حضرت امام زین العابدینّ، کربلا سے واقعہ حرہ تک ہوش رباء تاریخ اسلام-1

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام 15 جمادی الثانی 38ھ بروز جمعة المبارک مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانو ایران سے مدینہ کے لئے روانہ ہورہی تھیں تو جناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کا عقد حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیا تھا۔ کامل مبرد میں ہے کہ جناب شہربانو، بادشاہ ایران یزد جرد بن شہریار بن شیرویہ ابن پرویز بن ہرمزبن نو شیرواں عادل ”کسری“ کی بیٹی تھیں۔ علامہ طریحی تحریر فرماتے ہیں کہ اور جب آپ وارد مدینہ ہوئیں تو حضرت علی علیہ السلام نے شہربانوسے پوچھا کہ تمہارانام کیا ہے تو انہوں نے کہا”شاہ جہاں“ حضرت نے فرمایا نہیں اب ”شہر بانو ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپرد کر کے فرمایا کہ یہ وہ عصمت پرور بی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعد افضل اوصیاء اور افضل کائنات ہونے والا بچہ پیدا ہوگا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولد ہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کا لطف اٹھا نہ سکے ”ماتت فی نفاسہابہ“ آپ کے پیدا ہوتے ہی ”مدت نفاس“ میں جناب شہربانو کی وفات ہوگئی۔

آپ علیہ السلام کا اسم گرامی ”علی“ کنیت ابو محمد، ابوالحسن اورابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمار تھے جن میں زین العابدین، سیدالساجدین، ذوالثفنات، اور سجاد وعابد زیادہ مشہور ہیں۔ لقب زین العابدین کی توجیہ میں علامہ شبلنجی کا بیان ہے کہ امام مالک علیہ رحمہ کا کہنا ہے کہ آپ کو زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ علماء کا ارشاد ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آگیا اور اس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کو منہ میں لے کر کاٹنا شروع کیا، امام جو ہمہ تن مشغول عبادت تھے اور آپ کا رجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، وہ ذرا بھی اس کے اس عمل سے متاثر نہ ہوئے اور بدستور نماز میں منہمک و مصروف و مشغول رہے بالآخر وہ عاجز آگیا اور امام نے اپنی نماز بھی تمام کرلی اس کے بعد آپ نے اس شیطان ملعون کو طمانچہ مار کر دور ہٹا دیا اس وقت ہاتف غیبی نے” انت زین العابدین“ کی تین بار صدا دی اور کہا بے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کا یہ لقب ہوگیا۔ علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سر تھے اوراس کے دانت بہت تیز اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ مصلیٰ کے قریب سے زمین پھاڑ کے نکلا تھا۔ ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمد باقرعلیہ السلام لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو سجاد اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ہر کار خیر پر سجدہ فرمایا کرتے تھے جب آپ خدا کی کسی نعمت کا ذکر کرتے تو سجدہ کرتے، کسی میں صلح کراتے تو سجدہ کرتے اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے مواضع سجود پر اونٹ کے گھٹنوں کی طرح گھٹے پڑ جاتے تھے پھر انہیں کٹوانا پڑتا تھا۔

نسب اور نسل باپ اور ماں کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں، امام علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام حسین اور دادا حضرت علی اور دادی حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آپ کی والدہ جناب شہر بانو بنت یزد جرد ابن شہریار ابن کسری ہیں، یعنی آپ حضرت پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پوتے اور نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں، یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہد میں پیدا ہونے پر سرور کائنات نے اظہار مسرت فرمایا، اس سلسلہ نسب کے متعلق ابوالاسود دوئلی نے اپنے اشعار میں اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے بہتر اور سلسلہ ناممکن ہے اس کا ایک شعر یہ ہے۔
وان غلاما بین کسری وہاشم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاکرم من ینطت علیہ التمائم
ترجمہ :اس فرزند سے بلند نسب کوئی اور کا نہیں ہوسکتا جو نوشیرواں عادل اور فخر کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ہاشم کی نسل سے ہو۔ شیخ سلیمان قندوزی اور دیگر علماء اہل اسلام لکھتے ہیں کہ نوشیرواں کے عدل کی برکت تو دیکھو کہ اسی کی نسل کو آل محمد کے نور کی حامل قرار دیا اور آئمہ طاہرین کے ایک عظیم فرد کواس لڑکی سے پیدا کیا جو نوشیرواں کی طرف منسوب ہے ،پھر تحریر کرتے ہیں کہ امام حسینّ کی تمام بیویوں میں یہ شرف صرف جناب شہربانو کو نصیب ہوا جو حضرت امام زین العابدینّ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ علامہ عبیداللہ بحوالہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جناب شہربانو شاہان فارس کے آخری بادشاہ یزد جرد کی بیٹی تھیں اور آپ ہی سے امام زین العابدینّ متولد ہوئے ہیں جن کو”ابن الخیرتین“ کہا جاتا ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں میں سے دو گروہ عرب اور عجم کو بہترین قرار دیا ہے اور میں نے عرب سے قریش اور عجم سے فارس کو منتخب کرلیا ہے، چونکہ عرب اور عجم کا اجتماع امام زین العابدینّ میں ہے اسی لیے آپ کو”ابن الخیرتین“ سے یاد کیا جاتا ہے (ارجح المطالب) ۔ علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ جناب شہر بانو کو ”سیدةالنساء“ کہا جاتا ہے۔

آپّ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہد عصمت مہد میں ہوئی پھر امام حسن علیہ السلام کا زمانہ رہا پھر بنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہوگئی، صلح امام حسن کے بعد سے 60 ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا، اس کے بعد اس کا فاسق و فاجر بیٹا یزید64 ھ تک حکمران رہا۔64 ھ میں معاویہ بن یزید ابن معاویہ اور مروان بن حکم حاکم رہے۔65 ھ سے 68 ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اور بادشاہ رہا پھر 68 ھ سے69 ھ تک ولیدبن عبدالملک نے حکمرانی کی اور اسی نے69ھ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کردیا۔ (تاریخ آئمہ329 ،وصواعق محرقہ ص21 ،نورالابصار ص 182)۔

عہد طفولیت اور حج بیت اللہ۔۔۔۔۔:علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن اوہم کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کے لئے جاتا ہوا قضائے حاجت کی خاطر قافلہ سے پیچھے رہ گیا ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ایک نوعمر لڑکے کو اس جنگل میں بغیر زاد راہ سفر میں دیکھا تو میں حیران ہوگیا فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض پرداز ہوا ”صاحبزادے“ یہ لق ودق صحرا اور تم بالکل تنہا، یہ معاملہ کیا ہے، ذرا مجھے بتاؤ تو سہی کہ تمہارا زاد راہ اور تمہارا راحلہ کہاں ہے اور تم کہاں جارہے ہو؟ اس نوخیز نے جواب دیا ”زادی تقویٰ و راحلتی رجلاء وقصدی مولای“ میرا زاد راہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور میری سواری میرے دونوں پیر ہیں اور میرا مقصد میرا پالنے والا ہے اور میں حج کے لئے جارہا ہوں، میں نے کہا کہ آپ تو بالکل کمسن ہیں حج تو ابھی آپ پر واجب نہیں ہے اس نوخیز نے جواب دیا بے شک تمہارا کہنا درست ہے لیکن اے شیخ میں دیکھا کرتا ہوں کہ مجھ سے چھوٹے بچے بھی مرجاتے ہیں اس لیے حج کو ضروری سمجھتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے مرجاؤں۔ میں نے پوچھا اے صاحبزادے آپ نے کھانے کا کیا انتظام کیا ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے ساتھ کھانے کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے، انہوں نے جواب دیا اے شیخ کیا جب تم نے کسی کے یہاں مہمان جاتے ہو تو کھانا اپنے ہمراہ لے جاتے ہو؟ میں نے کہا نہیں پھر اس نے فرمایا سنو میں تو خدا کا مہمان ہو کر جارہا ہوں کھانے کا انتظام اس کے ذمہ ہے۔ میں نے کہا اتنے لمبے سفر کو پیدل کیوں کر طے کرو گے اس نے جواب دیا کہ میرا کام کوشش کرنا ہے اور خدا کا کام منزل مقصود پہنچانا ہے۔

ہم ابھی باہمی گفتگو ہی میں مصروف تھے کہ ناگاہ ایک خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہوئے آپہنچا اور اس نے اس نوخیز کو گلے سے لگا لیا، یہ دیکھ کر میں نے اس جوان رعنا سے دریافت کیا کہ یہ نوعمر فرزند کون ہے؟ اس نوجوان نے کہا کہ یہ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب ہیں، یہ سن کر میں اس جوان رعنا کے پاس سے امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور معذرت خواہی کے بعد ان سے پوچھا کہ یہ خوبصورت جوان جنہوں نے آپ کو گلے سے لگایا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں ان کا فرض ہے کہ روزانہ ہماری زیارت کے لئے آیا کریں اس کے بعد میں نے پھر سوال کیا اور کہا کہ آخر آپ اس طویل اور عظیم سفر کو بلا زاد اور راحلہ کیونکہ طے کریں گے تو آپ نے فرمایا کہ میں زادار راحلہ سب کچھ رکھتا ہوں اور وہ یہ چار چیزیں ہیں
1۔ دنیا اپنی تمام موجودات سمیت خدا کی مملکت ہے۔
2۔ ساری مخلوق اللہ کے بندے اور غلام ہیں۔
3۔ اسباب اور ارزاق خدا کے ہاتھ میں ہے۔
4۔ قضائے خدا ہرزمین میں نافذ ہے۔

علماء کا بیان ہے کہ آپ نے ساری عمر میں 52 حج پا پیادہ کئے ہیں۔ آپ نے سواری پر جب بھی سفر کیا ہے ، اپنے جانور کو ایک کوڑا بھی نہیں مارا۔ ملا مبین تحریرفرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال، صورت وکمال میں نہایت ہی ممتاز تھے، آپ کے چہرہ مبارک پر جب کسی کی نظر پڑتی تھی تو وہ آپ کا احترام کرنے اور آپ کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ محمد بن طلحہ شافعی رقم طراز ہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اور جب راستہ چلتے تھے تو نہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانو سے باہرنہیں جاتے تھے۔ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نماز شب سفر وحضر دونوں میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی اسے قضا نہیں ہونے دیتے تھے۔علامہ محمد باقر بحوالہ بحارالانوار تحریر فرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نماز میں مصروف ومشغول تھے کہ آپ کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام کنوئیں میں گرپڑے جس پر ان کی ماں بے چین ہوکر رونے لگیں اور کنویں کے گرد پیٹ پیٹ کر چکر لگانے لگیں اور کہنے لگیں، ابن رسول اللہ محمد باقر غرق ہوگئے۔ امام زین العابدین نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اور اطمینان سے نماز تمام فرمائی۔ اس کے بعد آپ کنویں کے قریب آئے اور ہاتھ بڑھا کر بلا رسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کو نکال لیا بچہ ہنستا ہوا برآمد ہوا، قدرت خداوندی دیکھیئے بچے کے کپڑے بھیگے تھے نہ بدن تر تھا۔

امام شبلنجی تحریر فرماتے ہیں کہ طاوس راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک شب حجر اسود کے قریب جاکر دیکھا کہ امام زین العابدین بارگاہ خالق میں سجدہ ریزی کر رہے ہیں، میں اسی جگہ کھڑا ہوگیا میں نے دیکھا کہ آپ نے ایک سجدہ کو بے حد طول دیدیا ہے یہ دیکھ کر میں نے کان لگایا تو سنا کہ آپ سجدہ میں فرماتے ہیں ”عبدک بفنائک مسکینک بفنائک سائلک بفنائک فقیرک بفنائک “ یہ سن کر میں نے بھی انہیں کلمات کے ذریعہ سے دعا مانگی فوراً قبول ہوئی ۔علماء اہلسنت کا بیان ہے کہ آپ شب و روز میں ایک ہزار رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے۔

منصب امامت پر فائز ہونے سے پہلے۔۔۔۔:اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ امام بطن مادر سے امامت کی تمام صلاحیتیوں سے بھرپور آتا ہے٬ تاہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ امام زمانہ کی حیثیت سے کام شروع کرے یعنی ایسا وقت آجائے جب کائنات ارضی پر کوئی بھی اس سے افضل واعلم برترواکمل نہ ہو، امام زین العابدین اگرچہ وقت ولادت ہی سے امام تھے لیکن فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری آپ پر اس وقت عائد ہوئی جب آپ کے والد ماجد حضرت امام حسین علیہ السلام 10 محرم 61ھ کو کربلا معلیٰ میں درجہ شہادت پر فائز ہو کر حیات ظاہری سے محروم ہوگئے۔ عاشور کی دوپہر کے بعد سے امامت کی ساری ذمہ داری آپ پرعائد ہوگئیں جو آپ نے انتہائی کمال سے سرانجام دیں۔

واقعہ کربلا کے سلسلہ میں امام زین العابدین کا شاندار کردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:28 رجب 60 ھ کو آپ حضرت امام حسینّ کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچے چار ماہ قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر2 محرم الحرام کو وارد کربلا ہوئے، وہاں پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اور آپ کی علالت نے اتنی شدت اختیار کی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت حاصل کرتے، تاہم فراہم موقع پر آپ نے جذبات نصرت کو بروئے کار لانے کی سعی کی جب کوئی آواز استغاثہ کان میں آئی آپ اٹھ بیٹھے اور میدان کار زار میں شدت مرض کے باوجود جا پہنچنے کی سعی بلیغ کی، امام کے استغاثہ پر تو آپ خیمہ سے بھی نکل آئے اور ایک چوب خیمہ لے کر میدان کا عزم کردیا، نگاہ امام حسینّ کی نظر آپ پر پڑگئی اور انہوں نے میدان جنگ سے ہی حضرت بی بی زینبّ کو آواز دی ”بہن سید سجاد کو روکو ورنہ نسل رسول اللہ کا خاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے بی بی پاک نے سید سجاد کو میدان میں جانے سے روک لیا یہی وجہ ہے کہ سیدوں کا وجود نظر آرہا ہے، اگر امام زین العابدین علیل ہوکر شہید ہونے سے نہ بچ جاتے تو نسل رسول صرف امام محمد باقر میں محدود رہ جاتی۔۔۔۔۔۔(جاری)
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112766 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More