عصر ِ حاضر میں فرعون و کلیم کا معرکہ

ڈاکٹر محمد مورسی اور ان کے ساتھ ۱۰۰ سے زیادہ افراد کو ایک نام نہادعدالت کے ذریعہ سزائے موت سنوا کر مصر کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی نے اپنے آپ کو پھر ایک بار فرعونِ وقت ثابت کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک اور عدالت نے انہیں اپنے صدارتی محل کے باہر مظاہرین کی گرفتاری اور ان کی ایذارسانی کیلئے ۲۰ سال کی سزا سنائی تھی۔ اب ایک اورعدالت نے انہیں جیل سے فرار ہونے کا الزام میں موت کی سزا سنائی جبکہ سابق مصری چیف آف اسٹاف بریگیڈیر سمیع عنان نے صدر مورسی کو اس بابت بے خطا قرار دیا تھا لیکن اس بار وہ شہادت بھی بے سود رہی۔ صدر مورسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو جیل نکلنا تو موجوع بحث ہےمگران لوگوں کوجیل میں کیوں بھیجا گیا تھا اس پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ سابق فوجی آمر حسنی مبارک نےاپنا اقتدار بچانے کیلئے ہزاروں مصریوں کو بلاجواز جیل کی سلاخوں کے پیچھےٹھونس دیا تھا ۔ ان میں اخوان کے دیگر رہنماوں کے ساتھ صدر مورسی بھی تھے۔ حسنی مبارک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عبدالفتاح السیسی نے بھی ۴۱ ہزار بے قصور لوگوں کو جیل میں قید کررکھا ہے۔ حسنی مبارک نےتحریر چوک کے مظاہروں کے دوران اور قبل نہ جانے کتنےمظاہرین کو شہید کروادیا لیکن اس ظالم کو تومصری عدالت محض ۳ سال کی سزا سنائی جبکہ مورسی اور ان کے ساتھیوںکو سزائے موت کا مستحق قرار دیا جوعدالتی جانبداری کے جبر وقہر کا شاخسانہ ہے۔

صدر محمد مورسی کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں بجا طور پر بہت کچھ لکھا گیا مگر جن دیگرافراد کو سزا موت سنائی گئی ان کی تفصیل بھی عدل و انصاف کا پھانسی چڑھاتی ہے۔ مثلاً صنم عاصم جو سب سے کم عمر ملزمہ ہے۔ وہ اس لئے قابلِ گردن زدنی ٹھہریں کہ آزادی و انصاف پارٹی کی ترجمان تھیں اور ویب سائٹ کا نظم کرتی تھیں۔ انہوں انقلابی تحریک میں شاملی نوجوانوں کی مثالی حوصلہ افزائی کی اور یہیان کے تختۂ دار تکپہنچنے کا سبب بنا۔ اس فہرست میں عماد شاہین کا نام بھی ہے جو قاہرہ میں واقع امریکی یونیورسٹی اور جارج ٹاون یونیورسٹی میں درس و تدریس کا کام کرتے ہیں ۔وہ عالمی شہرت یافتہ دانشور ہیں اور ان کے سیاسی افکار کو ساری دنیا میں قدردانی کی جاتی ہے۔بظاہر تو ان پر جاسوسی کا الزام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم گاہوں کے میں حریت کے جذبے کو کچلنے کیلئے انہیں سزائے موت دی گئی ہے۔ عالم اسلام کے معزز ترین علماء میں سے ایک علامہ یوسف القرضاوی کا نامِ نامی بھی مذموم عدالتی فیصلے میں شامل ہے جبکہ وہ عرصۂ دراز سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان پر اگر کوئی الزام ہو سکتا ہے تو وہ انقلاب کے بعد تحریر چوک پر تاریخی خطبہ ارشاد فرمانے کا ہے۔ صدر مورسی کو جیل چھڑانے کے الزام میں کئی فلسطینیوں کو بھی سزا سنائی گئی ہے جن میں سے تین کا انتقال اس واقعہ سے قبل ہو چکا ہے۔ یہ فاش غلطی اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کی یہ فہرست احمق یہودیوں کی مرتب کردہ ہے جویہ نہ نہیں جانتے کہ ان کے مطلوبہ افراد میں کون زندہ ہے اور کون اس دارِ فانی سے کوچ کرچکاہے ۔
اس بہیمانہ فیصلے کی مذمتّ ساری دنیا کے انصاف پسندوں نے کی۔ یوروپی یونین اور امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی خاموش نہیں رہ سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ مصری حکمرانوں نے اسے حق بجانب ٹھہرانے اور عوام کوگمراہ کرنے کی خاطر صحرائے سینا میں تین ججوں پر حملہ کرکے انہیں ہلاک کروادیا۔ ایک اور شخص بھی ہلاک ہوا ممکن ہے وہی حملہ آور ہو مزیدتین جج زخمی ہو گئے۔ اس حملے کا الزام اسلام پسندوں پر دھر دیا گیا اور اسے قاہرہ کے فیصلے سے کچھ اس طرح جوڑ دیا گیا کہ غایت نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے گویا جس عدالت نے محمد مورسی اور ان کے ساتھیوں کو سزا سنائی انہیں پر گولی چلی جبکہ حقیقت سے اس کا دور کابھی واسطہ نہیں ہے ۔یہ ابہام اس قیاس آرائی کو جنم دیتاہےجس کی مدد سے زر خرید ذرائع ابلاغ رائی کا پہاڑ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل قاہرہ کے ایک جج معتاذ خفگی کے گھر کے باہر بم دھماکہ ہوا جس نے جنوری میں ۱۲ اخوانی رہنماوں کو موت کی سزا سنائی تھی ۔ اس حملے میں کسی کا بال بیکا نہیں ہوا لیکن اخوان کے خلاف نفرت کاماحول ضرور بن گیا ۔ وزارت ِ داخلہ نےقاہرہ کے مضافات میں ایک پولس والے کے ہلاک ہونے کی خبر بھی دی جسے موٹر سائیکل پر سوار بندوق برداروں نے ہلاک کردیا ۔ اس واقعہ کو بھی بلاواسطہ اخوان سے جوڑ دیا گیا جبکہ اخوان اول روز سےہر طرح کے تشدد کی مذمت ّ کرتی آرہی ہے لیکن ہر بار اسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد مصر ی حکام نے ۶ افراد کو فوجیوں کا قتل کرنے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکا دیا ۔ان افراد پر جولائی ؁۲۰۱۳میں ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سکیورٹی فورسز پر حملوں کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا تھا ۔ مصر کی ایک فوجی عدالت نے ان کی پھانسی کی سزا بحال رکھتے ہوئےمعافی کی اپیل مسترد کردی تھی۔ان لوگوں کا تعلق شورش زدہ جزیرہ نما سیناء میں برسر پیکار جنگجو گروپ انصار بیت المقدس سے بتایا گیا ۔انہیںداعش سے بھی انہیں وابستہ کردیا گیا ۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس لئے ان میں سے دو مدعا علیہان تو مذکورہ واقعے کے رونما ہونے سے قبل ہی زیر حراست تھے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان افراد کے خلاف بالکل غیر منصفانہ انداز میں مقدمہ چلایا گیا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے کیونکہ اس مقدمہ کا واحد گواہ خفیہ پولیس کا ایک افسر تھا۔اخوان کے قائد سید قطب شہیدکو ؁۱۹۶۶ میں اسی قسم کے بے بنیاد الزامات میں پھانسی کی سزا دی گئی ۔ان پر بھی مصر کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔مصر کا موجودہ سیاسی ماحول بھی ؁۱۹۶۰ کے عشرے جیسا ہی ہے لیکن یہ سیکولر حضرات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپنی تما تر سفاکی و بربریت کے باوجود وہ اسلامی تحریک کو نہ ماضی میں ختم کرسکے ہیں اور نہ مستقبل میں کرسکیں گے۔
مصری حکمرانوں کی جانب سےفلسطینی نام نہاد تنظیم انصار بیت المقدس کے نام کو اچھالنا اور فلسطینیوں کو سزائے موت سنانا دراصل مصری عوام کے دلوں میں فلسطینیوں کے خلاف بغض و نفرت کے جذبات پیدا کرکے انہیں اسرائیل نواز بنانے کی سازش کا حصہ ہے تاکہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کی جاسکے ۔مصر ی حکمرانوں نے اپنے آپ پر یہ مجبوری ؁۱۹۷۰ کے اندر عائد کرلی جب جمال عبدالناصر اسرائیل سے شکست کے بعد امریکہ کی جانب سےعرب اسرائیل تنازع کے حل کی خاطر تجویز کردہ راجر س پلان میں شامل ہو گئے۔ عرصۂ دراز تک چونکہ وہ فلسطینی حقوق کے سب سے بڑے محافظ سمجھے جاتے تھے اس لئے قاہرہ میں زیر تعلیم فلسطینی طلباء نے ۔ ان کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ۔ اس کے جواب میں جمال عبدالناصر نے راتوں رات تما م طلباء کو گرفتار کرکے اردن روانہ کردیا ۔ اس کے بعد انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ میں امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مصالحت کرلی اور ان کے مفادات کے محافظ بن گئے ۔ حسنی مبارک نے اس کام کو آگے بڑھایا اور امریکہ کی معاشی و فوجی امداد کے عوض اسرائیل کو کم نرخ پر گیس فراہم کرنے لگے ۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ مصری گیس خود ان کی عوام کو دوگنی قیمت پر میسر آتی ہے جبکہ اسرائیلی حکومت کو نصف قیمت پر مہیا کی جاتی ہے۔ عبدالفتاح السیسی نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی اورزیر زمین سرنگوں کوتباہ کرنے کا کام تیز کردیا ۔ یہ تمام لوگ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیا ں ہیں جن میں استثناء واحد منتخبہ صدر ڈاکٹر محمد مورسی تھے جنہوں نے فلسطین کی کھل کر حمایت کی اور اسی لئے جمہوریت نواز امریکہ نے غیر جمہوری طریقہ سے ایک سازش کے تحت ان کا تختہ الٹ دیا۔

مصر کے اندر رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور قصہ فرعون کلیم ؑ میں غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ سورہ اعراف میں ارشاد ربانی ہے’’موسیٰؑ نے کہا : اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں۔ میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔حضرت موسیٰ ؑ کی اس دعوت کو سن کر ’’فرعون نے کہا :اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر۔ موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا‘‘۔ جس طرح فرعون اور اس کے درباری موسیٰؑ کے معجزات کو دیکھ کر ششدر رہ گئے تھے یہی حال تحریر چوک پر ہونے والے مظاہرے کو دیکھ کر حکمراں فوجی ٹولے کا تھا۔ ان لوگوں نے سوچا کہ حسنی مبارک سے نجات حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے جو اپنے بیٹے کو صدارت کی کرسی پر براجمان کرنے کیلئےبے چین ہے۔ فوج نے مظاہرین کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کی راہ اختیار کی۔ انہیں یقین تھا کہ انقلاب کے بعد وہ انتخاب کے جادو سے پھر ایک بار عوام کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیں گے اور ایک نیا فوجی آمر اقتدار سنبھال لے گا۔
حضرت موسیؑ کے معجزات کو دیکھ کر فرعون کے درباریوں نے ان سے ٹکراؤ کے بجائے انہیں جادوگروں کی مدد سے زیر کرنے منصوبہ بنایا لیکن دلچسپ بات یہ ہے عصر حاضر کے فرعونیوں کی مانند انہیں بھی زمین سے بے دخل ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا جس کا بیان کچھ اس طرح ہے کہ’’ ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ :یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے۔ تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے۔کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے اُنہوں نے :اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟فرعون نے جواب دیا :ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے‘‘۔ اس طرح گویا پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوگیا۔
مصر میں کئی نئے پرانے جادوگر تھے جو اپنی سیکولر سیاسی ڈگڈگی بجایا کرتے تھے اور سبھی کویہی توقع تھی کہ وہ کامیاب ہوں گے فوج کو یقین تھا کہ یہ اپنے مفادات کی خاطرہمارےباجگذاربن جائیں گے لیکن ہوا کہ خلاف توقع اسلام پسندوں کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی اور جادوگروں سمیت ان کے آقا بھی ناکام نامراد ہوگئے۔ ان کی حالت ان جادوگروں سے مختلف نہیں تھی جن کا بیان قرآن کریم میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے فرمایا’’ پھر اُنہوں نے(جادوگروں) موسیٰؑ سے کہا :تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟موسیٰؑ نے جواب دیا :تم ہی پھینکو۔ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے۔ ہم نے موسیٰؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔ اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ اُنہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) الٹے ذلیل ہو گئے‘‘۔ یہ گویا فوجی حکمرانوں اور ان کے حاری حواری سیاسی جماعتوں کے انتخابی حکمت عملی کی فاش ناکامی تھی۔

عوام کا حال جادوگروں جیسا تھا جنہوں نے لادینیت اور الحاد کے بجائے اسلام کو پسند کرلیا تھا اور اسلام پسندوں کو کامیابی و کامرانی سے نوازہ تھا ۔ قرآن مجید میں جادوگروں کا رویہ ملاحظہ فرمائیں’’ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے :ہم نے مان لیا رب العالمین کو۔ اُس رب کو جسے موسیٰؑ اور ہارونؑ مانتے ہیں‘‘۔ انتخاب کا اعلان تو خود فوجی اقتدار نے کیا تھا لیکن نہ تو انہوں نے پارلیمانی انتخاب کے نتائج کو دل سے قبول کرکے ایوانِ پارلیمان کو آزادانہ طور پردستور سازی کی اجازت دی اور نہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونے والے مصر کے اولین غیر فوجی صدر ڈاکٹرمحمد مورسی کو یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا ۔وہ عوام سے اس لئے بددل ہو گئے تھے ان لوگوں فوج کی مرضی کا خیال کیوں نہیں کیا ۔ سابق جنرل اشفاق کو کیوں شکست سے دوچار کردیا ؟ یہ رویہ بھی فرعونیوں سے بہت مشابہ تھا’’فرعون نے کہا :تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقیناً یہ کوئی خفیہ ساز ش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو اچھا توا س کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا‘‘۔

متکالمین نامی عربی چینل پر حال میں مصر کی سب سے پرانی وفد پارٹی کے رہنما بداوی اور ایک فوجی سربراہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نشر کیا گیا۔ یہ گفتگو صدر مورسی کے انتخاب سے پہلے کی ہے جب بداوی اخوان اور نور پارٹی کی مدد سے صدارتی انتخاب لڑنا چاہتے تھے ۔ ان کے اس ارادے پر ایک فوجی نے بالکل فرعون کے لب ولہجے کہا تھا آنے والے وقت اخوان کیلئے بہت برا ہوگا۔ اسلحہ بردار سرکاری غنڈے ان کے گھروں میں گھس کر ان کو ذبح کریں گے۔ جو بھی مزاحمت کرے گا اسے اس کے بستر پر قتل کردیا جائیگا۔ دہشت گردی مصر میں عام ہو جائیگی۔ ہم اخوان سے اور ان تمام لوگوں سے انتقام لیں گے جن لوگوں نے حکومت کا تختہ الٹنے میں حصہ لیا ہے۔ فی الحال وفد پارٹی کو فوج نے اپنا لیا ہے۔
صدر مورسی کے اقتدار سنبھال لینے کے بعد فوج اور عدلیہ آئے دن کے خلاف نت نئے مسائل پیدا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک سازش کے تحت انہیںمعزول کردیا گیا اور جب اس فوجی بغاوت کے خلاف اسلام پسندوں نے صدائےاحتجاج بلند کی تو فوجی حکمرانوں نے ان پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ۔ اس کے باوجود رابعہ میدان میں عہد ِ حاضر کے مجاہدین نے ایمان لانے والے جادوگروں کے صبر واستقامت کی یاد تازہ کردی۔ فرعونیوں کے دھونس دھمکی کے جواب میں جادوگروں نے کہا تھا’’بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا اے رب، ہم پر صبر کافیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں‘‘۔

طاقت اور قوت کے بل بوتے پر اسلام پسندوں کی پرامن عوامی مزاحمت کو وقتی طور پر کچل دیا گیا لیکن عصر حاضر کے فرعون صفت حکمراں اس پر قانع نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اورعدالت کی آڑ میں ان کو سخت ترین سزائیں کا دینے کا سلسلہ شروع کیاگیا۔ زمین کو ظلم وفساد سے بھر دینے والے ان فوجی آمروں کی دلیل بھی فرعونیوں سے مختلف نہیں ہے جس کو کلام الٰہی میں اس طرح رقم کیا گیا ہے کہ ’’فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا :کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟ فرعون نے جواب دیا :میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ۔ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔ آج مصر میں وہی منظر دوہرایا جارہا ہے جس کا ارادہ فرعون نے کسی زمانے میں کیا تھا لیکن اہل اسلام اس جبر استبداد کے باوجود مایوس نہیں ہیں ۔ ان کی لبوں پر آج بھی وہی کلمہ ہے جو کسی زمانے میں حضرت موسیٰ ؑ کی زبان پر تھا ۔ اس موقع پر’’ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا :اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔

امت کے اندر آج بھی ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو سارے ظلم و فساد کا الزام الٹا اخوان پر ڈالتے ہیں ۔ بنی اسرائیل کا بھی اس وقت یہی رویہ تھا کہ ’’اس کی قوم کے لوگوں نے کہا :تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔ لیکن ان نادانوں سے ناراض ہونے کے بجائے وقت کا نبی ان کو جواب دیتا ہے ’’ قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ ۷۰ کی دہائی میں جمال عبدالناصر اور انورسادات اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے اسلام کے چراغ کو گل کردیا ہے لیکن ؁۲۰۱۲ میں دنیا نے دیکھا کہ اسلام کا پرچم لہرا رہاہےاوران دونوں کی لعنت ملامت ہو رہی ہے ۔ فی الحال حسنی مبارک اورعبدالفتاح السیسی بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے اسلام کا علم سرنگوں کردیا ہے لیکن یہ پرچم ِاسلام تو حضرت موسیٰ ؑ کی زمانے میں بھی لہرا رہا تھا اور قیامت تک یونہی لہراتا رہے گا۔ اس لئے کہوَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا (بلندو عزیز تو اللہ کا کلمہ ہے: سورہ توبہ)۔
(اس مضمون میں قوسین کے اندرسورہ اعراف کی آیات ۱۰۴ تا ۱۲۹ کا ترجمہ قرآنی ترتیب میں درج ہیں)
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1227540 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.