موبائل لاؤ غریبی بھگاؤ

ایک بار پھر حسب سابق ملک کی آزادی کا جشن منایا جارہا ہے ١٥ اگست کی تاریخ ایک بار پھر گڑ ر گئی سرکاری ملازمین کو چھٹیاں نصیب ہوئیں اور اس موقع سے سرکاری دفاتر میں ترنگا لہرانے کی رسم پوری کی گئی۔ملک کی عظمت کے نشان ترنگے کے سامنے کھڑے ہو کر ملک کے ذمہ دار ان جھنڈے کو سلامی دیتے ہوئے ملک میں امن وسکون کا ماحول فراہم کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں ملک کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے ساتھ ملکی قوانین کے نفاذاور اس کے احترام کا بھی عہد کیا جاتا ہے۔ کاش کہ یہ ساری باتیں ترنگے کے سامنے نہ کہہ آج کے دن بند سرکاری آفسوں کے کاغذات میں کہی اور لکھی جاتیں اور اس کے لئے ایک متعین معیاد مقرر کی جاتی اور پھر اس معیاد پر ترنگا لہرانے سے پہلے متعین کردہ اہداف کی کارکردگی جائزہ لیتے ہوئے آزادی کی مبارکباد پیش کی جاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے ملک کے ایک بڑے طبقے کے لئے جشن آزادی ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ آزادی کے ٦٤ سال گزرنے کے بعد بھی ملک میں امن وامان کا فقدان ہے ملک کے اکثریتی طبقے کی خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہرآن فسادات کی وجہ سے جان اور مال کے ضیاع کا خطرہ محسوس ہوتے رہتا ہے تفتیشی ایجنسیاں جانبدارانہ کردار ادا کر رہی ہیں ۔مسلم نوجوانوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارنے پر مجبور کیا جارہا ہے اسی طرح ملک کے اندر کرپشن اور بدعنوانی کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئیں جس سے آج ملک کاکوئی بھی شعبہ خالی نہیں ہے ۔کرپشن نے دولت کی تقسیم کے نظام کو تباہ کردیا ہے ملک کے امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں کل بھی ملک کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ بھوکے پیٹ سوتا تھا اب بھی وہی صورت حال ہے کل بھی لوگ کوڑے دان میں غذا تلاش کرتے تھے اب بھی یہی کوڑے دان نہ جانے کتنے غریبوں کے دسترخوان بنے ہوئے ہیں کل بھی ملک کے اندر بنیادی ضروریات کا فقدان تھا اور اکسیوں صدی کا ہندوستان بھی ان ضروریات کو فراہم کرنے سے قاصر ہے آزادی کے حصول کے اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی یہ خامیاں احتساب کی دعوت دے رہی ہیں ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ ارباب اقتدار کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی اور وہ شائنگ انڈیا کے پر فریب نعروں کو عملی شکل دے کر ملک سمیت رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس لئے ابھی جلد ہی اعلان کیاگیا ہے کہ عنقریب ملک کے ہر غریب فرد کو حکومت کی جانب سے موبائل فون فراہم کیا جائیگااور اس مہم کو ''ہر ہاتھ میں موبائل ''کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ مونٹیک سنگھ اہلو والیہ کے اعداد و شمار بھی ملک سے غریبی کے تناسب کو کم کرنے میں معاون ثابت نہ ہوئے اس لئے حکومت '' موبائل لاؤ غریبی بھگاؤ ''کا فارمولہ آزمانے والی ہے اب ظاہر سی بات ہے کہ جب ملک عزیز کے ہر گھر میں موبائل فون ہوگا تو کیا بھلا خط افلاس کے نیچے رہنے والوں کا اپنے آپ خاتمہ نہیں ہوجائے گا ؟دھیرو بھائی امبانی نے نعرہ دیا تھا ''کر لو دنیا مٹھی میں ''ہماری مرکزی حکومت اس موبائل کے ذریعے غریبوں کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے ۔لیکن سوچنے کا مقا م ہے کہ جس ملک میں بجلی کی قلت کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں کو مکمل بجلی سپلائی کرنے لگے تو ایسی صورت میں پورے دیش میں بلیک آؤٹ ہو جاتا ہے اور ملک کے تو بہت سارے خطے ایسے بھی ہیں جہاں ابھی بھی لٹکے ہوئے بلبوں کی روشنی دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس رہی ہیں ۔موبائل تو غریبوں کو مل جائے گی لیکن زمینی حالات یہ حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ انھیں اسے ریچارج کرنے کے لئے روزآنہ کسی قریبی شہر کا رخ کرنا پڑے گا وہ اس وقت جب وہاں لوڈ شیڈنگ نہ ہو رہی ہو پچاس سو روپئے پر دن بھر مزدوری کرنے والا طبقہ موبائل ریچارج کرنے کی فکر کرے گا یا پھر اپنے اور اپنے اہل خانہ کے پیٹ کو ریچارج کریگا کیونکہ دو میں سے کوئی ایک ہی کام انجام دے سکے گا ویسے اتنا تو یقین ہے کہ موبائل کمپنیوں کی دل نشین اسکیموں کو دیکھ کر وہ اور کچھ کریں نہ کریں لیکن موبائل میں رقم جمع کرانا کبھی نہ بھولیں گے حکومت ان کے لئے کوئی اسکیم چلائے نہ چلائے انھیں کوئی پیکج دے نہ دے لیکن اتنا تو طے ہے کہ وہ اپنی غربت میں بھی بچی کچھی رقم کو ملک کے خزانے میں جمع کردیں گے ۔کاش مرکزی حکومت کی جانب سے ''ہر ہاتھ میں روٹی ''کی مہم پوری شفافیت کے ساتھ چلائی جاتی یا کم ازکم غریب عوام سے ایک بار ان کی مرضی بھی پوچھ لی جاتی کہ انھیں موبائل عزیز ہے یا دو وقت کی روٹی ۔مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ نعرہ دے '' ہر گاؤں میں پانی ،لائٹ ،اسکول اور اسپتال ''یقین جانئے جس دن یہ بنیادی ضروریات فراہم ہونے لگیں گی ملک سے بہت سارے مسائل کا اپنے آپ خاتمہ ہو جائے گا یوم آزادی کا ہر آنے والا دن خوداحتسابی کی دعوت دیتا ہے اور ملک کے ذمہ داران سے ان کی فعالیت کا مطالبہ کرتا ہے ''مشن چندریان ''''مشن موبائل'' یہ کاغذی انڈیا کی ترقی ہے لیکن غربت،فرقہ پرستی ،فسادات ،تعصب ،بدعنوانی ،نکسلائیٹ ،علیحدگی پسندگی جیسے موضوعات ملک کی حقیقی تصویر پیش کررہے ہیں اور انھیں سے ملک کی سا لمیت کو اصل خطرہ بھی ہے اس لئے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پہلے اصل موضوعات کو حل کرے اور اس کے بعد شائنگ انڈیا کے نعرے لگائے کیونکہ لوگ حکومتوں کی سردمہری اور انکی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور انھیں ملک کی آزادی کے جشن میں بھی کوئی خوشی نہیں محسوس ہو رہی ہے بلکہ وہ اس سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں ۔آئیے ملک میں حقیقی تبدیلی کا عہد کرتے ہوئے ہندوستان کی تعمیرنو میں لگ جائیں -
khan jalal
About the Author: khan jalal Read More Articles by khan jalal: 5 Articles with 3466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.