اب ترکی بھی شدت پسندی کی لپیٹ میں ۰۰۰؟

اسرائیلی جرائم کی روک تھام کے لئے عالم اسلام سے اپیل

شاید اب ترکی کو بھی شدت پسندوں اور تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ گذشتہ ماہ ترکی حکومت نے دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف کارروائی میں حصہ لیتے ہوئے اسکے ٹھکانوں پر حملوں کا آغاز کیا اور امریکہ کو اس کا فوجی ہوائی اڈہ ’’انسرلک‘‘جو شام کی سرحد کے قریب واقع ہے استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بعد ترکی میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوگیاہے۔دوشنبہ کے روز ترکی کے شہر استنبول میں امریکی قونصل خانہ کو نشانہ بناتے ہوئے دو خواتین نے فائرنگ کی، خبروں کے مطابق ترک سیکیوریٹی فورس نے فائرنگ کرنے والے دونوں خواتین کو ہتھیار ڈالنے اور خودسپردگی کی ترغیب دی ، انکے انکار پرترک سیکیورٹی فورس کی جوابی کارروائی میں دونوں خواتین ہلاک ہوگئیں۔ ایک خاتون جو 51سال کی بتائی جارہی ہے جس کا تعلق بائیں بازو کے نظریات والی انقلابی تنظیم پیپلز لبریشن آرمی کی رکن کی حیثیت سے بتایا جارہا ہے جو ماضی میں جیل کی سزا بھی کاٹ چکی ہے ۔ اس حملے میں آٹھ ترک سیکیوریٹی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ استنبول شہر کی دوسری جانب دھماکوں سے لدی ہوئی گاڑی کو ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیلئے استعمال کیا گیا اس حملہ میں تین پولیس عہدیدار اور سات عام شہری زخمی ہوئے اس دوران ایک حملہ آور ہلاک ہوگیا اسی طرح ایک اور واقعہ میں ایک فوجی جوان ہلاک ہوگیا۔ ترکی کے موجودہ صدر اور سابقہ وزیر اعظم رجب طیب اردغان کو ترکی کی معیشت کے استحکام کے لئے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ گذشتہ ایک دہے کے دوران ترکی نے معاشی طور پر ترقی کی ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے اضافہ کی وجہ سے سیاحت کو نقصان ہورہا ہے کیونکہ سیاحت کی وجہ سے ترکی کی معیشت مستحکم دکھائی دے رہی تھی اور اب بائیں بازو کی پیپلز لبریشن آرمی اور داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں نے ترکی آنے والے سیاحوں کیلئے دروازے بند کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ترک حکام نے شام میں داعش کے خلاف اور عراق میں کرد لیبر پارٹی کے خلاف گذشتہ ماہ جنگی آپریشن شروع کیا ہے اور امریکہ کو بھی اسکا ہوائی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

داعش پر شدید ضرب لگانے کے لئے امریکہ ترکی کافوجی اڈہ استعمال کررہاہے ، امریکہ داعش کے خلاف بڑی کارروائی کی تیاری میں مصروف دکھائی دیتا ہے ترکی کے اس فوجی اڈہ ’’انسرلک‘‘ پر امریکی ایف ۔16جنگی طیارے تعینات کردیئے گئے ہیں۔ امریکہ یہاں سے داعش کے خلاف سخت فضائی کارروائی کرسکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش ترکی حکومت کی جانب سے اس کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے اور امریکہ کو فضائی کارروائی کے لئے فوجی اڈہ کی اجازت دینے کے خلاف یہ کارروائی کررہی ہے ۔ عالمِ اسلام کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے خاتمے کے لئے متحدہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں ۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اپنے ہم منصب ترکی صدر رجب طیب اردغان سے فون پر بات کرتے ہوئے انسداد ہشت گردی کی اپیل کی۔ٹیلیفونک گفتگو کے دوران ایرانی صدر نے کہا کہ دونوں ملکوں کو خطے میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔ عالم اسلام کے ان ممالک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لئے اسلامی تعاون کونسل (او آئی سی) کا ایک اجلاس جدہ میں منعقد ہوا ، جس میں دہشت گردی ، تفرقہ بازی، انتہاپسندی پر مبنی تشدد اور نام نہاد جہادی تنظیموں پر قابو پانے اور اس کے سدّباب کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب دیکھنا ہیکہ عالم اسلام کے قائدین شدت پسندی کے خاتمہ کے لئے مزید کس قسم کے فیصلے کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ سعودی عرب کے شہر ابہا کے پولیس کیمپ میں واقع مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں 17افراد جاں بحق ہوئے اس حملہ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ہے اس سے قبل سعودی عرب میں دو شیعہ مساجد پر حملے کئے گئے۔ سعودی حکومت جو سعودی شہریوں کو دوسرے ممالک میں شدت پسند سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرتے ہوئے سخت کارروائی کا انتباہ دے رکھا ہے اور اب جبکہ مملکت کے ہی شہروں کی مساجد کو شدت پسند نشانہ بناتے ہوئے عام شہریوں اور سیکیوریٹی اہلکاروں کو ہلا ک کررہے ہیں۔ سعودی عرب ، کویت، ترکی، عراق، شام، افغانستان میں دولت اسلامیہ (داعش) کی جانب سے جو شدت پسند کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں اس کے خلاف جدہ میں منعقدہ اسلامی تعاون کونسل(او آئی سی) کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے او آئی سی کے مختلف اداروں کی کوششوں کو زیادہ مربوط اور موثر بنانے پر غور کئے جانے کا امکان ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ اجلاس میں دہشت گردی اور پر تشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروپوں کے مختلف نظریات کے رد پر بھی غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمہ اور نام نہاد جہادی سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔کیونکہ جس طرح داعش سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں کو راغب کرتے ہوئے جہاد کی ترغیب دے رہی ہے اور نوجوان بھی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد شدت پسندی کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں داعش، طالبان، النصرہ فرنٹ، حوثی، کرد و دیگر کی جانب سے اسلامی ممالک میں جس طرح مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں کو حملے کا نشانہ بنارہے ہیں اس کے خلاف عالم اسلام کے حکمرانوں کو عوام کے امن و سلامتی کے لئے اقدامات کرنے ہونگے اور ان شدت پسند تنظیموں کے خلاف فضائی کارروائی میں عام شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیرکارروائی کرنی ہوگی۔ کیونکہ اس سے قبل امریکہ اور دیگر حلیف ممالک کی جانب سے عراق، شام، افغانستان ، پاکستان ، یمن وغیرہ میں جو فضائی کارروائیاں انجام دیں گئیں ہیں ان میں بے حساب عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہیں اور کروڑوں ڈالرز کی معیشت برباد ہوئی ہے۔

عالم اسلام کے ان ممالک میں شدت پسند تنظیموں کی جانب سے معصوم و بے گناہ افراد کو ہلا ک کیا جارہا ہے تو دوسری جانب فلسطینیوں پراسرائیلی ظلم و بربریت میں اضافہ ہورہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرواقعی نام نہاد جہادی تنظیمیں اسلام کی خاطر اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف لڑتے تو شاید اسے بین الاقوامی سطح پر تعاون حاصل ہوتا۔ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سطح سے وقتاً فوقتاً آواز اٹھتی دکھائی دیتی ہے، اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بات ہوتی ہے لیکن امریکہ اور مغربی و یوروپی ممالک اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرتے کیونکہ اسرائیل کی بقاء میں امریکہ جو رول نبھا رہا ہے اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے، امریکہ اسرائیل کی بقاء کے لئے ہر سال کروڑوں ڈالرز خرچ کررہا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق مغربی طاقتیں خصوصاً امریکہ خطے میں اسرائیل کی بقاء اور تحفظ اس لئے بھی چاہتا ہے تاکہ عالم اسلام معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کے لئے خطرہ نہ بنے۔ واقعی آج عالم اسلام معاشی طور پر مستحکم ہے لیکن عدم تحفظ کا شکار ہے ، شدت پسند تنظیمیں مسالک کی بنیاد پر عالم اسلام کوطاقتور بننے کے بجائے کھوکھلا کرتے جارہے ہیں۔ ایک طرف شدت پسند تنظیموں سے اسلام کو نقصان ہورہا ہے تو دوسری جانب مسلم حکمراں دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔ آج عالم اسلام کے حکمرانوں کو اپنے تحفظ کے لئے امریکہ اور مغربی و یوروپی ممالک پر بھروسہ کرنا پڑرہا ہے ۔ فوجی طاقت اور فوجی ساز و سامان کے حصول کے لئے کروڑوں ڈالرز صرف کررہے ہیں اس کے باوجود ان پر خطرے کے بادل ہمیشہ منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ عالم اسلام پر اتنا بُرا وقت دیکھنے کے باوجود مسلمانوں میں اتحاد نظر نہیں آرہا ہے اور آج بھی وہی مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف تقاریر و لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہے کاش مسلمان پیارے حبیب ، رحمۃ للعالمین ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر ملتِ اسلامیہ کی ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کرتے۔

اسرائیلی جرائم کی روک تھام کے لئے اپیل
مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب اور سپریم فلسطینی اسلامی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر الشیخ عکرمہ صبری نے بیت المقدس میں یہودی توسیع پسندی کو ختم کرنے کیلئے شہرمیں بڑے پیمانے پر جائیدادوں کی خریداری کی خاطر فنڈ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ عکرمہ صبری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ اسرائیل نے جنوبی مسجد اقصیٰ کی الشرف کالونی میں یہودی توسیع پسندی کی خاطر 40 ملین ڈالر زکی خطیر رقم مختص کی ہے۔ اس کے مقابلے کیلئے عالم اسلام اور عرب ممالک بھی ایک فنڈ قائم کریں جس کے ذریعے بیت المقدس میں جائیدادوں کو خرید کر صہیونی توسیع پسندی کا طوفان روکا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ قابض حکومت بیت المقدس میں فلسطینیوں کی جائیدادوں پر قبضے کے لیے کروڑوں ڈالرز کی رقوم صرف کررہی ہے۔ شہر کے چپے چپے پر یہودی کالونیاں قائم کی جا رہی ہیں اور مقامی فلسطینی آبادی کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں ایک فنڈ کے قیام کی اشد ضرورت ہے جس کی مدد سے بیت المقدس بالخصوص مسجد اقصیٰ کے قرب و جوار کی جائیدادوں کو خریدا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے قریب تعلیم، صحت اور آباد کاری کے فلسطینی اداروں کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے جسے عالم عرب خصوصی توجہہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی لابی یہیودی بستیوں کی آبادکاری کیلئے ہر ممکنہ کوششیں کررہی ہے جبکہ فلسطینیوں کی مالی معاونت میں کوئی تقابل نہیں ہے۔ ڈاکٹر عکرمہ صبری کا کہنا تھا کہ یہودی لابی کروڑں کی امداد حاصل کرنے کے بعد بیت المقدس کا تاریخی نقشہ بدلنے کی سازش کر رہی ہے لہذا عالم اسلام فلسطینی مسلمانوں کیلئے آگے آئیں۔عرب لیگ نے بھی مسجد الاقصی پریہودی انتہاپسندوں کے بار بار حملوں کی مذمت کی ہے۔ خبروں کے مطابق فلسطین اور مقبوضہ سرزمینوں کے امور کیلئے عرب لیگ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد صبیح نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ انتہا پسنداسرائیلیوں کے مسجد الاقصی پر حملے اور اس مسجد پر صیہونی پرچم لگانے کی ان کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ محمد صبیح نے عرب ممالک سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی حکومت کے جرائم اور مظالم کی روک تھام کے لئے پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.