ابلیس کا انکار

نظریہ ارتقاء کی رو سے استحکام و عروج اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ متصادم و متحارب قوتوں سے نبرد آزما ہوا جائے۔ ابلیس کے برعکس میں اس وقت الله کا برگزیدہ بندہ بنا جب اول اول میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ابلیس ہمارا راہنما اور دوست ہے۔ ہماری متحرک زندگی ابلیس ہی کی مرہون منت ہے۔ ہماری شعوری زندگی اس وقت شروع ہوئی جب پہلی مرتبہ ابلیس سے تصادم ہوا جس کی ترغیبات سے نہ صرف یہ کہ زندگی کا مقصد واضح ہوا بلکہ اس نے سوچنے اور غوروفکر کرنے پر بھی مجبور کیا۔پھر کائنات میں پھیلی ہوئی انواع واقسام کو اپنے تصرف میں لانے اور ابدی اور لازوال سلطنت حاصل کرنے کے لئے جذبات و خواہشات میں تحریک پیدا کی جس سے تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور پھر زمانوں کے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ہم ذہنی و شعوری عروج کو پہنچے۔

یہ آگ ہی ہے جو مٹی کو پختہ کرتی ہے پھر ایک نئی اور مضبوط شکل میں لے آتی ہے۔ آگ ہی نے اولین تاریکیوں میں روشنی کی اور ثقیل غذا کو اس قابل کیا کہ وہ آسانی سے کھائی جا سکے۔ آگ اولین دن سے ہی انسان کی مدد و راہنمائی کرتی آئی ہے۔

ابلیس نے انکار اس لئے کیا کیونکہ اسے مطلوبہ شہرت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے وہ مشتعل ہو گیا اور لاتعداد امراض کا شکار ہوا۔ ابلیس کا انکار الله کی حکم عدولی نہیں تھی بلکہ الله کی منشا کے عین مطابق تھا۔ یہ انکار تو ہونا ہی تھا ورنہ جس مقصد کے لئے انسان کو بنایا جارہا تھا وہ مقصد حاصل نہ ہوتا اور انسان کبھی انسان نہ بنتا۔ ابلیس نے اپنی بڑائی تکبر یا حسد کی وجہ سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ انسان کی رہنمائی اور اسے کامل انسان بنانے میں مدد دینے کے لئے ایسا کیا تھا اور اس لئے بھی کہ خود انسان کا عروج و استحکام ہو سکے اس طرح نہ ہی عقل و شعور ترقی کرتے اور نہ ہی جذبات و احساسات میں شدت پیدا ہوتی انسان کو اس حقیقت کا بھی علم نہ ہوتا کہ وہ اختیار و ارادے کا مالک ہے جس سمت چاہے جاسکتا ہے جس طرح چاہے قوانین فطرت کو تاڑ سکتا ہے فطرت کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے چاہے تو ابلیس کا فرماں بردار غلام بن جائے چاہے تو الله کا فرماں بردار غلام بن جائے یہ صلاحیت یا نعمت کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں۔

ابلیس کے انکار نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ہمارے اعتراف نے ہمیں برگزیدہ کیا۔ اگر ہم سے غلطی نہ ہوتی تو اعتراف بھی نہ ہوتا یہ غلطی ہوئی کس طرح ابلیس کے انکار کے بعد اس کی ترغیبات سے گویا ہمیں برگزیدہ کرنے میں ابلیس کی کوششوں کا بھی دخل ہے۔ ابلیس نے تو ہمیں سجدہ نہیں کیا ہاں البتہ ہم ضرور اس کے خوف سے اسے سجدہ کئے ہوئے ہیں۔ کس قدر تباہی و بربادیاں صرف اس وجہ سے ہیں کہ اپنی غلطی کا احساس ہو جانے کے بعد بھی انسان اس کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ ضد سرکشی اور نفس کی جھوٹی عزت کے خیال سےاس پر ڈٹا رہتا ہے۔ انسان بے پناہ قوتوں کا مالک ہے لیکن یہ قوتیں ابلیس کے کنٹرول میں ہیں اس لئے انسان کی بیشتر زندگی ابلیس کی راہنمائی میں گزرتی ہے۔ ہم اپنے ذہن کو غیرصحت مند سوچوں اور تلخیوں بھرے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے تمام تر داخلی و خارجی تباہ کاریاں ہمارا مقدر بنتی ہیں۔ غصہ حسد اور کینہ ایسے مرض ہماری ذات کی نشونما کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ غیر قدرتی ذہنی رحجان ذہنی قوتوں کو بیکار کر دیتا ہے۔ ابلیس اگر حسد نفرت لالچ اور تکبر ایسے احساسات پیدا نہ کرتا تو محبت کیونکر جنم لیتی ہم دوسروں کے دکھ درد کو کس طرح محسوس کرتے ہمدردی اور خلوص ایسے جذبات بھی پیدا نہ ہوتے۔ اگر عقل بے باک نہ ہوتی جذبات سرکش نہ ہوتے تو فتنہ و فساد بھی نہ ہوتا تو سوچئے انسانی جذبات میں یا انا یا خودی کا کیا ہوتا یقیناً وہ فنا ہو جاتی بلکہ مشہود ہی نہ ہوتی پر نہ نبیوں کا ظہور ہوتا نہ ہدایتیں ملتیں اور نہ ہی ہم زندگی کے مقصد کا تعین کر سکتے۔ اسی تصادم و کشمکش کے باعث ہمیں علم حاصل ہوتا گیا علم ہی کے باعث انسان کو تمام قوتوں پر فوقیت حاصل ہوتی گئی اور انسان اس قابل ہوا کہ کائنات کو مسخر کیا جا سکے۔ دنیا کا سب سے پہلا دانشور بھی ابلیس تھا اور سب سے پہلا مذہبی پیشوا بھی ابلیس تھا جس نے پہلا مذہب تخلیق کیا پھر آگے آنے والی نسلوں نے کئی مذاہب بنا ڈالے جس نے بے شمار قوموں نے جنم لیا ۔ ان قوموں نے فرقوں رنگوں اور نسلوں ایسی بے شمار اصطلاحات کی مدد سے انسانوں کی وحدت کو ختم کر کے انہیں تقسیم کر ڈالا۔ ابلیس کا کمال یہ بھی ہے کہ اس نے انسان سے زیادہ تیز رفتاری سے ارتقائی منزلیں طے کیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج انسان ابلیس کے آگے سرنگوں ہے اس کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا ہے انسان کے جذبات پر اسی کی حکومت ہے۔

ہمیں ابلیس کا مشکور ہونا چاہئے کہ وہ ہمیں خود کو سمجھنے میں نہ صرف ہماری رہنمائی کرتا ہے بلکہ حقیقی زندگی کی طرف دھکیل بھی رہا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا۔ یہ حقیقت بھی ابلیس بتائی کہ شر کہیں نہیں ہے ہر طرف خیر ہی خیر ہے شر تو دراصل ہماری لامحدود خواہشات کا نتیجہ ہے۔

ابلیس اپنی ضد حسد سرکشی جھوٹ فریب گھمنڈ لالچ ریاکاری ہٹ دھرمی اور احساس کمتری قسم کی لاتعداد خود ساختہ امراض کا شکار ہے ۔ لیکن اس غریب کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ان خود ساختہ امراض کا علاج نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس انسان میں ہی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ان خود ساختہ امراض کا علاج کر سکتا ہے۔ بالفرض محال ابلیس اپنی ان تمام بیماریوں پر قابو پا لیتا ہے تو پھر وہ ابلیس کہاں رہے گا سیدھا سیدھا انسان ہی تو بن جائے گا۔ ابلیس وہ قوت ہے جسے سجدہ کرائے بغیر ہم اپنا آپ نہیں پہچان سکتے یوں ہم اپنے اعلیٰ و ارفع مقاصد کو بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔

ضمیر خفتہ کو بیدار کرنے کے لئے ہماری غلطیاں ایک قسم کی ندائے غیب ہیں جو ہمیں ہمیشہ کے لئے ہوشیار کر دیتی ہیں تعلیم صحبت تلقین کسی کا بھی ہمارے اوپر وہ اثر نہیں پڑتا جو اپنی غلطیوں کے برے نتائج سے پڑتا ہے ۔ منشی پریم چند۔ بازار حسن۔ اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ الله نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچ تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں۔ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو ۔اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری داد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے برالذمہ ہوں۔ ایسے ظالموں کے لئے تو درد ناک سزا یقینی ہے۔ سورہ ابراہیم۔
Naeem Meer
About the Author: Naeem Meer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.