ہارون الرشید کا گھر دہشت گردی کا مرکز! ترجمان افواج پاکستان

الحمداللہ گزشتہ روز باجوڑ میں فوج نے مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور ایک ایسا علاقہ جس میں ملک بھر سے غیر قانونی کام کرنے والے جا کر پناہ لیا کرتے تھے کہ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی جانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے وہاں پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ قومی پرچم لہرایا گیا اور علاقائی لوگوں نے پاک فوج کی کامیابی پر جشن منایا۔ اس موقع پر وہ لوگ بڑے یاد آئے جو پوری قوم کو یہ باور کرانے میں لگے رہتے تھے کہ ایسے علاقوں میں افواج کو بھیجنا گویا موت کے منہ میں بھیجنا ہے اور وہ ایسا اور ویسا علاقہ ہے جو ہزار بارہ سو سال سے کسی کے زیر اثر نہیں آسکا اور وہاں فوج کشی کرنے والے ہمیشہ ناکام ہوئے وغیرہ وغیرہ۔ مگر الحمداللہ افواج پاکستان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ پاکستان کے خارجی محازوں پر چوکنا رہنے کے ساتھ ساتھ اندرونی محاز پر بھی پاک افواج نے زبردست کامیابی حاصل کی اور ووٹوں کی خاطر شدت پسندوں کی حمایت کرنے والے (جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر صاحب اور عمران خان کی پارٹی کے ایک امیدوار ) ووٹوں کے میدان یعنی راولپنڈی کے این اے ٥٥ میں ضمانتیں بھی ضبط کروا بیٹھے۔ اور شیخ رشید احمد بلاشبہ ہار ہی گئے مگر گزشتہ انتخابات میں ١٥ ہزار ووٹ اس اس مرتبہ بیالیس ہزار ووٹ لینے کا کیا مطلب ہے اور جیتنے والے ن لیگ کے شکیل صاحب باسٹھ ہزار ووٹ لے سکے جبکہ گزشتہ ن لیگ کے جیتنے والے ستر ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہوئے تھے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سے لوگ اس شدت سے نالاں اور بیزار ہیں کہ ان کے جلسوں میں دس پندرہ ہزار تعداد میں آنے کے باوجود ان کو ووٹ چھ ساتھ ہزار اور ساڑھے تین ہزار ہی پڑ سکے یعنی لوگ جماعت اور عمران خان کی سیاست سے بیزار اور دور ہیں۔

افواج پاکستان نے اورکزئی ایجنسی میں بھی آپریشن شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور جب پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے تو انشا اللہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی کمین گاہیں آہستہ آہستہ شدت پسندوں ہی کے لیے قبرستان بنتی جائیں گیں۔

میجر جنرل طارق خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل اطہر عباس کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید (غالبا جماعت اسلامی کے مشہور و معروف رہنما ) کا گھر دہشت گردی کا مرکز تھا اسلئے اسے تباہ کردیا گیا۔ ان کا (ہارون الرشید) گھر دہشت گردی کا مرکز تھا اسلئے اسے تباہ کردیا گیا۔ ان کے (ہارون الرشید) وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں تاہم وہ اشتہاری ہیں۔ اطہر عباس نے کہا کہ باجوڑ طالبان دہشت گردوں کا اہم مرکز تھا۔

پاک فوج کی طرف سے آزاد میڈیا کی موجودگی میں (نا کہ جناح پور کے ڈرامے کے وقت جب صرف ایک ہی پی ٹی وی اور وہ بھی سرکاری تحویل میں تھا ) اس قسم کی واضع حقیقت کا اعلان بذات خود ایک بہت بڑا دھماکہ ہے۔

جواب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے پارٹی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہارون الرشید دہشتگرد ہیں اور نہ ہی دہشتگردوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے۔ صاحبزادہ ہارون الرشید کو ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن کی مخالفت کی سزا دی گئی ہے۔ ان کے گھر سے ایک کارتوس تک نہیں ملا اس کے باوجود ان کے گھر کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا ( جس میں ان کی بوڑھی والدہ، بھتیجی اور رشتہ دار بچہ بھی انتقال کرگئے اللہ مرحومین کی مغفرت و بخشش فرمائے آمین )

منور حسن صاحب کا پاک فوج کے ترجمان کے بیان کو مسترد کرنا اور یہ کہنا کہ ہارون رشید کو فوجی آپریشن کی مخالفت کی سزا دی گئی سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ کیا ہارون رشید محب وطن ہیں یا پاک افواج۔ اور یہ کہ کیا عدلیہ کے دروازے عدلیہ کو آزاد کرانے والوں کے لیے کھلے نہیں ہیں کہ وہ عدالت میں جائی اور ہارون الرشید پر ہونے والے ظلم و ستم اور ان پر الزام تراشی کرنے والی افواج پاکستان کو کٹھرے میں لے آئیں۔

حقیقت کچھ ایسی ہے کہ کچھ ہمارے بھائیوں کو بڑی بری لگے گی مگر پے در پے شدت پسند طالبان ظالمان کے بڑے بڑے دہشت گرد جماعت اسلامی کے مرد و خواتین عہدے داران کے گھروں سے گرفتار ہوتے چلے آرہے ہیں اور سری لنکن ٹیم پر حملے میں گرفتار ہونے والوں کا اعترافی بیان بھی شاہد ہے جس میں ملزمان نے کہا تھا کہ انہیں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد منصورہ میں پناہ دی گئی تھی یعنی چھپایا گیا تھا۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 498960 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.