اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

بعض لوگوں کے چلے جانے سے صرف گھر ویران ہو جاتے ہیں ،بعض کی کمی محلے اور قصبے تک محسوس کی جاتی ہے اور بعض تو اس شعر کے مصداق کہ
" بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا"

دا غ مفا رقت دیکر شہر کو ویران کر جاتے ہیں مگر بعض کا معاملہ اس سے کچھ اور آگے کا ہوتا ہے ان کی شخصیت اور ذاتی حیثیت کچھ اور نوعیت کی ہوتی ہے وہ شخصیات آ فاقی ہوتی ہیں اور پوری دنیا کیلئے یکساں حیثیت اور اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ایسی ہی ایک آفاقی او ر نوجوان ادبی شخصیت جناب دانیال طریر کی ہے جس نے گزشتہ دنوں ہمیں دا غ مفا رقت دے کرداعی اجل کو لبیک کہا ۔آپ کی شخصیت کو آفاقی اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی سوچ اور تخلیقات آفاقی ہیں آ پ کا ادب آفاقی ہے۔

ٓ آپ کا اصل نام مسعود دانیال ،تخلص طریر تھا اور آپ د انیال طریر ہی کے ادبی نام سے مقبول تھے آپ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے محقق اور نقاد بھی تھے،آپ جامعہ بلوچستان کے شعبۂ اردو سے منسلک تھے ۲۴ فروری ۱۹۸۰ کو بلوچستان میں پیدا ہوئے جبکہ گزشتہ دنوں ۳۵ سال کی عمر میں وفات پائی ا ور سرطان کا موذی مرض آپ کی موت کا سبب بنا۔

آپ کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور ایسے خاندان سے تھا جنکی ادبی خدمات اردو اور پشتوادب میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں آپ کے والد جناب سعید گوھر آپ کے چچا محمود ایاز اور تا یا جناب ربنواز مائل کا شمار اردو اور پشتو شاعری کے نہ صرف اچھے شعرا میں ہوتا ہے بلکہ ادب کیلئے انکی بہت گرانقدر خدمات ہیں۔

بعض لوگوں کو ادب کے میدان میں خود کو متعارف کروانے اور اپنے پیر مضبوط کرنے کیلئے اپنے خاندان کے ادبی حوالوں کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر یہاںَِ "خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے" کے مصداق معاملہ اس کے بر عکس ہے،

یعنی یہاں اﷲ نے دانیال طریر کو ان صلاحیتوں سے نوازہ کہ جن کی بدولت انہوں نے بہت کم عمری ہی میں خود اپنی ایک الگ اور معتبر پہچان قائم کر لی اب یقینا انکے خاندان کے تعارف میں ایک معتبر حوالہ خود دانیال طریر کا ہوگا۔

وہ لوگ جنہوں نے ہم سے بہت جلدی بچھڑ جانا ہوتا ہے وہ اپنے حصے کا بہت سا کام کر کے ، بہت سا نام کما کر اور بہت سی داد سمیٹ کر بہت کم وقت میں رخصت ہو جاتے ہیں ایسی مثالوں میں انگریزی کے کیٹس اور شیلے اور اردو کے میرا جی ، شکیب جلالی، قابل اجمیری، پروین شاکر اور تازہ مثال دانیال طریر کی ہے۔

دانیال طریر کی تصانیف میں آدھی آتما (شاعری)۔۔خواب کمخواب (شاعری)۔۔ معانی فانی (شاعری)۔۔۔خدا میری نظم کیوں پڑھے گا( طویل نظم)۔۔جدیدیت ،ما بعد جدیدیت اور غالب،(تنقید) ادب تنقید اور تھیوری(تنقید)معاصرتھیوری اورتعین قدر(تنقید)اور اس کے علاوہ بہت کچھ موجود ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آتا رہے گا۔

دانیال طریر کے حوالے سے جناب امجد اسلام امجدلکھتے ہیں کہ " موت کا احساس یوں تو ہر قابل ذکر شاعر میں کم یا زیادہ اپنی جھلک دکھاتا ہے لیکن اگر اس احساس میں جسم کے اندرہونے والی توڑ پھوڑ کوئی واضح اور عملی شکل اختیار کر لے جیسا کہ بلخصوص دانیال طریر کے ساتھ ہو ا کہ اس کے آخری چند برس ایک خطرناک کینسر کی زد میں گزرے جس کا سایہ خواہی نخواہی اسکے شعور اور لا شعور دونوں پر پڑتا تھا ادب کے حوالے سے اس کا تنقیدی شعور ، مطالعہ اورتحریریں ایک خاص انداز کی حامل تھیں جن میں کہیں کہیں ایک اور جواں مرگ دوست قلم کار سر اج منیر سے ایک طرح کی مشابہت نظر آتی تھی کہ رائے کے پیچھے اگر وسیع مطالعہ اور متاثر کن قوت اظہار ہو تو بات میں ایک ایسا وزن پیدا ہو جا تا ہے جو بہت سوں کو بڑھاپے میں بھی نصیب نہیں ہوتا"۔

ستیہ پال آنند نے طریر کی نظم الرجی کا حوالہ دیکر انھیں ایسا قادر الکلام شاعر قرار دیا ہے جو نظم کی بنت کاکوئی بھی تاگانہیں بھولتا انکا کہنا ہے کہ طریر کی شاعری جدید عالمی شاعری کے معیار کے عین مطابق بھی ہے اور اردو کی نظمیہ شاعری کے تناظر میں اس کا جداگانہ ا ور منفرد مقام بھی ہے۔

دانیال طریر کی اتنی خصو صیات اور اتنا کام ہے کہ اس کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے تاہم یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے بات کو دانیال طریر کے کلام سے انتخاب پر ختم کرتے ہیں۔
طریر کہتا ہے کہ۔۔
بدن پر ٹانک کر تارے اڑایا جا رہا ہے
مجھے آخر پرندہ کیوں بنایا جا رہا ہے
نظر آتی نہیں ہے بولنے والے کی صورت
سنائی دے رہا ہے جو سنایا جا رہا ہے
کہانی ختم ہونے کی نشانی ہے یہ لمحہ
دعا کو زرد پتوں میں چھپایا جا رہا ہے
٭
بہ طرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
نئی زمین بنانی پڑی ہے آخر کار
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
٭

ورق سونے کے مجھ کو کس نے دینے تھے کہ دیتا
سو اپنے خواب سب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
٭
بلا جواز نہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
لہو کی بوند گری روشنی کا پھول کھلا
پھر اس کے بعد تھی کچھ اور ہی ترنگ مری
٭
اک طرز پر اسرار میں دیکھا ہے خدا خیر
سایہ کوئی دیوار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہ خوف تو ویرانی دل سے بھی گراں ہے
آسیب در یا ر میں دیکھا ہے خدا خیر
وہ رنگ کہ خود مجھ پہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا
وہ رنگ بھی اظہار میں دیکھا ہے خدا خیر
٭
لوگ دیکھیں تو دنگ رہ جائیں
شے کوئی دیدنی بناؤں میں
بانجھ دھرتی مجھے عنایت ہو
سرخ پھولوں بھری بناؤں میں
٭
لگتی ہے جسم پر منوں مٹی پڑی ہوئی
شاید طریر لوگوں نے دفنا دیا مجھے
٭
(نظم) آواز کا نوحہ
گڑیا ! بولو
گڑیا ! اپنی آنکھیں کھولو
گڑیا ! دل پہ بوجھ ہے کوئی
تو جتنا جی چاہے رو لو
گڑیا ! یہ خاموشی مجھ کو کاٹ رہی ہے
گڑیا ! موت کی دیمک مجھ کو چاٹ رہی ہے
٭