آنے والے انتخابات بہت سے سوالات

پاکستان کی حالیہ تاریخ کے یہ غالبا پہلے ایسے انتخابات ہیں جس میں نہ تو کسی فوجی حکمران کے حق میں یا خلاف ووٹ ڈالنے کا سوال ہے اور نہ پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی محرک دکھائی دے رہا ہے گنتی کے چند لیڈروں کو چھوڑ کر تقریباً سب قابل ذکر جماعتوں کے ایک جیسے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں کسی بھی حلقے میں سب سے طاقتور امیدوار کا پارٹی ٹکٹ چھین کر دوسرے نمبر کے امیدوار کو پکڑا دیا جائے تو لگتا ہے کہ ووٹروں کے لیے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے ساری زندگی پیپلز پارٹی مخالف سیاست کی لیکن جب ایک فوجی آمر سے معاہدے کے تحت جلا وطنی اِختیار کرنے پر راضی ہوئے تو میثاق جمہوریت کے لیے بے نظیر بھٹو سے ہی مشاورت شروع کر دی اور ان کے اس میثاق کی وجہ سے وقت کے آمر پر پریشر بڑھانے میں کافی مدد ملی اور ایک ایسا ماحول بن گیا جس کی وجہ سے جنرل مشرف کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑانواز شریف جب وطن واپس آئے تو اپنے بے وفا سیاسی ساتھیوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھے اس سلسلے کی سب سے بڑی مثال راولپنڈی کے شیخ رشید احمد گجرات کے چوہدری برادران بھی ہیں چوہدری برادران کے بارے میں تو کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مسلم لیگ میں جانے کی کوشش کرتے رہے لیکن شیخ صاحب نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کے کسی طرح (ن) والے ان کو شامل کر لیں کیونکہ جب سے انھوں نے پارٹی سے بے وفائی کی اس کے بعد سے وہ الیکشن میں ہار رہے ہیں اور دوسرے الفاظ میں اگر اب کی بار بھی وہ ہار گئے تو ان کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی پھر ایسا ہوا کہ پاکستان کی سیاست میں میں عمران خان نمودار ہوئے اور مقامی سیاستدان تحریک انصاف میں اس طرح لینڈ کرنے لگے جس طرح کہیں پر مفت میں کوئی چیز بانٹی جا رہی ہو اور لوگ مفت کا مال سمجھ کر اکھٹے ہو جاتے ہیں عمران کے متحرک ہو جانے سے میاں صاحب اپنے پرانے ساتھوں کو ساتھ ملانے پر راضی ہوئے کیوں کہ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں تمام کے تمام لوگ نئے گھونسلے میں نہ جا بیٹھیں آمریت کے دور میں میاں صاحب کو چھوڑ کر جانے والے اور میں صاحب کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو پھر گلے لگا لیا اس کی کوئی اور وجہ نہیں ماسوائے اس کے ،کہ میاں صاحب عمران خان کے خوف میں ہیں اور ان کا یہ خوف حقیقی ہے کیونکہ اگر عمران خان نہ ہوتے تو اب کی بار شاید میاں صاحب دو تھائی اکثریت حاصل کر لیتے کیونکہ عمران خان کی وجہ سے جب میاں صاحب کے امیدواروں کی ووٹ ٹوٹیں گے تو فائدہ دوسری جماعتوں کو ہو گا جن میں سب سے بڑا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہو گا شاید یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب عمران خان کو زرداری کا آدمی کہتے ہیں پاکستان میں سب کو علم ہے کہ جب پیپلز پارٹی وفاق میں تھی تو پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت تھی اس عرصے میں پنجاب کی حالت بھی تقریبا وہی رہی جو کہ پاکستان کے دوسرے حصوں کی رہی اب مسلم لیگ ن کے ان دعوں پر کون یقین کرئے گا کہ ہم نے تو اپنی پوری کوشش کی کہ مسائل کوحل کر دیں مگر ہمیں کرنے نہیں دیا گیا پی ٹی آئی کے نوجوانوں میں عمران خان کی تقریریں سن کر جن روایتی سیاستدانوں سے جان چھڑائے جانے کی امید پیدا ہوئی تھی عمران خان نے انھیں پرانے کھلاڑیوں اور فصلی بٹیروں کو اپنی پارٹی میں شامل کر کے نوجوانوں کے ارمانوں کا خون کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی کراچی کی بڑی جماعت ایم کیو ایم کے پاس بھی بیچنے کو کوئی نیا سودا نہیں ہے ایم کیو ایم :تیرے اقتدار تک تیرا ساتھ: کے فارمولے پرکاربند ہے اور ماضی سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اس اصول پر ڈٹی رہے گی اور اب کی بار نئی حلقہ بندیاں بھی اس کے لئے مشکلات کا سامان کرنے میں مصروف ہیں اور انھوں نے سب سے زیادہ کراچی کو فوکس کیا ہوا ہے خیبر پختونخواہ کی اے این پی عبدالغفار خان اور ولی خان کی سرخ پوش پارٹی سرمایہ دار امریکہ سے شاباشیاں لینے کے علاوہ پیپلز پارٹی سے بھی بغل گیر ہو چکی ہے اور اپنے دور حکومت میں انھوں نے جو حال اپنے صوبے کا کیا ہے اس سے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب کی بار وہ شاید اپوزیشن کے قابل بھی نہ رہیں ان کے پاس کوئی خاص ایشو بھی نہیں ہے ماسوائے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے عوامی نیشنل پارٹی کے بیشترامیدوار الیکشن مہم چلانے سے ویسے بھی قاصر ہیں کیونکہ پانچ سالہ حکمرانی کرنے باوجود وہ خود کش بم دھماکوں سے بچ کر انتخابی جلسے کرنے کا کوئی فارمولا نہیں ڈھونڈ پائے اور رہی سہی کثر عمران خان نے خیبر پختونخواہ کے تمام حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کر کے پوری کر دی ہے اور عوامی سروئے وہاں سے کپتان کی کامیابی کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں پاکستان کے سیاسی نظام میں مذہبی جماعت ہونے کی دعوے دار اورپانچ سال مسلم لیگ ن کے خلاف تقریریں کرنے والی جماعت اسلامی کے لیڈر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بغل میں فائلیں دبائے کبھی نون لیگ تو کبھی عمران خان کے در کے چکر لگا رہے ہیں جہاں پر کوئی خاص کامیابی نہ ہو سکی ہے اور اوپر سے الیکشن کمیشن کی یہ پابندی کے مذہب یا فرقے کے نام پر ووٹ مانگنا بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور ہو گا ان کے لئے خاصا پریشان کن ہے مگر ایک بات جو ان کا قد کاٹھ بڑھا رہی ہے وہ ان کی منظم جماعت اور ورکر کی بے لوث محبت ہے بات کی جائے مسلم لیگ ق کی تو مسلم لیگ ق کے رہنماء چودھری شجاعت حسین اپنے والد چودھری ظہور الہی کے قتل کا الزام جس پارٹی پر لگاتے تھے اسی پیپلز پارٹی کو اپنی اور اپنی جماعت کی بقا سمجھ بیٹھے اور ایک ایک ایسا رشتہ قائم کر لیا جس کا کوئی نام ہی نہیں ہے اب کی بار انکی رہی سہی کثر بھی نکل جانے کا خوف نظر آرہا ہے مگر پھر بھی توقع ہے کہ ان کا کچھ نہ کچھ حصہ اسمبلی میں نظر آئے گا مندرجہ بالا تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معشیت، خارجہ پالیسی، انتہاپسندی اور توانائی کے بارے میں سب بڑی جماعتوں کے منشور تقریباً ایک ہی جیسے ہیں سوال بہت سے اٹھتے ہیں مگر اہم سوال ایک ہی ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں ہی پاکستان کے ساتھ اور عوام کے ساتھ مخلص تھیں اور ایسے دلفریب منشور دیے ہوئے ہیں تو وہ وہ کون سے عوامل ہیں جو پاکستان کی ترقی میں پاکستان کے مسائل عوام کی خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس بظاہر سادہ سے سوال کا جواب بہت مشکل ہے -
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208126 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More