علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - دوسری قسط

شاہ مات


ہوٹل سٹار سی ون پاکیشیا کے کیپیٹل کا سب سے بڑا سیون سٹارہوٹل تھا۔ اس کو قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ وہ اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔وہ ایک پندرہ منزلہ نہاہت وسیع عمارت پر مشتمل تھا۔ وہاں ملک بھر سے لوگ اس کی شہرت کا سن کرآتے اور اس کے اسیر ہوجاتے تھے ۔اس ہوٹل میں زیادہ تر پاکیشیا کی الیٹ کلاس یعنی اشرافیہ آیاکر تی تھی اس میں سیاست دان،میڈیا کے لوگ، کچھ وی آئی پیز اور دیگر اہم سرکاری لوگ بھی وزٹ کرتے تھے۔ یہاں راتیں رنگین اور دن ویران ہوا کرتے تھے۔ ہوٹل انتظامیہ اور دیگر اسٹاف ویل ٹرینڈ تھے، ہوٹل کا مالک ایک اطالوی کرنل ولسن تھااور اٹلی میں اپنے ہوٹلز کی ایک پوری چین کا مالک تھا۔ وہ ایک ریٹائڑڈ فوجی افسرتھا اور اپنے پروفیشنل فوجی ہونے کی وجہ سے فوجی عادات و اطوار پر سختی سےپابندی کرتا تھا۔ اپنے ہوٹلوںمیں بھی اس نے ڈسپلن پر کبھی بھی کمپرومائزنہیں کیا تھا۔ اس نے ایک بھرپور زندگی گذاری تھی، شکار اور مصوری کا شوقین تھا۔ شکار کی غرص سے وہ کئی دفعہ دنیا کے مختلف ممالک کا چکر لگاچکا تھااورپھر اپنی نجی محفلوں میں اپنی بہادری کے قصے خوب مرچ مصالے لگا کر سناتا تھا اور دوستوں سے بہت داد وصول کرتا تھا۔ کبھی کبھی مصوری بھی کرلیا کرتا تھا مگر وہاں اس کی زیادہ دال نہیں گلی تھی۔ اپنے ہوٹلوںمیں باقاعدہ آرٹ پینٹنگز کی سالانہ نمائش منعقد کرواتا تھا اور دنیا بھر کی نایاب پیٹنگز کی مکمل آرٹ گیلری اس نے اپنے نام پر اٹلی میں قائم کر رکھی تھیں ۔اس کی تین شادیاں اور پانچ بچے تھے مگر بیویوں سے اکثر بیزار رہتا تھا لحاظہ ہمیشہ ان سے دور ہی رہتا تھا اوار اکثر دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اس نے زندگی میں ایک بہت ہی سنگین غلطی کی ہے اوروہ ہے شادی اور وہ بھی تین دفعہ ۔

اٹلی میں کاروبار کی کامیابی کے بعد وہ اپنے ایک پاکیشیائی دوست کے مشورے پر پاکیشیا آگیا اور یہاں اس نے ہوٹل سی سٹار ون کی داغ بیل ڈال دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ پھر اس نے اپنے پاکیشیائی دوست کو ہوٹل کا ففٹی پرسنٹ پارٹنر بھی بنا لیا۔

اس ہوٹل کی خاص بات اس کااسپیشل سیچرڈے نائیٹ شو تھا۔جو کبھی کبھی اسپیشل پلس بن جاتا تھا۔ اس دن دنیا بھر سے لوگ آکر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔جس میں میجک شو کو خاص مقبولیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ تھیٹر شوز ، مختلف کرتب کرکے دیکھانے والے مداری،موسیقی کی دنیا کے شاہکار موسیقار غرض یہ کہ دنیا جہاں کے نایاب ہیروں کو تلاش کرکے لایا جاتا اور پھر ان سے ان کے فن کا مظاہرہ کرایا جاتا۔

آج بھی یہاں ایک زبردست شو کا اہتمام کیا گیا تھا،کرتب دیکھانے والے مداریوں سے لیکر میجک کی دنیا کابے تاج بادشاہ مسڑ جانسن بھی آج اپنا خاص شو کرنے والا تھا۔وہ یہاں اس سے قبل کئی شوز کرچکا تھا اور اس کی وجہ سے ہوٹل انتظامیہ کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچاتھا۔ اس کے شو کی تشہیر ایک مہینہ قبل ہی کردی گئی تھی اور مخیر حصرات نے لاکھوں کروڑوں روپے دے کر اپنی ایڈوانس ٹکٹ کروائی تھی اور اپنے لئیے اسٹیج کے پاس پہلی چار قطاروں میں سیٹیں مختص کروائی تھیں۔ ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے دعوی ٰ کیا گیا تھا کے اس سے قبل کسی نے بھی وہ آئٹمز نہیں دیکھے ہونگے جو مسٹر جانسن پیش کرے گا۔ آج وہ رات آگئی تھی، مسٹر جانسن کا شو سب سے آخر میں تھا۔

احمد منیر جو پرائم چینل کا نیوز بیورو چیف اور کرائم رپوٹر تھا، وہ بھی ہال میں موجود تھا۔ اس نے میڈیا کارڈ کھیلتے ہوئے انتظامیہ کو رام کرکے ایک سیٹ اور ایک میٹنگ روم بھی زبردستی لے لیاتھا،ا صل میں وہ یہاں پر کسی سے ملنے کے لئے آیا تھا جسکے لئے اسے ایک الگ میٹنگ روم مل گیاتھا۔ آج کل ہوٹل والے یہ سہولت بھی دے رہے تھے ۔بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز یہاں آکر کروڑوں ڈالرزکی ڈیلز کیا کرتے تھے۔ ان کی یہاں پر مکمل پرائیویسی کا اہتمام موجود تھا۔

تما م رومز ساؤنڈ پروف تھے تاکہ ان کے کسٹمرز کو کوئی شکایت نہ ہو۔

ہوٹل والے احمد منیر کو آخر سیٹ اور روم کیوں نہ دیتے ؟ اس کی وجہ بڑی سادی سی تھی ،میڈیا سے پاکیشیا میں ہر کوئی ڈرتا تھا کیونکہ اگر ایک بار میڈیا والے کسی کی بگڑی اچھالنے پر آجائیں تو کوئی ان سے نہیں بچ سکتا تھا۔ یہ لوگ انسان کے تن پر موجود سب کچھ اُتارلینے کی صلاجیت رکھتے تھے اور ان کے بارے میں مشہور تھا کے یہ اپنے گھر والوں کے بھی نہیں ہوتے۔ گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا پاکیشیا میں ایک بے لگام گھوڑا بنا ہوا تھا ،یہاں تک کے پاکیشیاسیکرٹ سروس والے بھی ان سے دور رہتے تھے۔ احمد منیر کے چینل کی عوام میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ بریکنگ نیوز اور لائیو ٹرانس مشنز کے کلچر نے گزشتہ چند برسوں میں پاکیشیائی چینلز کی ریٹنگز آسمانوں پر پہنچا دی تھی۔ یہ سادہ لو عوام کی ہررائے بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جس میں احمد منیر کی تہلکا خیز کرائم اسٹوریز کا بھی کمال تھا لوگ اسکی اسٹوریزکے علاوہ اس کے تجزیے بھی سنتے تھے اور یہ عوام میں کافی مقبول صحافی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ایک اسٹوری کے سلسلے میں آیا ہواتھا اور جس شخص سے اسے اسٹوری ملنے کی توقع تھی ،وہ قیامت خیز پراسرار ، گہرا اور مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔ اس سے اس کی اب تک جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں تھیں وہ اس شخص کی اصل حقیقت معلوم نہیں کر پایا تھا۔ حالاں کہ منیر احمد کا اصل کام ہی انوسٹی گیشن کرنا تھا مگر اس کے وجود میں اتنا سحراور کشش تھی کے سامنے والا شخص اس کی حدت برداشت نہیں کر پا تا تھا۔

اس وقت ہوٹل کا ہال اور اسکے اوپر گیلری لوگوں سے بھری ہوئی تھا۔ مرد اور عورتیں سبھی موجود تھے اور اسٹیج پرایک مداری تلوار سے اپنے فن کا مظاہرہ کررہا تھا۔ وہ بار بار فضاءمیں اپنی تلوار اُچھالتا اور پھر اسے منہ سے کیچ کرلیتا تھا۔ حاضرین اس کے ہر کیچ پر خوب داد دے رہے تھے اور کچھ جذباتی لوگ جوش میں آکر زندہ باد۔۔۔۔۔ شیر ا۔۔۔۔ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی تلوار کو فضاء میں اُچھالنے کے بعد اسے اپنے ہاتھوں سے کیچ کرکے ایک دم اپنی شاہ رگ میں اُتار لیا۔ کئی خواتین کی چیخیں نکل گئیں جبکہ مرد حضرات اپنی سانسیں روکے پٹھی ہوئی نگاہوں سے یہ ناقابل دید منظر دیکھ رہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے وہ تلوار اپنی گردن کے پارکرلی۔ تھوڑا تھوڑا خون اسکی گردن سے رسنے لگا اور پھر دوسرے ہی پل میں اس نے وہ تلوار اپنی گردن سے نکالی اور اسے فضاء میں ایک بار پھر اُچھال دیا۔ حاضرین کے دیدے پھر پھیل گئے، جبکہ کسی کسی کے منہ ان کے چہروں کے جغرافیئے سے بھی زیادہ چوڑے ہوگئے۔ اڑتی ہوئی تلوار کو اس نے اپنے دانتوں سے کیچ کیا اورپھر اسے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنی گردن مخصوص انداز میں جھکائی گویا حاضرین سے الوداعی داد وصول کررہا ہو۔ سب لوگوں نے دل کھول کر اس کی پذیرائی کی اور خوب تالیوں سے نوازہ۔

اس کے بعد ایک لڑکی جو اسٹیج اناؤنسر کے فرائض انجام دے رہی تھی اسٹیج پر آتے ہی اس نے مائیک پر اعلان کیا۔

"محترم خواتین و حضرات ! تھا جس کا انتظار آگیا وہ شاہکار، انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہوئیں۔ آپ سب لوگوں سے ہوٹل سٹار سی ون کا جو وعدہ تھا اب وہ پورا ہونے جارہا ہے ۔ دل تھام کر بیٹھیں، کیونکہ مسٹر جانسن آج جو میجک شو پیش کرنے جارہے ہیں وہ اس سے پہلے آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔" وہ روانی سے اپنی مترنم آواز میں بولی چلی جارہی تھی اور لوگوں کا تجسس بھی بڑھتا جارہا تھا۔اس اعلان کے بعد مسٹر جانسن اور اس کا اسسٹنٹ اسٹیج پر آئے،اس نے مخصوص جادوگروں والا انگریزی لباس پہنا ہوا تھا اور گلے میں لاتعداد لاکٹس، اور انگلیوں میں رنگز پہنی ہوئی تھیں۔ وہ اسٹیج پر اپنا مائیک ساتھ لیتے ہوئےآیا تھا، آتے ہی اس نے پہلے اپنا گلا صاف کیا اور پھر گویا ہوا:
"قابل قدر حاضرین ! آج صر ف ایک ہی آئٹم ہوگا اور اس کے بعد شو ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔" اس کے اس اعلان سے کچھ لوگ مایوس ہوکر کھڑے ہوگئے اور احتجاج کرنے لگے۔ جس پر انتظامیہ نے ان کو سمجھا بھجا کربٹھا دیا۔
"میر ے انتہائی قابل قدر حاضرین ! میں اس سلسلے میں آپ لوگوں سے دل کی گہرایوں سے معذرت چاہتا ہوں۔ میر ی طبعیت کچھ ناساز ہے، مگر میرا آپ سے وعدہ ہے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔زیادہ انتظار کروائے بغیر میں آپ کو آج کا شو دکھاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے آئٹم کے لئے آپ میں سے ایک ہمت والی خاتون اور ایک ہمت والےمرد کی ضرورت ہے جو بخوشی آنا چاہیے آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھیں گبھرائیں نہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ مجھ پر اعتماد رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس کے اعلان کے بعد کچھ خواہش مند افراد نے ہاتھ کھڑے کردیے ۔ جس میں سے انتظامیہ نے ا یک مرد اور عورت کا انتخاب کرکے انہیں اسٹیج پر بھیج دیا۔

سب سے پہلے مسٹر جانسن نے عورت کو اپنے دائیں ہاتھ کی طرف متوجہ کیا۔ وہ عورت اس کے ہاتھ کو گھورنے لگی ، آہستہ آہستہ وہ اپنا ہاتھ اس کے قریب لیجانے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر کا ہاتھ عورت کے بالکل قریب آگیا۔ دوسرے لمحے اس نے اسی ہاتھ سے چٹکی بجائی اور عورت چکراتے ہوئے زمین پر گرنے ہی لگی تھی کے اس نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔ اتنی دیر میں اس کا اسسٹنٹ بیک روم سے ایک ٹیبل لے آیا۔ پھر عورت کو اسی ٹیبل پر لیٹا دیا گیا، معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ بے ہوش ہوگئی ہو۔ دوسرے آدمی کے ساتھ بھی یہی عمل دوہرایا گیا اور اسے بھی ایک دوسری ٹیبل پر لٹا دیا گیا۔ پھر وہ عورت کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ٹیبل کے چاروں طر ف ہاتھوں کو لہرالہرا کر کوئی ورد کرنا شروع کردیا۔عورت کا جسم جوں کا توں ٹیبل پر پڑا رہا جیسے اکڑ گیا ہو۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کوئی خاص اشارہ کیا تو اسسٹنٹ نے عورت کے نیچے سے ٹیبل آہستہ سے ہٹا دی۔ مگرعورت کا وجود ویسے ہی ہوا میں اکڑا ہوا موجود رہا جیسے ہوا میں تیر رہا ہو۔ پھر جادوگر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تیزی سے فضاء میں بلند کیا اور اس کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ وہ عورت بھی اسٹیج کے فرش سے بلند ہوتی چلی گئی۔ تمام ہال پر سکتہ طاری تھا جیسے وہ زندہ لاشیں ہوں۔

وہ کو ئی 15 فٹ بلند ہوئی ہوگی کے جادوہ گر نے ہاتھ روک لیا۔یہی عمل اس نے دوسرے ٹیبل پر پڑے ہوئے آدمی کے ساتھ بھی کیا مگر اس بار ہال تالیوں سے گونج اُٹھا سب جادو گر کو داد دے رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میزوں کو دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیا گیاجہاں وہ پہلے تھیں۔ پھر دوبارہ جادو گر نے ہاتھوں کو بلند کیا اور زمین پر گرا دیا۔ وہ دونوں مرد اور عورت آہستہ آہستہ میزوں کی جانب آنے لگے اور پھر وہ ایسے ہی ٹیبلز پر سج گئے جیسے پہلے تھے۔ جادوگر جانسن نے پھر کوئی اشارہ کیا تو دونوں کے جسموں میں حرکت ہونے لگی اور پھر وہ اُٹھ کر یو ں حیرت سے سب کودیکھنے لگےجیسے انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ ان کے ساتھ کیا بیتی ہے۔ سب لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے مسلسل تالیوں کی گونج میں جادوہ گراور اس کے فن کو خیراج تحسین پیش کیا۔ سب لو گ بہت خوش تھے، ان کا گلہ ایک ہی آئٹم میں جادو گر نے دور کردیا تھا ان کے پیسے وصول ہوگئے تھے۔

البتہ احمد منیر یہ سب کچھ دیکھ کر اُکتا سا گیا تھا، رہ رہ کر پہلو بدل رہا تھا پھر وہ اُٹھا اور لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ لفٹ سے وہ چوتھی منزل پر پہنچا جہاں پر اس کا روم مخصوص تھا۔ ہوٹل کے گارڈز ہر پل لفٹ میں موجود رہتے تھے اور انتہائی چاق و چوبند۔ ہوٹلوں میں ان دنوں سکیورٹی کے کافی مسائل چل رہے تھے لحاظہ اچھے ہوٹل والوں کوہر راہداری ،ہر گیلری یہاں تک کہ لفٹ میں بھی گارڈز رکھنا پڑتے تھے۔

چوتھی منزل پہ ایک طویل راہ داری تھی، جس میں احمد منیر کے میٹنگ روم کا نمبر اے سٹار ففٹی نائن تھا۔ روم لاک تھا چابیاں اس کے پاس تھیں ، روم کھول کر وہ اندر داخل ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی خوبصورت ڈیکوریڈڈ کمرہ تھا۔ بہت ہی شاندارپردے اور اسی میچنگ کا پیارا قالین۔ چارعدد صوفے آمنے سامنے رکھے ہوئے تھے اور ان کے بیچ میں دو درمیانےسائز کی میزیں۔

وہ کمرنے کا دروازہ بند کرکے پھر ایک صوفے پہ جاکرگر پڑا۔ بوریت نے اسے شاید تھکا دیا تھا، پھر وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

اس کے دماغ میں اسی پراسرار شخص کا وجود لہرانے لگا۔ نہ جانے وہ کون سی بلا تھی جس کو یاد کرتے ہی اس کے وجود میں چیونٹیاں رینگنا شروع ہوجاتی تھیں۔ وہ کافی سخت جان واقع ہوا تھا کیونکہ میڈیا میں کام کرنا اور پھر ساتھ میں رپوٹنگ اور وہ بھی کرائم کے شعبہ میں انتہائی جان جوکھوں والا کام تھا۔ آئے روز اسے دھمکیاں ملتی رہی تھیں مگر وہ اپنے کام کا دھنی تھا لگا رہتا تھا اور مشکل حالات میں بہت بڑی بڑی کرائم اسٹوریز پرائم چینل پر بریک کرتا رہتاتھا۔ مگر اس بار اس کا پالا ایک ایسی چیز سے پڑا تھا جو اس سے اس کی طبیعت کے خلاف بھی کام کروا لیتی تھی۔ اس پر اس کی پراسرار شخصیت کا اتنا خوف طاری تھاکے سر دیوں میں بھی ماتھے پر پسینہ بہنے لگا،اس نے جیب سے ٹشو پیپر نکال کر ماتھا صاف کیا۔ اس کے سامنے اس کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ وہ اب تک معلوم نہ کرسکا تھا کہ اس کے کیا ارادے ہیں اور وہ اس سے کیا کام لینا چاہتا تھا ۔مگر یہ اس کے کا م آتا رہا تھا اور اس نے اسے کافی اہم معلومات فراہم کی تھیں ۔

اتنے میں دروازہ کھلا اور باہر سے ایک شخص نمودار ہوا،اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا یہ وہی تھا جو اب تک احمد منیر کے دماغ کو دیمک کی طرح چاٹتا رہا تھا ۔ جو اس کے وجود کو اندر سے بالکل کھوکھلا کرچکا تھا، وہ ایک دراز قدشخص تھا ، رنگ گندمی، لمبے بال جو شانوں تک پھیلے ہوئے تھے مگر نہایت سلیقے سے ۔نچلا ہونٹ سائیڈ سے تھوڑا ساکٹا ہوا اور اس کی آنکھیں۔۔۔۔ اس کی آنکھیں ہی تو تھیں جو مخالف آدمی کے وجود میں گھڑ جاتی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں مقناطیسی کشش تھی یا وہ زہریلی تھیں ،اسے بیان کرنا مشکل تھا۔ اس نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا، اسکی پرسنیلیٹی میں بہت چارم تھا ، جازب نظر ، دیکھنے والے کو اپنے سحر میں گر فتار کرسکتا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی احمد منیر آٹومیٹک انداز میں کھڑا ہوااور مصافے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔ مگر وہ پراسرار آدمی احمد منیر کو نظر انداز کرتا ہوا ،نہایت پروقار انداز میں چلتے ہوئے سامنے والے صوفے کے پہلو میں بریف کیس رکھتے ہوئے گھوما اور صوفےکے پیچھے آگیااور بڑے اسٹائل کے ساتھ اس نے اپنا اوور کوٹ اتار کر اس میں سے سگار کیس اور لائٹر الگ کیا ، پھر اوور کوٹ صوفے کی پشت پر رکھتے ہوئےگھوم کر بڑی شان بے نیازی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

جبکہ اس دوران احمد منیرقدرےبوکھلائے ہوے انداز میں سر جھکائے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اب ان کے درمیان صرف ایک میز حائل تھی۔اس پراسرار شخص نے کیس میں سے ایک سگار نکالا اسکو لائٹر سے سلگایا ،دو تین گہرے کش لئے اور دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوے اس نے سگار کیس اور لائٹر اپنے پاس رکھ لیا۔ اب وہ احمد منیر کو گھور رہا تھا اس کی آنکھوں میں سانپ جیسی چمک آگئی تھی ۔ پھر وہ گویا ہوا

"چڑیا پھنس گئی۔۔۔۔۔۔۔ کھیل شروع ہوچکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے سانپ کی طر ح پھنکارتے ہوئے کہا۔ جبکہ احمد منیر کو جرات نہیں ہوئی کے وہ اپنی نظریں اس کی مقناطیسی نظروں سے ملا سکتا۔ وہ پلکیں بچھائے اس کے سامنے یوں بیٹھا تھا جیسے اس کا مرید ہو۔

"اس کھیل کی بساط میں نے بچھائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس بساط کا ہر مہرہ میری مرضی سے خانے چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے میں چاہوں گا ویسے ہوتا چلا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ شکاری جب شکار کو پکڑتا ہے تو شکار اپنے بچاؤ کی خاطر خوب تڑپتا ہے ، مچلتا ہے، اپنی جا ن بچانے کی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس وہی تڑپنا، وہی مچلنا ۔۔۔۔۔۔ شکاری کےلئے لطف کا باعث ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور ان لمحوں کی چاشنی بہت تھوڑے وقت کے لئے ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر شکاری اپنے شکار کے پر کاٹ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو کیوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ شکار کو اگر تھوڑا ٹائم اور مل جائے تو وہ پھر ُ ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

پھر اس نے بریف کیس اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا جبکہ اس دوران اس نے سگار اپنے منہ سے لگا لیاتھا اور احمد منیر دم سادھے کن انکھیوں سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا۔

"اس میں تمہارے کام کی اور میرے مطلب کی بہت سی چیزیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ خیال رکھنا اگر تھوڑی سی بھی گڑ بڑ ہوئی تو میں پیادوں کو اپنے ہاتھوں قربان کردیا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

جس دشمن کا شکاری میں بن جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا مرنا لازمی ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جس پیادے پر میں ہاتھ رکھ دوں وہ شاہ بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس شاہ کے خلاف میں بساط سجا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی شاہ مات اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ خاموش ہوا اور اس کا زہر کمرے کی فضاؤں میں معلق ہوگیا۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56779 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More