شیر کے منہ میں بل

ایک کہاوت مشہورہے ۔ "سانپ کے منہ میں چھپکلی، نہ نگل سکے ، نہ اُگل سکے"۔سانپ ایک خوفناک اور زہریلا جانور ہے۔ جنگل تو جنگل گاﺅں اور شہروں میں بھی اُس کی دہشت پائی جاتی ہے۔ سانپ کے کاٹ جانے سے ہر جاندار شے کو نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ سانپ اگر زیادہ زہریلا ہوتو اُس کا کاٹ جانا بہت جلد موت کا باعث بنتا ہے۔سانپ کی خوراک بھی جانور ہی ہوتے ہیں۔ سانپ چوہے سے لے کر ایک موٹا تازہ ہرن تک کو ہڑپ کر جاتا ہے۔ سانپ جسامت کے لحاظ سے جتنا بڑا ہو گا اُس کا شکار بھی اُسی لحاظ سے جسامت میں بڑا ہی ہو گا۔ سانپ تواپنے ساتھی سانپ کو بھی کھا جاتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ سانپ چھپکلی کو نہیں کھاتا۔ کیونکہ چھپکلی بھی اپنے اندر زہر رکھتی ہے۔ سانپ اگر غلطی سے چھپکلی کا شکار کر بھی بیٹھے تو وہ اُسے منہ میں لیئے ہی ادھر اُدھر بھاگتا رہتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ سانپ جانتا ہے کہ اُس نے اگر چھپکلی کو نگل لیا تو اُس کے زہر سے اُسے کوڑھ چل جا ئے گا اور یہ مرض آہستہ آہستہ اُس کی ہلاکت کا باعث بن جائے گا۔ اور رہی چھپکلی کو اُگلنے والی بات!!!۔۔۔ اگر سانپ چھپکلی کو اُگلتا ہے تو یہ اُس کی توہین ہو گی۔ کہ سانپ ہوتے ہوئے بھی ایک چھوٹی سی اور معمولی سی شے سے ڈر گیا۔۔۔!

یہ کہاوت مجھے اُس وقت یاد آئی جب مسلم لیگ (ن) کے ایک جلسے میں ایک کارکن کے ہاتھوں میں ایک شیر کا پتلا دیکھا جس کے منہ میں بلا ٹھونسا ہوا تھا۔ گویا شیر بلے کو کھا رہا ہو۔ جس طرح سانپ چھپکلی کو نہیں نگل سکتا اسی طرح شیر بھی لکڑی سے بنی ہوئی کسی شے کو نہیں کھا سکتا ۔ کیونکہ لکڑی شیر کے حلق میں پھنس جائے گی جس سے شیر کو مزید شکار کرنے میں دقت پیش آئے گی۔ دقت اس لیئے کہ اُس کے حلق میں تو پہلے سے ہی لکڑی سے بنا ہوا بلا پھنسا ہوا ہے اور بلا شیر کو مزید خوراک کھانے میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔ جب شیر کو اپنی خوراک یعنی گوشت کھانے میں رکاوٹ کا سامنا ہو گا تو وہ کچھ کھانہیں سکے گا اور جب وہ کچھ کھائے گا نہیں تو اُس کے جسم میں توانائی نہیں پیدا ہو گی اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتا جائے گا۔اور یہ کمزوری جنگل کے بادشاہ کو موت کے منہ تک بھی لیجاسکتی ہے۔اب منہ میں لیئے ہوئے بلے کو اُگل دینا ہی شیر کی حق میں بہتر ہو گا اسی سے ہی اُس کی زندگی بچ سکتی ہے۔ لیکن جب شیر اپنی جان کی امان پانے کے لیئے بلے کو اپنے منہ سے باہر اُگلے گا تو پھر آپ ہی بتائےے جنگل کے اس کے بادشاہ کی کیا عزت رہے گی۔ لوگ تو یہی کہیں گے نا کہ شیر یعنی جنگل کا بادشاہ ہو کر ایک معمولی سے لکڑی سے بنے ہوئے بلے سے ڈر گیا ۔ یاد رکھیں جب کوئی بہادر اور بہت زیادہ دہشت رکھنے والا جانور یا انسان کسی معمولی شے سے ڈر جائے تو اُس کی ساری کی ساری بہادری ، دہشت اور وحشت دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے اور اُس کا خوف، اُس کی عزت اور اُس کا وقار لوگوں کے دلوں سے نکل جاتا ہے۔پھر شیر ہو یا بکری دونوں میں کوئی تمیز نہیں رہتی۔ جس طرح بکری کو ایک چھوٹی سی لکڑی کی چھڑی سے جس طرف چاہے ہانکا جا سکتا ہے بالکل اُسی طرح شیر کو بھی بلے۔۔۔۔مم میرا مطلب ہے کہ کسی بھی معمولی سی لکڑی کی چھڑی سے ہانکنا نا ممکن نہیں رہتا۔ پھر وہ شیر جنگل کا بادشاہ نہیں بلکہ سرکس کر شیر بن کے رہ جاتا ہے جسے اُس کا ماسٹر اپنی مرضی سے سدھارتا ہے اور لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اُسے ایک معمولی سی چھڑی سے اپنا حکم ماننے پر مجبور کرتا ہے۔اور ہجوم میں بیٹھے ہوئے بچے، عورتیں اور بڑے سب تالیاں بجا کر اس کرتب کی داد دے رہے ہوتے ہیں اور یہ داد شیر کا نہیں بلکہ شیر کے ماسٹر کا حوصلہ بڑھا رہی ہوتی ہے۔یہاں ایک اور مشہور کہاوت بھی کہی جا سکتی ہے ۔" جس کی لاٹھی ؛اُس کا شیر"

میرا مشورہ ہے کہ شیر کو اُس کی مطلوبہ خوراک ہی کھلائی جائے تاکہ اُس کی طاقت اور ہشت میں کوئی کمی نہ واقع ہو۔ اور وہ ڈٹ کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر سکے اور اپنی خوراک حاصل کرنے کے لیئے شکار کرنے کے قابل ہو سکے۔ اگر اُسے خوراک کے طور پر بلے ہی کھلائے گئے تو پھر بلے والے اُسی کمزور ہوتے ہوئے شیر کو گیند سمجھ کر کھیلنا شروع کر دیں گے۔اور اپنے مضبوط بلے سے ایک ایسی شارٹ کھیلیں گے کہ گیند گراﺅنڈ سے باہر جا گرے گی۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.