط پذیری کی جانب ”گامزن“ کیاگیا ہے اور اس کے بڑے ذمہ دار صرف آزاد کشمیر کے سیاستدان ہیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ257میں کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر اور پاکستان کے تعلقات کے دائرہ کار کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے گا۔کشمیری جب یہ دیکھتے ہیں کہ کشمیریوں کو’ ڈیل‘ کرنے کے پیمانے کیا ہیں تو وہ ان آئینی وعدوں کو بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔آزاد کشمیر کے ریاستی حلقوں کی جانب سے کشمیر کونسل کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی ہے، جو ریاستی خرچے پہ حاکمانہ اختیارات ’انجوائے‘ کرتی چلی آ رہی ہے۔ وزارت امور کشمیر کا معاونت کے بجائے حاکمیت کا کردار ضروری سمجھا گیا۔اب جناب وٹو صاحب اور ایون زرداری کی ہدایت پر آزاد کشمیر کے نصیب میں کیا آئینی ترامیم وقوع پذیر ہوتی ہیں اور ان کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔بنیادی حقیقت یہی ہے کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974ءکی حیثیت یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے اسے ختم کر سکتے ہیں۔آئین کے خاتمے کی طرح آزاد کشمیر کی منتخب حکومت کے خاتمے کا اختیار بھی ناقابل ترمیم و ناقابل تنسیخ دفعہ56 کی صورت وزیر اعظم پاکستان کو حاصل ہے۔اس محدود دائرہ کار میں کیا اختیارات کی بات اور کیا آزاد کشمیر پر بھروسے اور اعتماد کے دعوے اور عندیہ۔

یہاں بر محل دو سیاسی واقعات بھی سناتا ہوں۔انسان اپنے علاقے میں چاہے کسی لیڈرسے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتا ہوں لیکن اپنے علاقے سے باہر نکل کروہی لیڈر اس شخص کا ایسا تعارف بن جاتا ہے جسے وہ جھٹلا بھی نہیں سکتا۔اسی طرح انسان اپنے علاقے سے باہر اپنے کسی بھی لیڈر کی خامیوں ،خرابیوں پر دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے علاقے کے کسی بھی لیڈر کی خوبیاں اس کے لئے باعث افتخار ہوتی ہیں۔ہم ریاستی باشندے آزاد کشمیر کے لیڈروں میں سے جناب سردار عتیق احمد خان کو ان کی تیزی،ہارڈ ورکنگ،قابلیت اور مہارت کی بناءانہیں آزاد کشمیر کے صف اول کے لیڈروں میں نمایاں سمجھتے ہوئے اس پر فخر کرتے رہے۔لیکن پاکستان میں شاطرانہ سیاست کے طور پر مشہور میاں منظور وٹو نے وزیر امور کشمیر کے طور پراپنی عیارانہ سیاست سے ہمارے اس افتخار کو یوں ’زیر دام‘ کیا کہ ہمارا فخرندامت میں بدل گیا۔دوسرا واقعہ یہ ہے کہ راجہ فاروق حیدر کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کا ایک وفد مظفر آباد آیا ۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے انہیں عشائیے پر مدعو کیا۔ایوان وزیر اعظم میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کی طرف سے گلگت بلتستان میں پائے جانے والے احساس محرومی اور مشکلات کے حوالے سے گفتگو پر وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر کی طرح کوئی مقامی ،ریاستی سیاسی جماعت نہیں ہے اس وجہ سے گلگت بلتستان کو حکومت سازی اور اختیارات کے حوالے سے آزاد کشمیر کی طرح کی حکومت کا درجہ نہیں مل سکا۔

24اکتوبر1947ءکو قائم ہونے والی آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر تمام متنازعہ ریاست کی نمائندگی کے طور پر وجود میں آئی لیکن آزاد کشمیر حکومت کے مختلف ’سیٹ اپ‘ دیتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو آزاد کشمیر کی علاقائی حدود تک ہی پابند کر دیا گیا۔ یہی صورتحال ایکٹ1974ءمیں بھی نمایاں ہے۔اور اسی بنیاد پہ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے حکومتی اپیل پر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے الگ قرار دےاجس پر آزاد کشمیر حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔دوسری طرف آزاد کشمیر کی مفاد پرست چاپلوس حکومتیں جنرل ایوب سے لیکر مشرف اور اب زرداری تک ہر حکمران کے حق میں آزاد کشمیر اسمبلی سے قرار دادیں منظور کر چکی ہیں۔اسی لئے اس بات پر میرا زور رہتا ہے کہ اختیارات لینے کے لئے کردار کا مظاہرہ ضروری ہوتا ہے۔”پیٹ سے سوچنے والے“ریاستی،عوامی اور قومی مفادات کا ادراک اور تحفظ نہیں کر سکتے۔

آزاد جموں و کشمیر کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں52موضوعات ایسے ہیں جو پاکستان کی وفاقی حکومت نے18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو منتقل کئے ہیں۔پاکستان میں ججز کی تقرری کے لئے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پارلیمنٹ کی کمیٹی قائم ہے ۔پاکستان میں 18ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے گئے ہیں اور 7ویں فنانس بل(فنانس کمیشن)کے ذریعے صوبوں کا قومی وسائل میں حصہ بڑہا دیا گیا ہے۔اختیارات کا بڑا حصہ وفاق سے صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے۔وفاق پاکستان نے بجٹ کے حوالے سے آزاد کشمیر کو بلوچستان کے برابر قرار دیا۔بلوچستان کا بجٹ جو کبھی بیس ارب روپے ہوتا تھااب سوا سو ارب روپے ہو گیا ہے۔ بلوچستان اور آزاد کشمیر کے بجٹ میں ہر سال 14فیصد اضافے کا آڈر(وفاقی وزارت خزانہ کا نوٹیفیکیشن،1992ءکا فنانشل ایگریمنٹ) بھی تھا لیکن اس پراس مالی سال تک عملدآمد نہیں نہیں ہوا۔ سابق مشرف دور میں ہونے والے 7ویں ’این ایف سی ایوارڈ‘ میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو یہ کہتے ہوئے کسی خاطر میں نہ لایا گیاکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہیں۔یوں یہ اختیارات آزاد کشمیر کی منتخب حکومت کے بجائے جائنٹ سیکرٹری کونسل کے پاس اختیارات کا ارتکاز کیا جا رہا ہے اور وزیر امور کشمیر رریاستی وسائل پہ سانپ بن کے بیٹھے ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔وزارت امور کشمیر اربوں ،کھربوں روپے کی کشمیر پراپرٹی بیچ بیچ کر کھا رہی ہے جو نہ تو کشمیر کونسل کو دی جاتی ہے، جس کا یہ سبجیکٹ ہے۔ اور نہ ہی یہ پاکستان یا آزاد کشمیر کے بجٹ میں ظاہر ہوتی ہے۔پاکستان کو مستقل بنیادوں پہ تباہ و برباد کرنے کی پالیسی کے خالق جنرل ایوب نے1961ءمیںایک آرڈینینس جاری کرتے ہوئے بیش قیمت کشمیر پراپرٹی وزارت امور کشمیر کے حوالے کر دی۔اس وقت سے اب تک وزارت امور کشمیر آدھی سے زیادہ کشمیر پراپرٹی فروخت کر چکی ہے جس کا آزاد کشمیر حکومت کو کوئی علم نہیں ہے۔ایوب خان کے اس کالے قانون(ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی) ،جو اب تک چل رہا ہے ،میں لکھا ہے کہ پاکستان میں موجود کشمیر پراپرٹی کی آمدن کا حساب اس وقت ہو گا جب مقبوضہ کشمیر آزاد ہو گا۔سارے کشمیری قربان جائیں پاکستان کے ان پالیسی سازوں کے جو ظلم و جبر کو قانون قرار دیتے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ کشمیر کونسل کے پاس قانون سازی کے جو 52موضوعات ہیں ان میں سے اکثر سابق مشرف دور میں مقامی حکومتوں کو منتقل کر دیئے گئے ۔واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی قانون ساز کونسل قانون ساز اسمبلی کے علاوہ موجود ہے اور اس کونسل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ریاستی باشندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ایکٹ1974ءمیںپانچ شقیں(دفعہ56،دفعہ31وغیرہ) ایسی ہیں جنہیں ختم یا ترمیم کا اختیار آزاد کشمیر حکومت اور کونسل کوبھی حاصل نہیں ہے۔

آزاد کشمیر کے ایکٹ 1970ءمیںصرف ڈیفنس،سیکورٹی،فارن افئیرز،اور کرنسی کے امور وفاق پاکستان کو حاصل تھے۔1974ءکے ایکٹ کے ذریعے ایکٹ 1970ء اس بہانے تبدیل کیا گیا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے لہذا آزاد کشمیر میں بھی پارلیمانی نظام قائم ہونا چاہئے لیکن پالیمانی نظام دینے کے نام پر ایکٹ1974ءکے ذریعے آزاد کشمیر کو ایسے کئی اختیارات سے محروم کر دیا گیا جوآزاد کشمیر کو ایکٹ 1970ءکی رو سے حاصل تھے اور وہ تمام اختیارات آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سے لیکر وزارت امور کشمیر اور کونسل کو دے دیئے گئے۔

حکومت کی انتظامی و ایگزیکٹیو پاورز۔آزاد جموں و کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار2002-3ءتک آزاد کشمیر حکومت کے پاس تھا پھر ترمیم کے ذریعے یہ اختیار بھی چیئرمین کشمیر کونسل کے طور پر وزیر اعظم پاکستان کو دے دیا گیا۔1974ءکے ایکٹ کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر کونسل کو قانون ساز ادارہ کے طور پر تشکیل دیا گیا۔1975ءمیں ذولفقار علی بھٹو( مرحوم) کی سربراہی میں قائم وفاقی حکومت نے یک طرفہ سلیکشن نما الیکشن کے ذریعے آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرا دی۔ آزاد کشمیر کی اس حکومت کے صدر سردار ابراہیم خان(مرحوم) اور وزیر اعظم عبدالحمید خان تھے۔آزاد کشمیر کی اس کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے وزارت امور کشمیر نے ایکٹ74ءمیں یکطرفہ ترامیم کرئیں اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ،ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے اختیارات کے علاوہ وزارت امور کشمیر و کونسل کو آزاد کشمیر حکومت سے متعلق ا نتظامی اور ایگزیکٹیو اختیارات بھی منتقل کر دیئے گئے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے پہلے اسمبلی اجلاس میں وزیر اعظم چوہدری عبدالمجیدنے ایکٹ1974ءمیں ترامیم کا مسودہ تیار کرنے اور اسمبلی میں پیش کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہیں ۔ایکٹ 1974ءمیں ترمیم کی تحریک کشمیر کونسل کے ممبران میں اضافے کی کوشش میں شروع ہوئی۔آزاد کشمیر اسمبلی میں کونسل کے ارکان کی سیٹوں کی تعداد میں اضافے کا بل بھی پیش ہوا۔اطلاعات کے مطابق وزیر امور کشمیر منظور وٹو اورآزاد کشمیر امور کی نگران فریال تالپور کئے گئے سیاسی وعدوں کی وجہ سے کشمیر کونسل کی سیٹوں میں اضافے کے خواہاں ہیں۔شروع میں وزیر امور کشمیر نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ”ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا“۔اس وقت کونسل کے ہر ممبر کو سالانہ دو کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں۔آزاد کشمیر کے اپوزیشن رہنماراجہ فاروق حیدر نے ترامیم سے متعلق اجلاسوں میں زور دیا کہ ایکٹ1974ءمیں ترامیم ایک پیکج کے طور پر ہونی چاہئیں۔
پاکستان کے آئین کی دفعہ257میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیا ہوں گے،اس کا فیصلہ تمام ریاست کی آزادی کے بعد لوگوں کی مرضی سے کیا جائے گا۔ یہی بات آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ کے ابتدائیہ میں بھی لکھی ہے۔ یہ وہ موقف ہے جو حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ میں لیا ہے۔اقوام متحدہ اوراس کے کمیشن کی قرار دادوں میں دونوں ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ رائے شماری تک اپنے زیر قبضہ ریاست جموںو کشمیر کے علاقوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کے ذریعے بہترین انتظام و انصرام کریں گے۔یہاں اس کا تذکرہ اہم ہے کہ بھارت کے آئین کی دفعہ 370میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کو ناقابل تنسیخ حصہ قرار دیا گیا ہے اور اس دفعہ کے ذریعے بھارتی پارلیمنٹ پر یہ قدغن ہے کہ کشمیر کے بارے میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی جس میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضامندی شامل نہ ہو۔

گلگت بلتستان کے آئینی آڈر میں گلگت بلتستان کو ریاست کشمیر کا حصہ ہی تسلیم کیا گیا ہے۔اب گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئین میں فرق یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے لئے آئین بنا کر اسے آزاد کشمیر اسمبلی سے منظور کرا لیا لیکن گلگت بلتستان کے آئین کو گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور نہیں کرایا گیا ۔وفاق کا گلگت بلتستان کے لئے جاری آئین کونسل کے انتظامی حکم کے طور پر جاری ہے۔یہ تذکرہ بھی بے محل نہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کے لئے” بیس ارب روپے کے بیل آﺅٹ پیکج“ کا اعلان کیا گیا لیکن اب کشمیر کونسل سے کہا جا رہا ہے کہ بیس ارب روپے کی یہ رقم آزاد کشمیر حکومت کو فراہم کی جائے۔اگر کشمیر پراپرٹی کا انتظام و انصرام آزاد کشمیر حکومت کو سونپ دیا جائے تو نا صرف یہ کہ کشمیر پراپرٹی کی مسلسل غیر قانونی فروخت رک جائے گی بلکہ آزاد کشمیر حکومت کو اپنے مسلسل مالی بحران پر قابو پانے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔سب سے بڑی بات کہ ایسے اقدامات پاکستان کی طرف سے کشمیریوں پر اعتماد ،بھروسے اور خیر سگالی کا قابل فخر مظاہرہ ہو سکتے ہیں۔ اب ’ وفاقی دماغ‘ اور آزاد کشمیرکے” غیور“سیاستدانوںکی مفاہمت سے آزاد کشمیر کو کیا ترامیم نصیب ہوتی ہیں اور ریاستی عوام کو اپنے امور اور تحریک آزادی کے حوالے سے کتنا ”فری ہینڈ“ دیا جاتا ہے ،ایک محدود دائرے میںکی جانے والی ’جمع تفریق ‘ہی محسوس ہوتی ہے۔بقول شاعر
کیسے گلے رقیب کے کیا طعن اقربائ
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 619810 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More