الیکشن 2013 ء اور پاکستان وعوام کا مستقبل

انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار کو ن ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور فائدہ کس کو ہوگا ؟
انتخابات کے بعد اقتدار کا تاج کس کے سر سجے گا اور عوام کو کیا ملے گا ؟

انتخابات 2013ءکے موقع پر دہشتگردی کے تمام تر خدشات اور خطرات کے باوجود پاکستان کے عوام اور بزرگوں کے ساتھ نوجوانوں و خواتین کا جذبہ اس بات کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان کے عوام ”تبدیلی و انقلاب “ چاہتے ہیں مگر شاید ”تبدیلی “ سے خوفزدہ اور ’‘انقلاب “ کا مخالف طبقہ پاکستان کے عوام سے کہیں زیادہ طاقتور و بااختیار ہے اس لئے عوام کی جانب سے ”انقلاب“ کیلئے اٹھائے گئے پہلے ہی قدم کو روک دیا گیا ہے ۔

اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں انتخابی عمل نظم و ضبط سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ بد انتظامی کا بھی شکار دکھائی دیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے 62و63 کی چھلنی سے گزار کر صادق و امین امیدواروں کو انتخابا ت کیلئے اہل قرار دینے کے دعووں کے باطل ہوجانے اور انتخابات کو مکمل پر امن بنانے کے آرمی چیف کے دعووں کی طرح موثر و منظم انتظامات کے نگراں حکومت کے دعوے بھی قوم نے باطل ثابت ہوتے دیکھ لئے جبکہ آزاد عدلیہ سے عوامی مفادات کے تحفظ اور ہرعام آدمی کو بروقت و سستے انصاف کی فراہمی اور مساوات کے قیام کی توقعات تو پہلے ہی مایوسی میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔

پاکستان اس وقت عوامی جوش‘ ولولے اور فرض کی ادائیگی و حق رائے دہی کے استعمال کے حوالے سے تاریخ کے سنہرے ترین دور مگر انتخابات کے انتظامات ‘ ان کی شفافیت و غیر جانبداری اور عوام کو حق رائے دہی کی آزادی کے حوالے سے بدترین مرحلے سے گزرتا دکھائی دیا ۔ ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات کے ساتھ ‘ سیاسی جماعتوں کے باہمی جھگڑوں ‘ فائرنگ و تشدد کے واقعات اور بم دھماکوں کے علاوہ انتخابی عملے کو یرغمال بنانے ‘ انتخابی عملے کی جانب سے ووٹرز سے زبردستی مخصوص امیدواروں کو ووٹ دلائے جانے ‘ پولنگ کے تاخیر سے آغاز ‘ پولنگ اشیاءکی پولنگ اسٹیشنوں پر عدم دستیابی ‘ پولیس ورینجرز اور سیکوریٹی اداروں کے ووٹ ڈالنے کے خواہشمند رائے دہندگان کے ساتھ تذلیل و تحقیر آمیز سلوک کے حوالے سے ٹی وی چینل مسلسل عوام کوحقائق سے آگاہ کررہے ہیںاور دنیا پاکستان کی وہ حقےقی تصویر دیکھ رہی ہے جس پر پردہ ڈالنے کیلئے ہر ادارہ شفافیت اور غیر جانبداری کا راگ الاپ کر قوم کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر آج حقیقت دنیا کے سامنے آرہی ہے جو اس سوال کو جنم دے رہی ہے کہ فوج ‘ آزاد عدلیہ ‘غیر جانبدار نگران حکومت اور خود مختار الیکشن کمیشن جیسے ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں یا پھر یہ ادارے بوجوہ قومی مفادات پر غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناکر عوام سے انقلاب کا حق دانستہ چھین رہے ہیں ۔

اگر چاروں مقتدرا دارے قوم سے مکمل طور پر مخلص ہیں اور وہ ان انتخابات کو شفاف و غیر جانبدارانہ بنانے کیلئے صدق دل سے کاوشوں میں مصروف ہیں تو پھر انتخابات کے دوران پیدا ہونے والے حالات کا ذمہ دار کون ہے اور کیا وہ ذمہ دار مسلح افواج ‘ پولیس و رینجرز ‘ عدلیہ ‘الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے مشترکہ اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی اہلیت کا حامل ہے اور اگر یہ سہی ہے تو یہ ہمارے مستقبل کیلئے انتہائی تشویشناک ہے کہ دکھائی نہ دینے والی قوت ریاست کے چار بڑے مقتدر اداروں اور ستونوں کے مشترکہ اقدامات کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہے تو پھر فوج کے جداگانہ آپریشن ‘ عدلیہ کی جدا ذمہ داری ‘ نگراں حکومت کی مہم اور الیکشن کمیشن کے فرض کو وہ کس طرح آسانی سے سبوتاژ کرسکتا ہے یا اپنی مرضی و منشاءکی سمت موڑ سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے‘ تمام ادارے مضبوط و مستحکم اور آزادو غیر جانبدار ہیں تو پھر انتخابات میں پیدا ہونے والے حالات کسی مشترکہ منصوبے کا حصہ کہلائے جائیں گے جو محب وطن اداروں کی ساکھ کیلئے خطرناک ہے اسلئے تمام اداروں کو اس جانب توجہ دینے اور انتخابات کی بد انتظامی کی اصل وجوہات و حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔

دہشتگردی کی صورتحال اور عوامی نیشنل پارٹی ‘ متحدہ قومی موومنٹ و پیپلز پارٹی کے درمیان موجود خلیج کو اپنے حق میں سازگار محسوس کرنےو الی جماعتوں نے سندھ میں 10جماعتی اتحاد کے عنوان سے جو پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا اس میں کراچی میں عوامی نمائندگی کی سب سے بڑی دعویدار جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کی بدانتظامی کو دھاندلی اور اس دھاندلی کاذمہ دار متحدہ قومی موومنٹ کو قرار دیکر کراچی و حیدرآباد سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے مگر ان کے اس فعل و عمل میں دس جماعتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی جانب سے ساتھ نہ دیئے جانے سے اس اتحاد کا مستقبل خطرے میںدکھائی دے رہا ہے جبکہ تمام تر خطرات و‘خدشات‘ تحفظات اور حملوں و دہشتگردی کے باوجود انتخابات میں حصہ لے کر تمام ناقدوں و تجزیہ نگاروں کو حیران کردینے والی متحدہ قومی موومنٹ کی تمام شکایات جماعت اسلامی سے ملتی جلتی ہیں مگر اس کے باوجودوہ انتخابات میں موجود ہے گوکہ اس کے عہدیداران بھی انتخابی عمل کی شفافیت اور بد انتظامی پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیںاور کراچی کے عوام کی انتخابی عمل میںدلچسپی کے ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والے مناظربتارہے ہیں کہ کراچی میں بھی انتخابی جوش و خروش اور انقلاب و تبدیلی میں کردار کی ادائیگی کا جنون ملک کے دیگر حصوں یا پنجاب سے کم نہیں ہے اور کراچی کا ہر شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتا ہے ضرورت صرف انتظامات کو بہتر بنانے کی ہے اور اگر انتظامات بہتر بنانے کے ساتھ ضائع شدہ وقت کی مناسبت سے پولنگ کے وقت میں اضافہ کیا گیا تو یقینا کراچی میں ووٹ کاسٹنگ کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا مگر جماعت اسلامی کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد کراچی میں صرف لبرل جماعتوں کے درمیان مقابلہ رہ گیا ہے جو انتخابات میں حصہ لینے والوں پر خود کش حملوں کی دھمکی دینے والوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اسلئے ہوسکتا ہے کہ بد انتظامی کے ساتھ شروع ہونے والے انتخابی عمل دہشت گردی ‘ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ختم کرنے کی سازش کی جائے اور اگر ایسا ہوا تو انتخابی عمل ”کامیاب “ کسی طور نہیں کہلائے گا اور نہ تو اس کے نتائج تسلیم کئے جائیں گے نہ ہی اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کاکوئی بہتر مستقبل دکھائی دے گا ۔

پنجاب ‘ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے آنے والی خبریں بھی ملک بھر میں کراچی جیسی ہی صورتحال کی تصویر دکھارہی ہے ۔کراچی میں جماعت اسلامی اورسنی اتحاد کونسل کی جانب سے بائیکاٹ اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات کی شفافیت پرتحفظات کے اظہارکے علاوہ بلوچستان میں جمہوری وطن پارٹی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس سے لگتا ہے کہ انتخابی عمل کے اختتام تک کئی اور جماعتیں انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھائیں گی اور آنے والے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روایت ایک بار پھر اپنائی گئی تو شاید اس بار یہ روایت غلط نہ ہو کیونکہ پاکستان کی عوام تو تبدیلی و انقلاب کیلئے اپنا کردار ادا کرناچاہتے ہیں مگر پاکستان کے مقتدر ادارے عوام کو اس کردار کی ادائیگی کی سہولت فراہم کرنے اور حق رائے دہی کی مکمل آزادی دینے میں ناکام یا غیر سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں جو دونوں ہی صورتوں میں ملک وقوم کے مستقبل کیلئے خطرناک ہے ۔

تجزیہ و تبصرہ نگار مسلسل حالات و واقعات اور قرائن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بتاتے رہے ہیں کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی شخصیت مسلم لیگ (ن) کی شہرت کا باعث بنی ہوئی ہے اسلئے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) بڑی جماعت کے طور پر ابھرے گی اور چاروں صوبوں سے 80سے 85سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی جبکہ میاں صاحب کو یہ توقع بھی ہے کہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور قوم پرست بھاری اکثریت حاصل کرلیں گے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمن خاصی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یوں مسلم لیگ (ن) ‘ مولانا فضل الرحمن اور سندھ و بلوچستان کے قوم پرستوں اور فنکشنل لیگ کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

آل پاکستان مسلم لیگ سندھ کے انفارمیشن سیکریٹری کی جانب سے یہ بھی بیان سامنے آیا ہے کہ انتخابات محض مقتدر ٹولے کے اقتدارکو عوامی حمایت کا ٹھپہ لگانے کا ذریعہ ہیں وگر نہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ اقتدار میں وہی آئے گا جس نے آرمی چیف اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی یقین دہانی کرادی ہے اور مقتدر ٹولے کا نام پہلے ہی فائنل ہوچکا ہے ۔

خاکسار کا سیاسی وصحافتی تجربہ تما م حالات و واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ بتارہا ہے کہ انقلاب کا سونامی عوام کو جگانے اور نوجوان طبقے کو باہر لانے میں کامیاب تو یقینا ہوچکا ہے مگر انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کیلئے” سونامی خان“ کو کم از کم دو بار مخلوط حکومت میں شامل ہوکر نظام کی اصلاح ومثبت تبدیلیوں کی جدوجہد کرنی ہوگی تب کہیں جاکر وہ حقیقی معنوں میں انقلاب لانے کے قابل ہوسکیں گے البتہ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان تبدیلی لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) کی صف میں انہوں نے تحریک انصاف کو تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر شامل کردیا ہے اور یہی حیثیت تحریک انصاف کو انتخابات میں حاصل ہوگی اور پیپلز پارٹی آصف زرداری کی صدارت کی طوالت ‘ تحریک انصاف وزرات عظمیٰ ‘ مسلم لیگ (ق) نائب وزیراعظم ‘ متحدہ قومی موومنٹ سندھ کی وزارت اعلیٰ یا گورنرشپ ‘ عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخواہ میں حکومت‘ مولانا فضل الرحمن بلوچستان اور مرکز میں نمایاں کردار کی شرائط پر مخلوط حکومت بنائیں گے اور مسلم لیگ (ن) شاید اس بار مرکز اور پنجاب اسمبلی دونوں ہی میں اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور ہوکیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ سندھ میں فنکشنل لیگ ‘ متحدہ قومی موومنٹ ‘پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت بنے گی اور بلوچستان کی مخلوط حکومت میںپیپلز پارٹی ‘مولانا فضل الرحمن اور قوم پرست حلقے شامل ہوں گے ۔

یہ وہ تجزیہ ہے جو عوامی مزاج اور سمت کو دیکھ کر کیا گیا ہے اب مقتدر قوتوں کا قبلہ کیا ہے وہ الگ بات ہے اور ان کا قبلہ عوامی سمت سے مختلف ہے اور آل پاکستان مسلم لیگ سندھ کے ایڈیشنل انفارمیشن سیکریٹری کے بیان میں صداقت ہے تو پھرصورتحال اس تجزیئے کے برخلاف بھی ہوسکتی ہے اور ”انجینئرڈ رزلٹس “ مسلم لیگ (ن) کو بھاری اکثریت سے کامیاب دکھاکر اقتدار میں لانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں جبکہ میاں صاحب کے انداز و اطوار اور اعتماد اس امر کی وضاحت کررہا ہے

بحرکیف نتائج خواہ جو بھی ہوں ‘ اقتدار کسی بھی جماعت کو ملے ‘ مستحکم جمہوریت قائم ہو یا مخلوط حکومت بنے اللہ تعالیٰ پاکستان اور اس کے عوام کواپنی حفظ و امان میں رکھے اور حکمرانوں کو پاکستان کو مستحکم بنانے ‘عوام کو مسائل سے نجات دلانے ‘ قوم کو یکجا و متحد کرنے کی سعادت عطا فرمائے اوروطن عزیز کو بحرانوں سے نجات دلاکرترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا حوصلہ دے ........آمین
IMRAN CHANGEZI
About the Author: IMRAN CHANGEZI Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.