چینیوٹ میں پولیس کا ملزمان کو برہنہ کر کے تشدد - خادم پنجاب زندہ باد

چینیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے ماڈل پولیس اسٹیشن (غور کیجیے گا ماڈل پولیس اسٹیشن کا یہ حال ہے تو عام پولیس اسٹیشنز کا کیا ہوگا) میں مقدمات میں ملوث ملزمان ریاض، واجد کمہار، زیشان لوہار، شریف کمیار، عابد، ظفر عرف بھٹو، غلام فرید اور محمد اقبال کو تھانے کے سامنے واقع میدان میں سر عام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

حد تو یہ ہوئی کہ تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر ان مناظر کو اس غیرت مند قوم نے دیکھا کہ کس طرح ملزمان (مجرمان نہیں) کی شلواریں اتار کر سر عام پولیس والوں نے ان کے بید اور چھتر برسائے۔ کاش کوئی ان کے ہاتھ روکنے کی طاقت رکھتا ہوتا اور ان کو بھی وہیں لٹا کر ان کی سرکاری پینٹیں اتار کر ایسے ہی نقش و نگار بناتا اور ایسے بید لگاتا کہ اپنی شلواریں اور پتلونیں کچھ دنوں تک پہننے سے ان کو خوف آتا۔

شرم کی بات یہ ہے کہ یہ پولیس والے جو قانون کے رکھوالے کہلاتے ہیں ان کو کس قانون کے تحت اس طرح غیر انسانی اور غیر اخلاقی طریقے سے سر عام تشدد کا نشانہ بنایا گیا کاش اس فرعون کی نسل کے افراد کو جو لٹائے گئے افراد پر بید برسا رہے تھے کاش کوئی ان کے ہاتھ روکنے والا ہوتا۔

حرف بھیجیے جناب ایسی فرعونیت اور ایسے خادم پنجاب ہونے پر۔ یہ قانون کے رکھوالے جی ہاں قوم کے خون پسینے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ٹیکسوں پر پلنے والے کیا ایک زبردست قسم کے وزیر اعلٰی صاحب کی پولیس ہونے کا درجہ نہیں رکھتے جن کی پارٹی کبھی بجلی چوری کرنے میں ملوث پائی جاتی ہے تو لائن مین کو برطرف کر کے سمجھتی ہے لو جی دھول جھونک دی جاہل قوم پر۔ واہ جی خادم پنجاب وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب کی ایڈمنسٹریٹر شپ اور اس کے قصیدے گانے والے پرانے ادوار کے وہ ایمبیسیڈر جو آج کل ان کے لیے بڑے بڑے اخبارات میں کالم لکھنے پر معمور ہیں۔

واہ بھئی کیا حکومت ہے تن تنہا ن لیگ کی پنجاب پر کہ کبھی اپنے حلقے میں انتخابی نتائج مرضی کے آنے کے بعد کھلے عام ممنوعہ ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہیں اور کبھی بجلی چوری کر کے جلسے کرتے ہیں اور دوسروں کو کہتے ہیں فلاں فلاں دنیاوی تہوار ہم نہیں منانے دیں گے

افسوس اور درندگی کی بات یہ ہے کہ دوسروں کو آمر اور آمریت کے تحفے قرار دینے والے خود کیسے فرعون بنے ہوئے ہیں اور کیسے اپنے زیر اثر اداروں کے اہلکاروں کو جانوروں کی طرح کاروائیاں کرتے دیکھ رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ایس ایچ او نے دوران تشدد موجود لوگوں سے کہا کہ ان افراد پر کل بھی تشدد کیا جائے گا۔

مقامی لوگوں کے احتجاج کے بعد سنا ہے چند پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے جھنگ جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ شائد اسلئے تاکہ وہ عوامی غصے سے اپنے ساتھی اہلکاروں کو محفوظ رکھ سکیں اور پھر یہ فرعون اہلکار کسی اور علاقے میں تعینات کردیے جائیں گے جہاں وہ دوسرے لوگوں کو بھی ننگا کر کے ان پر اپنی وحشت اور درندگی نکالیں گے تاکہ قوم کو اندازہ ہوجائے کہ اس نے کیسے لوگوں کو حکومت دی ہے اور ظاہر ہے قوم کو ایسوں کو منتخب کروا کر اور حکومت سپرد کر کے خود ننگا ہو کر ان کے تشدد کا نشانہ ہی بننا پڑے گا۔

کاش بجلی، گیس، چینی، این آر او، مشرف کے خلاف بے بس اور کچھ نا کرسکنے والی عدلیہ اس معاملے میں تو کوئی سوموٹو ایکشن لے کہ جہاں پولیس افسر کو چیف جسٹس کو زبردستی گاڑی میں ڈالنے پر تو پوری سول سوسائٹی بیدار ہوگئی تھی اب لوگوں پر ناجائز طریقے سے ننگا کر کے تشدد کرنے پر کس غیرت کی وجہ سے خاموش ہے۔

چیف جسٹس صاحب اس قسم کا جو عمل ہوا ہے وہ کسی اور ثبوت کا متقاضی نہیں ہے کسی بھی چینل پر دیکھ لیجیے اور انصاف کیجیے وگرنہ آپ کا دور عدل بھی ختم ہوگا اور قوم اور تاریخ یہ سوچے گی کہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کے لیے تو ٹھوس اقدامات اور ملک و قوم کے لیے فقط لفاظی سے ہی کام لیا ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 497986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.