یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

امریکہ نے 9/11کے ڈرامہ کے بعد جس طرح مسلمانوں اور خصوصاً مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ظالمانہ، متشددانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے، جس طرح اس نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھیلنا شروع کیا ہے، جس طرح مسلمانوں کی جان اور عزت کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اور جس طرح عراق، افغانستان، فلسطین اور پاکستان کے مسلمانوں کو بالخصوص فرعونیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اور اب پچھلے کچھ عرصہ سے جس طرح امریکی ائیرپورٹس پر مسلم خواتین و حضرات کی اسکیننگ کے نام پر بیحرمتی کی جارہی ہے وہ مسلمانوں کے لئے انتہائی دل آزاری کا سبب ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ اس کے خلاف کسی بھی مسلمان ملک نے حکومتی سطح پر باقاعدہ احتجاج تک نہیں کیا۔ لوگ اب بھی لاکھوں روپے دے کر امریکہ جانے کی کوششیں کرتے ہیں، ذلت و رسوائی برداشت کرنے کو اور تیسرے درجے کے شہری بننے کو بے قرار رہتے ہیں۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی انگلستان اور یورپ نے بھی ایئرپورٹس پر اسکینر نصب کرنے کا نہ صرف اعلان کردیا بلکہ کچھ ایئرپورٹس پر اسکینر نصب بھی کردئے گئے ہیں۔

چند دن پہلے دو مسلمان خواتین نے انگلینڈ کے ایک ایئرپورٹ سے اس لئے جہاز پر سوار ہونے سے انکار کردیا کہ وہ اسکیننگ کی صورت میں اپنی بیحرمتی پر تیار نہیں تھیں، انہیں ان کی ٹکٹوں کی رقم بھی واپس نہیں دی گئی، انہوں نے نقصان برداشت کرلیا لیکن ذلالت برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح دوسری خبر یہ ہے کہ اٹھائیس فروری کو فاٹا پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ رکنی پارلیمانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی دعوت پر امریکہ کے دورے کا آغاز کیا۔ امریکی ایئرپورٹس پر سپیشل چیکنگ اور اسکیننگ کا علم اس پارلیمانی وفد کو بھی تھا، چنانچہ وفد کے قائد سینیٹر عباس آفریدی کے بقول انہیں امریکی حکام نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی اسکیننگ نہیں کی جائے گی لیکن بعد ازاں جب انہوں نے واشنگٹن ایئرپورٹ سے کسی دوسری امریکی ریاست کے لئے عازم سفر ہونا تھا تو انہیں اسکیننگ کے لئے کہا گیا حالانکہ اس سے پہلے جب وہ امریکہ پہنچے تھے تو ان کی اسکیننگ نہیں کی گئی تھی جیسا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اسکیننگ پر اصرار کرنے اور ایک ہفتہ بعد استثنیٰ ختم کئے جانے پر فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے احتجاجاً اپنا باقی کا دورہ منسوخ کردیا اور وطن واپس آگئے۔ پارلیمانی وفد میں عباس آفریدی کے علاوہ حافظ محمد رشید، ساجد حسین طوری، محمد کامران اور جواد حسین بھی شامل تھے۔ وطن واپسی پر فاٹا کے پارلیمانی وفد کا پرجوش استقبال کیا گیا، استقبال کرنے والوں میں ان کے عزیزوں اور عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی، پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں! ایک فکر انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سارے معاملہ میں تاحال حکومت کا کوئی نکتہ نظر ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

یہ صرف ایک خبر ہی نہیں اس نقطہ زوال کا آغاز ہے جو انشاءاللہ عنقریب امریکہ کی قسمت بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں ہر چیز کے لئے فنا شامل ہے۔ جس کسی کو عروج حاصل ہوتا ہے اس کے لئے زوال بھی لازم ہے۔ جب ایک چیونٹی کو بھی اپنی موت سامنے نظر آتی ہے تو وہ اپنے سے کئی ہزار گنا بڑے ہاتھی سے بھی لڑنے کو تیار ہوجاتی ہے اور جب وہ موت کا ڈر دل سے نکال کر ہاتھی سے جنگ کرتی ہے تو قدرت اسے بھی فتح یاب کردیتی ہے۔ انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے اور وہ انسان جس نے نبی محترم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ بھی پڑھ رکھا ہو، ان پر اپنی تو کیا اپنے ماں، باپ اور بچوں تک کو قربان کرنے کا جذبہ جواں رکھتا ہو تو اس کے لئے امریکہ کی کیا حیثیت و اہمیت ہوسکتی ہے۔ ہماری تاریخ ہے کہ جب 313 تھے تو کئی گنا زیادہ کفار سے بھڑ گئے تھے، اس وقت تو وسائل بھی نہیں تھے، ذرائع بھی نہیں تھے، نہتے تھے، جنگ کا سازو سامان بھی محدوو تھا لیکن اگر تھا تو جذبہ تھا، شہادت کی آرزو تھی، رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دلوں میں موجود تھی۔ اب تو مسلمان تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں، قدرت نے انہیں ان وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں ہیں، بس جذبہ پیدا کرنے کی دیر ہے، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تازہ کرنے کی ضرورت ہے، اپنے فروعی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے، ایک قوم بننے کی دیر ہے، امریکہ جیسے دجال کو سبق بھی سکھا دیا جائے گا اور اللہ اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بھی پوری دنیا پر آشکار ہوجائے گی۔ اگر مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضاء پیدا کرلیں، چھوٹے چھوٹے فروعی اور مسلکانہ مسائل کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں، اگر وہ حب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضوں کو سمجھ کر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو اگر وسائل کی کوئی کمی بھی ہو، تعداد میں تھوڑے بھی ہوں تو اللہ کی ذات اپنا کرم کرے گی
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اللہ بھلا کرے فاٹا کے پارلیمانی وفد کا جنہوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ باغیرت بھی ہیں، باہمت بھی اور مجاہد بھی۔ پوری قوم ان کو سلام پیش کرتی ہے کہ انہوں نے اپنی اور قوم کی تذلیل نہیں ہونے دی۔ اس سے پہلے ایک معتبر علمی شخصیت عطاءالحق قاسمی نے بھی تب تک امریکہ جانے سے انکار کیا ہوا ہے جب تک اسکیننگ جیسی ذلالت ختم نہیں ہوتی۔ اب فاٹا کے پارلیمانی وفد نے وہاں سے احتجاجاً وطن واپس آکر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ اگر ہمارے بے غیرت حکمران اسی طرح یہ اعلان کردیں کہ مسلمان ممالک کے تمام ایئر پورٹس پرامریکیوں کی بھی اسی طرح تلاشی لی جائے گی اور اسکیننگ کی جائے گی تو شائد اپنی طاقت کے نشہ میں مست امریکہ کو تھوڑی سی ہوش آجائے، آخری معرکہ یقیناً امریکہ کے مرشدوں، مربیوں اور حکمرانوں ”یہودیوں“ اور مسلمانوں کے درمیان ہی ہوگا جس میں مسلمان اللہ کے فضل و کرم سے فتح یاب ہوں گے۔ جب تک مسلم حکمران قومی غیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے اس وقت تک فاٹا کے غیور عوام اور ان کے نمائندوں کی طرح امریکہ کو چیلنج کرنے والے شائد تعداد میں ذرا کم ہوں لیکن شکر ہے کہ کوئی بارش کا پہلا قطرہ تو بنا، کسی نے اس کار خیر کی ابتداء تو کی، کسی نے ہمت تو کی!
یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208539 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.