نسل نو ملک میں شرعی نظام کی حامی ہے

وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات کیلئے تیاریاں زور وشورسے جاری ہیں اور انتخابات کا بخار دن بدن چڑھ رہا ہے اور امید اپنی جیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ تبدیلی کی بات بڑی شد ومد کے ساتھ تمام حلقوں میں زیر بحث ہے اور عوام پاکستان کی جانب سے اس مرتبہ تبدیلی کا طبل بلکہ طبلہ بجایا جارہا ہے اور اس میں کلیدی کردار کے حامل نوجوان نسل کو گردانا جارہا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ایشیا بالخصوص پاکستان کے انتخابات پر گڑی ہوئی ہیں کیونکہ بہت سے ممالک کے مفادات کی محافظ اور خیر خواہ ان عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلی مرتبہ بھرپور کوشش کی ہے کہ کم از کم ایسے لوگ انتخابات میں حصہ لیں جو کہ سکروٹنی کے پروسس سے کلیئر ہوں یعنی کہ وہ 62 اور 63 کے تناظر میں پورے اترتے ہوں

دوسری طرف سیکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر امیدواروں میں بھی بے چینی کی لہر پائی جارہی ہے اپنی اور سپورٹرز (نہ کہ ووٹرز)کی سلامتی کیلئے وہ ہر قسم کے اقدامات اھٹانے کیلئے تیار ہیں۔اور الیکشن کمیشن کار نگران حکومت بھی انتخابی مہم کے دوران سیکیورٹی کو اولین ترجیح دے رہی ہے لیکن انتہا پسند اس عمل کو ملیامیٹ کرنے کی اپنی بھرپور کوششیں اور توانائیاں بروئے کار لاکر اس انتخابی عمل کو درہم برہم کرنے کیلئے متحرک ہوچکے ہیں اور کئی نامور اور نمایاں سیاست دان ان کے نشانے پر بھی ہیں

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ نوجوان نسل کو اس مرتبہ تبدیلی کا سب سے بڑا منبع سمجھاجارہا ہے۔ اس سلسلے میں برٹش کونسل کی جانب سے ایک سروے کیا گیا کہ ملک کے بیشتر نوجوانوں کے خیال میں جمہوریت ملک کیلئے کیا اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان جمہوریت کا متحمل ہوسکتا ہے کہ نہیں؟ تو اس سلسلے میںان کا جواب تھا کہ جمہوریت پاکستان کیلئے درست نظام نہیں۔اس جائزے کے دوران اٹھارہ سے انتیس سال کی عمر کے پانچ ہزار نوجوانوں سے معلومات حاصل کی گئیں اور ان میں سے نوے فیصد سے زائد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ملک صحیح سمت میں نہیں جارہا ہے ۔بی بی سی کی نامہ نگار لاگیورین کے مطابق یہ جائزہ ایک قنوطی نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو پانچ سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش نہیں۔ اس سروے کے مطابق پچاس فیصد سے زائد نوجوانوں نے کہا کہ جمہوریت ان کے لئے اور ملک پاکستان کیلئے کبھی بھی اچھی نہیں رہی ہے۔ چورانوے فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان غلط سمت میں جارہا ہے

2007 میں کئے گئے سروے میں یہ شرح 50 فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر نوے فیصد سے زائد ہو چکی ہے جو کہ الارمنگ سچوئشن ہے۔ بہترین سیاسی نظام کے بارے میں پوچھے جانے پر سب سے زیادہ افراد نے شرعی نظام کے حق میں ووٹ دیا جبکہ فوجی نظام کو دوسرے اور جمہوریت کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا۔پانچ ہزارنوجوانوں میں سے 3500 کے قریب نوجوانوں کو پاکستان کی فوج پر زیادہ اعتماد ہے اور جمہوری حکومت کے حق میں بولنے والوں کی تعداد صرف 13 فیصد رہی۔پچیس فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ملک میں جاری تشدد س براہ راست متاثر ہوئے ہیں یا وہ کسی نہ کسی پرتشدد واقعے کے عینی شاہد و گواہ ہیں اورقبائلی علاقوں میں یہ شرح ساٹھ فیصد رہی ۔

ایک اور قابل فکر اور پریشان کن با ت یہ بھی ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں دہشت گردی کے خوف کو بھی مات کرکے آسمان کو چھونے لگی ہیں اور ستر فیصد کے قریب یہ صورت حال پانچ برس قبل سے بھی بدتر ہے ۔ ان تمام حالات و واقعات اور تشویشناک صورت حال کے باوجود سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوان نسل جمہوریت کے نالاں اور شاکی دکھائی دیتی ہے اور ا ن چند نام نہاد لبرل لوگوں کے منہ پر بھی کالک ملنے کے مترادف ہے جو نئی نسل کو لبرل بے راہ رواور اسلام سے دور کہتے ہیں کیونکہ سروے یہ بتاتا ہے کہ نسل نو اور نو جوان نسل ملک میں اسلام کا نفاد چاہتے ہیں شرعی نظام کے حامی ہیں کیونکہ وہ جمہوریت اور جمہوری نظام کی تلخیاں سہہ سہہ کر قوت برداشت کھو بیٹھے ہیں اور ایسی جمہوریت کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔

لیکن! یہ سب صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کے چناﺅ میں اپنی پسند و ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے تعلقات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیک صاف ستھرے اور عوام کے خیر خواہوں کو سامنے لائیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ عمل ایک ہی بار میں مکمل نہ ہوسکے اس لئے صبر اور تحمل بھی ضروری ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 194536 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More