امام زین العابدینّ،کربلاسے واقعہ حرہ تک ہوش رباء تاریخ اسلام -2

شہادت امام حسینّ کے بعد جب خیموں میں آگ لگائی گئی تو آپ انہی خیموں میں سے ایک خیمہ میں بدستور پڑے ہوئے تھے۔ حضرت بی بی زینبّ نے امام علیہ السلام کا تحفظ فرمایا۔11محرم کی صبح نمودار ہوئی تو دشمنوں نے امام زین العابدینّ کو اس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گئے۔ آپ سے کہا گیا کہ ناقوں پر سب کو سوار کرو اور ابن زیاد کے دربار میں چلو، سب کو سوار کرنے کے بعد آل محمدّ کا ساربان پھوپھیوں، بہنوں اور تمام مخدرات کو لئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اور بچے رسیوں میں بندھے ہوئے اور امام لوہے میں جکڑے ہوئے دربار میں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پر سنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپّ کے پیروں کو ناقہ کی پشت سے باندھ دیا گیا تھا۔ دربار کوفہ میں داخل ہونے کے بعد آپ اور مخدرات عصمت قید خانہ میں بند کردئیے گئے، سات روز کے بعد آپ سب کو لیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور 91 منزلیں طے کر کے تقریباً63 یوم میں وہاں پہنچے۔ کامل بھائی میں ہے کہ16 ربیع الاول61 ھ کوبدھ کے دن آپ دمشق پہنچے۔

حدود شام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اور گلے میں خاردار طوق آہنی پڑا ہوا تھا اس پر مستزاد یہ کہ لوگ آپ کوڑے برسا رہے تھے اسی لیے آپ نے بعد واقعہ کربلا ایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایا تھا۔ شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یا دنوں کے بعد آپ آل محمدّ کو لیےہوئے سرہائے شہدا سمیت داخل دربار ہوئے پھر قید خانہ میں بند کردئیے گئے تقریباً ایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔

قید خانہ بھی ایسا تھا کہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیر ہوگئی تھیں (لہوف) مدت قید کے بعد آپ سب کو لیے ہوئے 20 صفر 62 ھ کو کربلا وارد ہوئے آپ کے ہمراہ سر امام حسینّ بھی کردیا گیا تھا، آپ نے اسے اپنے پدر بزرگوار کے جسم مبارک سے ملحق کیا۔

8 ربیع الاول62 ھ کوآپ آل محمد کا لٹا ہوا قافلہ لے کر مدینہ منورہ پہنچے، وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اور کمال رنج وغم سے آپ کا استقبال کیا۔15 شبانہ و روز نوحہ وماتم ہوتا رہا ۔(تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل وسیر ملاحظہ کی جائیں۔

اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ اہل مدینہ یزید کی بیعت سے علیحدہ ہو کر باغی ہوگئے بالآخر واقعہ حرہ کی نوبت آگئی۔

حضرت امام زین العابدین کے دربار زیاد و یزید میں خطبات
کتاب لہوف ص86 میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعد امام زین العابدین نے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا، سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خدا کی حمدوثناء کی، اپنے جد امجد حضرت محمد کا ذکر کیا، ان پر صلوات بھیجی پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا اسے میں بتاتا ہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبّ ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹا گیا جس کے اہل وعیال قید کردئیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جو ساحل فرات پر پس گردن ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن چھوڑ دیا گیا۔ شہادت حسین ہمارے فخر کے لئے کافی ہے۔

اے لوگو! تمہارا برا ہو کہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کا سامان مہیا کرلیا، تمہاری راہیں کس قدر بری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول اللہ صلعم کو دیکھو گے جب محبوب خدا تم سے باز پرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کیا اور میرے اہل حرم کو ذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں“۔

جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت دربار یزید میں داخل کئے گئے اور ان کو منبر پر جانے کا موقع ملا تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور انبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا :اے لوگو! سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں پسر زمزم وصفا، فاطمہ زہرا اور محمد مصطفی صلعم کا فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جو کربلا میں شہید کیا گیا۔ میں اسکا پسر ہوں جس کے اہل حرم قید کردئے گئے میں اس کا فرزند ہوں جس کے بچے بغیر جرم وخطا ذبح کرڈالے گئے، میں اس کا بیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوک نیزہ پر بلند کر کے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان اہل حرم کے ہمراہ پھرایا گیا اور رسول زادیوں کو قید کر کے شام تک پھرایا گیا۔پھر امام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدا نے ہم کو پانچ فضیلت بخشی ہیں :
1۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھر میں فرشتوں کی آمدورفت رہی اور ہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔
2۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اور ہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔
3۔ شجاعت ہمارے ہی گھر کی کنیز ہے، ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اور فصاحت ہمارا ہی حصہ ہے، جب فصحاء فخرو مباہات کریں۔
4۔ ہم ہی صراط مستقیم اور ہدایت کا مرکز ہیں اور اس کے لیے علم کا سرچشمہ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہے اور دنیا کے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔
5۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اور زمینوں میں بلند ہیں، اگر ہم نہ ہوتے تو خدا دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا ، ہر فخر ہمارے فخر کے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روز قیامت) سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روز قیامت بدبختی میں ہوں گے۔

جب اہل شام نے امام زین العابدینّ کا کلام سنا تو چیخیں مار کر رونے وپیٹنے لگے اور ان کی آوازیں بے ساختہ بلند ہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزید گھبرا اٹھا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فوراً مؤذن کو حکم دیا کہ اذان شروع کر کے امام کے خطبہ کو منقطع کردے، مؤذن گلدستہ اذان پر گیا اور کہا”اللہ اکبر“ امام نے فرمایا تو نے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور ایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہار کیا اور جو کچھ کہا”حق“ ہے۔ پھر مؤذن نے کہا”اشہد ان لاالہ الااللہ “ امام نے فرمایا میں بھی اس مقصد کی ہر گواہ کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اور ہر انکار کرنے والے کے خلاف اقرار کرتا ہوں۔

پھر مؤذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ یہ سن کر حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور فرمایا اے یزید میں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرے نانا تھے یا تیرے، یزید نے کہا آپ کے، آپ نے فرمایا، پھر کیوں تو نے ان کے اہلبیت کو شہید کیا، یزید نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے محل میں یہ کہتا ہوا چلا گیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں، اس کے بعد منہال بن عمر کھڑے ہوگئے اور کہا فرزند رسول اللہ آپ کا کیا حال ہے، فرمایا اے منہال ایسے شخص کا کیا حال پوچھتے ہو جس کا باپ نہایت بے دردی سے شہید کردیا گیا ہو، جو اپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کو قیدی دیکھ رہا ہو، جن کا نہ پردہ رہ گیا نہ چادریں رہ گئیں، جن کا نہ کوئی مددگار ہے نہ حامی، تم تو دیکھ رہے ہو کہ میں مقید ہوں، ذلیل و رسوا کیا گیا ہوں، نہ کوئی میرا ناصر ہے، نہ مددگار، میں اور میرے اہل بیت لباس کہنہ میں ملبوس ہیں ہم پر نئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جو تم میرا حال پوچھتے ہو تو میں تمہارے سامنے موجود ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو، ہمارے دشمن ہمیں برا بھلا کہتے ہیں۔ پھر فرمایا عرب وعجم اس پر فخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے تھے اور قریش عرب پر اس لیے فخر کرتے ہیں کہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قریش میں سے تھے اور ہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کو قتل کیا گیا، ہم پر ظلم کیا گیا، ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اور ہم کو قید کر کے دربدر پھرایا گیا، گویا ہمارا حسب بہت گرا ہوا ہے اور ہماران سب بہت ذلیل ہے، گویا ہم عزت کی بلندیوں پر نہیں چڑھے اور بزرگوں کے فرش پر جلوہ افروز نہیں ہوئے۔ آج گویا تمام ملک یزید اور اس کے لشکر کا ہو گیا اور آل مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یزید کی ادنیٰ غلام ہوگئی ہے، یہ سننا تھا کہ ایک مرتبہ پھر ہر طرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلند ہوگئیں۔

یزید پھر خائف ہو گیا اور اس نے اس شخص سے کہا جس نے امام کو منبر پر تشریف لے جانے کے لئے کہا تھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرا برا ہو تو ان کو منبر بر بٹھا کر میری سلطنت ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس شخص نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ لڑکا اتنی بلند گفتگو کرے گا۔ یزید نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ یہ اہلبیت نبوت اور معدن رسالت کا ایک فرد ہے۔ یہ سن کر مؤذن سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا اے یزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تو یہ جانتا تھا تو تو نے ان کے پدر بزرگوار کو کیوں شہید کیا، مؤذن کی گفتگو سن کر یزید برہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اور مؤذن کی گردن مار دینے کا حکم دیدیا۔

اہل مدینہ سے خطبہ
مقتل ابی مخنف ص88 میں ہے کہ ایک سال تک قید خانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعد جب اہل بیت رسول اللہ کی رہائی ہوئی اور یہ قافلہ کربلا سے ہوتا ہوا مدینہ کی طرف چلا تو مدینہ کے قریب پہنچ کر امام علیہ السلام نے اہل مدینہ سے عہد ساز خطبہ ارشاد فرمایا:

حد اس خدا کی جو تمام دنیا کا پروردگار ہے، روز جزاء کا مالک ہے، تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جو اتنا دور ہے کہ بلند آسمان سے بھی بلند اور اتنا قریب ہے کہ سامنے موجود ہے اور ہماری باتوں کو سنتا ہے، ہم خدا کی تعریف کرتے ہیں اور اس کا شکر بجا لاتے ہیں عظیم حادثوں، زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں، شدید تکلیفوں اور قلب وجگر کو ہلا دینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت،

اے لوگو! تم سے کون مرد ہے جو شہادت حسین کے بعد خوش رہے یا کونسا دل ہے جو شہادت حسین سے غمگین نہ ہو یا کونسی آنکھ ہے جو آنسوؤں کو روک سکے، شہادت حسین پر ساتوں آسمان روئے، سمندر اور اس کی شاخیں روئیں، مچھلیاں اور سمندر کے گرداب روئے، ملائکہ مقربین اور تمام آسمان والے روئے۔ اے لوگو! کون سا قطب ہے جو شہادت حسین کی خبر سن کر نہ پھٹ جائے، کونسا قلب ہے جو محزون نہ ہو، کونسا کان ہے جو اس مصیبت کو سن کر جس سے دیوار اسلام میں رخنہ پڑا، بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدر ٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے۔ شہروں سے دور تھے، گویا ہم کو اولاد ترک و کابل سمجھ لیا گیا تھا حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیا تھا نہ کسی برائی کا ارتکاب کیا تھا نہ اسلام میں کوئی رخنہ ڈالا تھا اور نہ ان چیزوں کے خلاف کیا تھا جو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا تھا، خدا کی قسم اگر حضرت محمد بھی ان لوگوں لشکر یزید کوہم سے جنگ کرنے کے لئے منع کرتے تو یہ نہ مانتے جیسا کہ حضرت محمد نے ہماری وصیت کا اعلان کیا اور ان لوگوں نے نہ مانا بلکہ جتنا انہوں نے کیا ہے اس سے زیادہ سلوک کرتے، ہم خدا کے لئے ہیں اور خدا کی طرف ہماری بازگشت ہے“۔

روضہ رسول پرامام علیہ السلام کی فریاد
مقتل ابی مخنف ص341 میں ہے کہ جب یہ لٹا ہوا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو حضرت ام کلثوم گریہ وبکا کرتی ہوئی مسجد نبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے نانا آپ پر میرا سلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپ کو آپ کے فرزند حسین کی خبر شہادت سناتی ہوں، یہ کہنا تھا کہ قبر رسول سے گریہ کی صدا بلند ہوئی اور تمام لوگ رونے لگے پھر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نانا کی قبر مبارک پر تشریف لائے اور اپنے رخسار قبر مطہر سے رگڑتے ہوئے یوں فریاد کرنے لگے :
اناجیک یاجداہ یاخیرمرسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اناجیک محزوناعلیک موجلا
سبیناکماتسبی الاماءومسنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حبیبک مقتول ونسلک ضائع
اسیرا ومالی حامیا ومدافع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من الضرمالاتحملہ الاصابع

ترجمہ: میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر، آپ کا محبوب نواسہ ”حسینّ“ شہید کردیا گیا اور آپ کی نسل تباہ وبرباد کردی گئی، اے نانا میں رنج وغم کا مارا آپ سے فریاد کرتا ہوں مجھے قید کیا گیا میرا کوئی حامی ومددگار نہ تھا اے نانا ہم سب کو اس طرح قید کیا گیا، جس طرح لاوارث کنیزوں کو قید کیا جاتا ہے، اے نانا ہم پر اتنے مصائب ڈھائے گئے جو انگلیوں پر گنے نہیں جا سکتے۔

امام زین العابدین اور محمد حنفیہ کے درمیان حجر اسود کا فیصلہ
آل محمد کے مدینہ پہنچنے کے بعد امام زین العابدین کے چچا محمد حنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اور امامت کا اہل وحقدارہوں آپ نے فرمایا کہ حجر اسود کے پاس چلو وہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تو وہ بحکم خدا یوں بولا ”امامت زین العابدین کا حق ہے“ اس فیصلہ کو دونوں نے تسلیم کرلیا۔ کامل مبرد میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے محمد حنفیہ، امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابو خالد کابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ حجر اسود نے خلافت کا ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ امام زمانہ ہیں۔۔۔۔۔۔(جاری)
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112781 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More