بھارت میں اردو کا فروغ، پاکستان میں زوال

تحریر: اشتیاق احمد سینئر ماہرِ مضمون طبعیات گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹبہ سلطان پور وہاڑی پنجاب

1980کی دھائی میں دہلی، آگرہ، لکھنؤ اور حیدرآباد کے شاہی محلوں میں پل کر جوان ہونے والی اردو ایسا لگتا تھا کہ جیسے یتیم ہو چلی ہے مگر بھارت کے اردو دانوں، شاعروں، ادیبوں اور علماء کا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے کہ جنہوں نے اردو کے مُردہ قالب میں پھر سے جان ڈال دی۔ آج جب u-tube پر 1990سے زمانہ حاضر تک کے ہونے والے مشاعروں کی روداد اور ان میں اردو کی مداح سرائی اور پزیرائی کا آنکھوں دیکھا حال دیکھتے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ لاکھوں افراد کے جمِّ غفیر میں جب بھارت کے نامور شاعر وسیم بریلوی سٹیج پر تشریف لاتے ہیں تو اپنے کلام کے آغاز میں یہ شعر پڑھتے ہیں
تمہاری نفرتوں کو پیار کی خوشبو بنا دیتا
میرے بس میں اگر ہوتا تجھے اردو سکھا دیتا

ان کے بعد ایک اور شاعرہ شبینہ ادیب صاحبہ تشریف لاتی ہیں جن کا پورا کلام ہی اردو کی تعریف و ستائش میں ہوتا ہے۔ ان کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔
نہ مٹی تھی ، نہ مٹی ہے، نہ مٹے کی اردو
چاہنے والوں کے ہونٹوں پہ رہے گی اردو
یہ زباں وہ ہے جو محلوں میں رہی آن کے ساتھ
اور مزدور کے گھر میں بھی رہی شان کے ساتھ
عشق کی راہ میں اس نے کئی راہی بھی دیے
سرحدوں کے لیے جانباز سپاہی بھی دیے
جذبہ جنگ کو سینوں میں جگایا اِس نے
اپنے بھارت کو غلامی سے چھڑایا اِس نے

ان کے بعد لتا حیا صاحبہ تشریف لاتی ہیں جن کی بھی پوری نظم عشقِ اردو کے نشے سے لبریز ہوتی ہے اور سامعین کو مسحور کر کے رکھ دیتی ہے۔ایک بند ملاحظہ فرمائیں
صبح کا پہلا پیام اردو
ڈھلتی ہوئی سی جیسے شام اردو
اتریں جاں تارے وہیں بام اترو
بڑی کم سِن گلفام اردو
جیسے نئے سال کا یہ دن ہو نیا
اور بیتے سال کی ہو آخری دعا
نیا سال نئی رام رام اردو
تجھے نئی صدی کا سلام اردو

لتا حیا کے بعد پھر ایک اور مشہور شاعر جناب ماجد دیوبندی تشریف لاتے ہیں اور آتے ہی حُسنِ اردو پر لکھی جانے والی ترنّم آفریں غزل چھڑتے ہیں جس کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں
سُخن میرا جو ہر سو بولتا ہے
میرے الفاظ میں تو بولتا ہے
ذرا میں زیر ہو جاتا ہے دُشمن
وہ اس لہجے میں اردو بولتا ہے

پھر ایک عاشقِ اردو جناب آنند موہن زُتشی دہلوی تشریف لاتے ہیں اور اردو سے محبت کا کچھ اس طرح سے ثبوت دیتے ہیں
میرو مرزا، ذوق و مومن نے جسے بخشی جلا
وہ زباں نوّاب مرزا داغ کی رکھتا ہوں میں
آٹھ صدیوں تک جسے پالا عوامُ الناس نے
فخر ہے مجھ کو زبانِ خُسروی رکھتا ہوں میں
انہی کا ایک دوسرا بند ملاحظہ کیجئے
مجموعِ گہر، فکر جواں ہے میری
کوثر میں دُھلی طرزِ بیاں ہے میری
دلّی جسے کہتے ہیں وطن ہے میرا
اردو جسے کہتے ہیں زباں ہے میری

یہ سلسلہ تو بہت لمبا ہے۔ بہت سے مزید فدائیانِ اردو کے عشق و مستی میں ڈوبے ہوئے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں۔ طوالت کے پیشِ نظر مزید اشعار پیش کرنے کی بجائے میں آپ کی توجہ مولانا آزاد بین الااقوامی اردو یونیورسٹی کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو بھارت کے شہر حیدرآباد میں 1994 میں قائم ہوئی۔ اب یہ یونیورسٹی سائنس کے تمام مضامین جن میں حیاتیات، کیمیا، طبعیات، شماریات، ریاضی، کمپیوٹر وغیرہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر بی۔ ایس سی اردو میں کامیابی کے ساتھ کروا رہی ہے۔ یہ کورسز اس نے حیدرآباد میں قائم ڈاکٹر ایمبیٹکر یونیورسٹی سے اردو میں ترجمہ کیے ہیں۔ فاصلاتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریگولر بنیادوں پر بھی بی ایس سی اردو میں ہو رہی ہے۔ یہ یونیورسٹی جلد ہی ایم ایس سی کے کورسز اردو میں شروع کرنے والی ہے۔ اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس برطانیہ اور جدّہ میں بھی قائم ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں بھارت میں ہزاروں اردو میڈیم سکول کھل رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ ہندؤں کی بھی ایک بڑی تعداد داخلہ لے رہی ہے۔ اردو کے بارے میں یہ پیش رفت انٹرنیٹ پر پڑھی جا سکتی ہے۔ تقسیم سے پہلے بھی عثمانیہ یونیورسٹی میں سائنس کے تمام مضامین میں، ایم بی بی ایس سمیت ایم ایس سی اردو میں ہوتی تھی اور وہاں سے ایم ایس سی کرنے والوں کا معیار آج کے رٹو طوطوں سے کہیں بلند تھا۔ بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی اردو کو اب ضرورت ہے ایسی پالیسیوں کی جو اس کی پرورش کر کے اسے علوم و فنون کا مخزن بنا دے اور بین الاقوامی زبان کے منصب پر فائز کر دے۔ بقولِ اقبال۔
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا

بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے شاعر اور ادیب خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور پاکستان میں یتیم ہوتی ہوئی اردو کی یتامت اور مسکنت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی اردو قومی زبان ہے مگر اسے جبراً انگریزی کے نیچے تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔ خادمِ اعلیٰ کے پنجاب کے تعلیمی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر انگلش میڈیم میں بدلا جارہا ہے۔ اساتذہ کو ٹریننگ کورسز کے ذریعے آپس میں اور طلباء کے ساتھ انگریزی بولنے کی ہدایات کی جا رہی ہیں اور مزید انگلش میڈیم سکولوں کا غیر ملکی امداد کے بل پر جال بچھایا جا رہا ہے۔ سکولوں میں اردو میں لکھے ہوئے بورڈوں کو مٹا کر انگلش میں بدلا جا رہا ہے۔ سکول کی اسمبلی تین دن اردو میں اور تین دن انگریزی میں کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں، صحافیوں اور اساتذہ پر یہ واجب ہو چکا ہے کہ وہ بھارتی شعراء اور ادباء کی طرز پر تحریک چلائیں اور اردو کو انگریزی کی دست برد سے بچائیں۔ جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ علوم و فنون سے تہی دست ہو جاتی ہے۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 170121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.