خیبر پختونخوا کا سیاسی دنگل اور مذہبی سیاسی جماعتیں

انتخابات کا دور دورہ ہے،ہر طرف انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ان دنوں صحرائے سیاست میں زبردست سیاسی آندھی چل رہی ہے۔ ہر طرف انتخابات کی تیاری ہورہی ہے۔سیاسی پہلوان میدان مارنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اتر رہے ہیں۔ہر سیاستدان اپنے آپ کو ملک و قوم کا سب سے بڑا خیر خواہ اور مدمقابل کو ملک کی تباہی کا سبب ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے، مختلف قسم کے نعروں سے عوام کو بہلانے اور بہکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہر آنے والا سیاستدان ایک نیا ہی تماشا سجاتا ہے اور اپنی پٹاری سے کچھ نہ کچھ نکال کر عوام کو بے وقوف بنارہا ہے۔ دعوﺅں، وعدوں، جلسے اور جلوسوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ سیاست کے نام پر ہر دغا رواہے۔

ہر سیاسی جماعت آئندہ بننے والی حکومت میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سہارا لینے کی کوشش کررہی ہے۔لیکن خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششیںبار آور ثابت نہیں ہو سکیں، یوں لگ رہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترےں گی۔ جے یو آئی(ف) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان خصوصاً خیبر پختونخوا کی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی امید تھی لیکن پنجاب میں جے یو آئی (ف) کے کچھ سیٹوں کے مطالبے کو پی ایم ایل (ن) نے مسترد کردیا تھا، جس سے دونوں جماعتوں میں مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے، اسی طرح تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان بھی ہونے والے مذاکرات بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکے۔ تحریکِ انصاف جماعت ِاسلامی کو تیس فیصد سیٹیں دیناچاہتی تھی جب کہ جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ کے پی کے میں تیس اور ستر فیصد کے موازنے کا فارمولہ نہیں چل سکتا،اس وجہ سے بیل منڈے نہیں چڑھ سکی۔ یہی حال مسلم لیگ (ن) اور جماعت ِاسلامی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات کا ہوا۔ مسلم لیگ (ن) ہزارہ ڈویژن میں کوئی سیٹ جماعت اسلامی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھی جس وجہ سے مذاکرات ناکام ہو گئے۔

خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات صحیح سمت میں جارہے تھے ، فیصلہ ہو اتھا کہ وہ سیٹیں جو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جس پارٹی نے جیتی ہیں اس پر ان کے ہی امیدوار ہوں گے، البتہ وہ سیٹیں جس پر ایم ایم ا ے کی ناکامی ہو ئی تھی، صوبے کی بڑی دینی پارٹی ہونے کے ناطے وہ جے یو آئی کو ملنی چاہئیں ۔ جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ انہیں برابر تقسیم کیا جائے ۔ یا کم از کم پچیس فیصد سیٹیں جماعت اسلامی کو ملنی چاہئیں جو جے یو آئی (ف) کو منظور نہیں تھا، اسی وجہ سے دونوں جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات ناکامی کا شکار ہوگئے۔ اب ہر جماعت خیبر پختونخوا میں بغیر اتحاد و بغیر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے انتخابات میں حصہ لےتی نظر آرہی ہے۔

صوبائی دارالحکومت پشاور کے قومی اسمبلی کے حلقہ اےن اے1 (ون )مےں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان،جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری شبیر احمدخان،پیپلز پارٹی کے ذوالفقارافغانی،مسلم لیگ(ن)کے افضل اور سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے درمیان مقابلہ ہوگا ، جماعتِ اسلامی 2002ءکے انتخابات میں یہاں سے بڑے مارجن سے نشست جیت چکی ہے ۔ 2008ءکے انتخابات میں اے این پی کے امیدوارغلام احمد بلور نے پی پی پی کے سیدایوب شاہ کوہرایاتھا۔ صوبائی دارالحکومت کے حلقہ این اے 2پشاورسے پیپلز پارٹی کے ارباب عالمگیرخان کے مقابلے میں اے این پی کے ارباب نجیب اللہ، مسلم لیگ(ن)کے باری خٹک ،جے یو آئی کے مولانا سید جان اور جماعتِ اسلامی کے سابق ضلعی نائب ناظم ڈاکٹر اقبال خلیل ہیں ۔ حلقہ این اے 3 میں جے یو آئی کے حاجی غلام علی، اے این پی کے ارباب انعام اللہ ،پیپلز پارٹی کے نور عالم خان ،مسلم لیگ(ن) کے اقبال ظفر جھگڑا اور جماعت اسلامی کے اسرار اللہ ایڈووکیٹ میدان میں اترے ہیں۔ پشاور کے حلقہ این اے 4سے 2002ءکے انتخابات میں جماعتِ اسلامی کے معروف رہنما صابر حسین اعوان نے کامیابی حاصل کی تھی۔2008ءکے الیکشن میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی وجہ سے اے این پی کے ارباب ظاہر خان کامیاب ہوئے تھے ،اب اے این پی نے سابق صوبائی وزیر ارباب ایوب جان کو ٹکٹ دیا ہے جب کہ جے یو آئی نے شریف اللہ اور پیپلز پارٹی نے مصبا ح الدین کو ٹکٹ دیا ہے ۔

صوبے کے دوسرے بڑے ضلع مردان کے حلقہ این اے 9 سے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی ، مسلم لیگ(ن)کے سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر خواجہ ہوتی، جے یو آئی کے سابق ایم این اے مولانا شجاع الملک، پاکستان پیپلز پارٹی کی شازیہ اورنگزیب اور جماعت اسلامی کے مولانا گوہر رحمن کے صاحبزادے ڈاکٹر عطاءالرحمن امےدوار ہےں، 2002ءکے انتخابات میں اس علاقے سے مولانا شجاع الملک اورگزشتہ انتخابات میں یہاں سے اے این پی کے حمایت اللہ مایار کامیاب ہو ئے تھے ۔ مردان کے حلقہ این اے 10 کے لیے پیپلز پارٹی نے عبد القادرخان ،جے یو آئی نے مولانا محمد قاسم ،مسلم لیگ(ن)نے نسیم محمد خان ،جماعت اسلامی نے سلطان محمدخان ،اے این پی نے فاروق اکرم خان کو اس حلقے سے اکھاڑے میں اتارا ہے ۔اس حلقے میں جے یو آئی کے امیدوار مولانا محمد قاسم کافی مضبوط تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ ان کے والد ایک بڑے روحانی بزرگ گزرے ہیں اور وہ گزشتہ دو انتخابات میں اپنے والد کے بعد اس حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں ۔ مردان میں قومی اسمبلی کے لیے جے یو آئی نے اشفاق اللہ خان، پیپلز پارٹی نے سابق رکن قومی اسمبلی خانزادہ خان،جماعت اسلامی نے گل نواز خان ،مسلم لیگ(ن)نے لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ شیر افگن خان ،عوامی نیشنل پارٹی نے عنایت خان کو ٹکٹ دیا ہے ۔یہاں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کے شیر افگن خان اور پیپلز پارٹی کے خانزادہ خان کے درمیان ہوگا۔اگر مذہبی ووٹ بینک تقسیم نہ ہو تو یہ سیٹ بھی جے آئی یا جے یو آئی کے حصے میں آئے گی، 2002ءکے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے مردان کے تمام خانوں اور نوابوں کو شکست دی تھی، جس کے بعد ان نوابوں اور خانوں کی کوشش رہی کہ مذہبی ووٹ تقسیم ہی رہیں ۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اگر مذہبی ووٹ بینک یکجا ہوجائے تو دوسری جماعتوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنابے حد مشکل ہوگا،اس کی مثال 2002ءکے انتخابات میں سامنے آچکی ہے۔مذہبی اتحاد نے خیبرپختونخوا سے 67سیٹیں حاصل کی تھیں،اب کی بار صوبہ خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتوں کی حالت کافی پتلی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام دو ہی بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں،جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں،جس سے ووٹ بینک تقسیم ہوگا،جس کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑے گا،ان کے لیے بہتر ہے کہ کسی طرح مذہبی ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچائیں،اب ایم ایم اے جیسا اتحاد تو ممکن نہیں ہے،سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو ہوسکتی ہے۔دونوں جماعتوں کے ہارنے سے بہتر ہے ،سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے کچھ سیٹیں تو حاصل کرلیں۔ورنہ شکست کا مزہ چکھیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.