علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - ساتویں قسط

موت کی فائٹ

"ناظرین اب تک کی سب سے بڑی خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ایک اور بڑی اور اہم خبر۔۔۔۔ کیپٹن فیاض صاحب نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیپٹن فیاض صاحب کا ایک اور کامیاب چھاپا۔۔۔۔۔ جی ہا ں ایک اور کامیاب چھاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی عمران کے گرد قانون کا گھیرا مزید تنگ۔۔۔۔۔۔۔ " پرائم نیوز پر اینکر شازیہ اپنے مخصوص اسٹائل میں سنسنی پھیلاتے ہوئے چیخی۔۔۔۔۔
"کیپٹن فیاض صاحب نے رانا ہاؤس پر میڈیا کی موجودگی میں اب سے کچھ دیرقبل ایک اور شاندار اور کامیاب ریڈ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ علی عمران تو علی عمران اب اس کے شاگردوں اور پرسنل باڈی گارڈز کو بھی دھر لیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ شاباش کیپٹن فیاض شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم کو تم پر فخر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیپٹن فیاض صاحب کو پرائم چینل کی جانب سےبہت بہت مبارک ہو۔ ویل ڈن کیپٹن فیاض ویل ڈن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اینکر شازیہ اپنے انداز میں لگی ہوئی تھی۔ تودوسری جانب جوزف اور جوانا کو گرفتار کرکے انٹیلی جنس والے اپنی اسپیشل ویگن میں ٹھونس رہے تھے۔ جبکہ جوزف چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
"یہ یہ سازش ہے ، ہمیں اور ہمارے باس کو پھنسایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سارا کام اس عامر کا ہے۔۔۔۔۔ یہ سازش ہے میں آپ میڈیا والوں کو بتار ہا ہوں۔۔۔" جوزف چیختا رہ گیا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔
"جی ہاں اور اب سے کچھ دیر بعد فیاض صاحب بھی میڈیا سے بات کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ناظرین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میڈیا کے پاس آچکے ہیں ہم براہ راست آپ کو ان کی طرف لے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ " اس کے ساتھ ہی اسکرین پر دوسرا منظر ابھرا اور اس منظر میں کیپٹن فیاض اپنے ایک انٹیلی جنس آفیسر کے ساتھ رانا ہاؤس کے بہت بڑے آہنی گیٹ کے سامنے کھڑا ہوا تھا جبکہ اس کے سامنے میڈیا چینلز کے مائیکس کی ایک فوج تھی۔ جن پر دیدہ زیب لوگوز لگے ہوئے تھے ،کیپٹن فیاض میڈیا والوں سے کہہ رہا تھا:
"دیکھیں، جو فوٹیج سر داور شہید کی کوٹھی سے غائب ہوئی تھی وہ آج ہمیں اس قلعہ نما عمارت سے ملی ہے۔ وہ فوٹیج ایک ڈی۔ وی۔ ڈی میں ہے جس پر "ٹاپ سیکرٹ " لکھا ہوا ہے ۔ ہم نے اسے جوانا کی نشاندہی پر ایک خفیہ لاکر سے حاصل کیا ہے ،ہم کل اسے عدالت میں علی عمران کے ٹرائل کے دوران پیش کریں گے۔ میں معذرت کے ساتھ آج اسے میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتا۔اس ڈی وی ڈی میں واضح طور پر جرم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، اسے ہم اپنے لیپ ٹاپ پر بھی چیک کیا ہے۔ مکمل تصدیق کے بعد میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کے علی عمران اب بالکل نہیں بچ سکتا۔ ہم نے جوانا اور جوزف کو بھی گرفتار کرلیا ہے جو علی عمراان کے پرسنل گارڈز اور اس کے جرم کے معاونین ہیں۔ کل انہیں ہم عدالت میں علی عمران کے ساتھ ہی پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے رانا ہاؤس کو مکمل سیل کردیا ہے ۔۔۔ شکریہ نو مور کمنٹس اینڈ نو کوئسچنز۔۔۔۔۔" یہ کہتے ہی کیپٹن فیاض تیر کی طرح اپنی انٹیلی جنس والی گاڑی کی طر ف لپکا اس میں سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
سلیمان تھری پیس سوٹ میں ملبوس سیاہ چشمہ لگائے، ریڈ کلر کی اسپورٹس کار کا دروازہ کھول کر نہایت ہی اسٹائلش انداز میں باہر نکلا۔اس کے ہاتھ میں فلیٹ ہیٹ تھی، کار کو لاک کرکے اس نے وہ ہیٹ اپنے سر پر سجا لی اور پھر وہ ہوٹل سٹار سی ون کے آٹومیٹک گلاس ڈور سے اندر داخل ہوگیا۔ وہ جو ں ہی اندر داخل ہوا تو ایک دربان نے جھک کر اسے سلام کیا ،مگر وہ شان بے نیازی سے چلتا ہوا لفٹ میں داخل ہوگیا۔لفٹ نے اسے نویں منزل پر پہنچایا جہاں پر ایک بہت بڑا سوئمنگ پول تھا جبکہ اس کے سائیڈ پر چاروں طرف بہت سی میز یں اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ پول میں بہت سے لوگ نہا رہے تھے، مگر وہ ان سب سے بے پرواہ ،چلتا ہوا ایک میز پر جاکر بہت ہی دلکش انداز میں بیٹھ گیا۔پھر اس نے ہیٹ اتار کر ٹیبل پر رکھ دی، اس کو بیٹھے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے ایک خوب صورت ویٹریس اس کے پاس آئی اور اپنی دلفریب مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگی اور پھر اس نے کہا:
"سر آپ کیا لینا پسند کریں ؟ " سلیمان نے ایک اسٹائل سے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی سے چشمے کو تھوڑا سا نیچے کیا اور پھر دوبارہ چشمہ اوپر کرتے ہوئے روکھے انداز میں کہا:
"ٹولیمن جوس۔۔۔" پھر اس نے بے نیازی سے اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا، ویٹریس نے ایک پل کے لئے برا منہ بنایا اور پھر وہ وہاں سے چلی گئی۔
اتنے میں احمد منیر بھی وہاں آن پہنچا وہ بھی لفٹ کے ذریعے آیا تھا، اس نے وائٹ کلر کا انتہائی مہنگا کُرتا پہنا ہوا تھا۔ وہ تیر کی طرح سلیمان کی طرف لپکا، دونوں نے مصافہ کیا اور پھر احمد منیر اس کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔اتنے میں ایک ویٹر دو لیمن جوس کے گلاس لے آیا جنہیں پھول اور لیمو سے سجایا ہوا تھا۔ اس نے گلاس ان کے سامنے سرو کیئے اور وہاں سے چلا گیا، اس بار ویٹریس نے آنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
"سلیمان صاحب آپ نے ڈیل کا ذکر کیا تھا؟ " احمد منیر نے سلیمان کو یاد دلاتے ہوئے کہا۔ جبکہ اس دوران سلیمان نے اپنا چشمہ اتار لیا کر ٹیبل پر ہیٹ کے ساتھ رکھ لیا۔
اتنے میں سلیمان نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک چپ نکال کر ،احمد منیر کی طرف بڑھا دی۔ پھر اس نے اپنی ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا:
"ڈیل۔۔۔۔" اس کے بعد اس نے اپنے کوٹ کی دوسری جیب سے چیک بُک اور پین نکال کر اس چیک پر پین چلانا شروع کیا اور پھر اسے پھاڑ کر احمد منیر کی جانب بڑھا دیا۔ سلیمان نے دو تین سپ لئے اور بعد ازاں مسکراتے ہوئے بولا "ڈیل۔۔۔۔" اس کو مسکراتا دیکھ کر احمد منیر بھی مسکرایہ پھر اس نے بھی جواباً کہا "ڈیل ۔۔۔" اس کے بعددونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھااور قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
فورسٹار زکے ہیڈ کواٹر کے بلیک روم میں اس وقت ہوٹل سٹار سی ون کا پاکیشیا کا ففٹی پرسنٹ پارٹنر وجاہت عباسی موجود تھا۔ اس سے خاور اور چوہان "گڈ کاپ بیڈ کاپ "کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے تفتیش کررہے تھے۔ ان کے سروں پر ایک بڑا سالیمپ جھول رہا تھا۔ اس روم میں سوائے ایک میز اور تین کرسیوں کے باقی کوئی فرنیچر موجو د نہیں تھا۔ ایک کرسی پر وجاہت عباسی دہشت زدہ بیٹھا تھا جبکہ اس کے سامنے خاور اور چوہان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان ایک میز حائل تھی، اس کے علاوہ اس کمرے میں سائیڈ پر ایک بڑا اور کشادہ شیشہ لگا ہوا تھا جس کے پیچھے ایک کنٹرول روم تھا ،جس میں صدیقی اور نعمانی موجود تھے جو کمرے کی تما م آوازیں اور تصاویر لائیو ایک ایل سی ڈی کی مدد سے دیکھ رہے تھے۔ بلیک روم میں تین ہائی کوالٹی کیمرے خفیہ طور پر نصب تھے ۔اس کے علاوہ میز کے نیچے دو طاقتور مائیک بھی لگے ہوئے تھے۔ نعمانی اور خاور ، وجاہیت کو کوئی دوگھنٹہ قبل اس کی پیلس نما کوٹھی سے بے ہوش کرکے اٹھا لائے تھے اور اب اسے ہوش میں لاکر تفتیش ہورہی تھی۔ٹیبل پر ایک پستول اور ایک موٹے منہ والی پلاس بھی رکھی ہوئی تھی۔
"مسڑ وجاہت اگر تم نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیا تو تمہارے ساتھ وہ سلوک ہوگا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ۔۔۔۔" خاور نے اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔ وجاہت نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ان کے سامنے رونا شروع کردیا۔
خدا کا واسطہ ۔۔۔۔ مجھ پر رحم کرو ،مجھے کچھ معلوم نہیں۔""
"بکواس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم نے اپنی یہ "معلوم نہیں" کی گردان ختم نہ کی تو میں اسی پلاس کی مدد سے تمہارے ہاتھ کی ساری انگلیوں سے ناخن کھینچ لوں گا۔۔۔۔۔" خاور نے میز پر زور سے ہاتھ مارکر دھاڑتے ہوئے کہا۔ وجاہت نے ا یک دم سے اپنے ہاتھ بغلوں میں رکھ کر خود کو سمیٹ لیا، جیسے خود کو بچا رہا ہو۔
"مسٹر وجاہت آپ ہمیں یہ نہیں بتائیں گے کے آپ سر بلیک کوبرا کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ تو چلیں میں آپ کے لئے سوال بدل دیتا ہوں۔ اس رات میٹنگ میں کیا ہوا تھا، جب احمد منیر اور سربلیک کوبرا اس میٹنگ روم میں گئے تھے۔۔۔۔۔" چوہان نے وجاہت کوعزت دیتے ہوئے اسے لائن پر لانے کوشش کی۔
"میں آپ سے کتنی دفعہ کہوں کے مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔۔۔ آپ نے تشدد کرنا ہے تو کرلیں مگر میرا پھر بھی وہی جواب ہوگا۔۔۔۔" وجاہیت عباسی نے اپنے دونوں ہاتھ میز پر ٹیکتے ہوئے،اس بار قدرے تلخ لہجے میں کہا۔
"آپ کو کیا لگتا ہے، مجھے یہاں پر میری خواہش کے بر خلاف اٹھا لانے پر میڈیا والے آپ کو چھوڑدیں گے کیا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھول ہے آپ لوگوں کی۔ ایک شریف آدمی پر ہاتھ ڈالنے سے جانتے ہیں آپ کے ساتھ کیا ہوگا؟۔۔۔۔ آپ لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ میں کوئی معمولی آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیشیا کے سب بڑے ہوٹل سٹار سی ون کا ففٹی پرسنٹ پارٹنر۔۔۔۔۔ جانتے ہیں اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کے میں کوئی کیڑا مکوڑا نہیں ، جس کو آپ جیسے چاہیں مسل دیں۔۔۔۔۔۔۔" وہ ابھی مزید بھی کچھ کہنا چاہتا تھا کے ایک دم سے خاور نے پستول اٹھا کر اس کا ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر اس کے اوپر پستول رکھ ایک فائر کردیا ۔ وجاہت عباسی کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں، اس نے اپنا دوسرا ہاتھ لے جاکر اس کی مدد سے اپنا متاثرہ ہاتھ تھام لیا۔گولی اس کے ہاتھ میں پھنس گئی تھی اور وہاں سے خون بہہ رہا تھا۔
"یو ڈرٹی فول ۔۔۔۔۔۔۔۔" اس کے بعد گالیوں کا ایک طوفان وجاہت عباسی کے منہ سے نکلا مگر ابھی اس کی گالیاں پوری بھی نہیں ہوئیں تھیں کے خاور کاالٹا ہاتھ اس کےمنہ پر پڑا تو اس کے منہ میں سے خون کی پچکاری نکلی اور اسکا منہ الٹ کر دوسری طرف ہوگیا ۔
"شٹ اَپ ۔۔۔ اپنی بکواس بند کرو ورنہ تم مجھے نہیں جانتے میں ٹارچر اسپیشلسٹ ہوں۔ میں جسم کےحساس حصوں پر اگر ایک دفعہ اپناہاتھ چلا دوں تو اس کا علاج کرانا بھی ناممکن ہوتا ہے۔" خاور کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔
"تم تم لوگ جانور ہو۔۔۔ خدا تم لوگوں سے پوچھے گا کے ایک شریف انسان پر ظلم کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔۔۔۔" وجاہیت درد کی شدت سے چیختے ہوئے احتجاج کرنے لگا شاید وہ اس کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔
"شٹ اَپ یو ایڈیٹ۔۔۔۔ اگر اب تم نے اپنے آپ کو شریف انسان کہا تو میں تمہاری زبان اس پلاس سےکاٹ دوں گا۔۔۔۔۔۔" خاور نے پلاس اپنے ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔ وجاہت عباسی بہت بری طر ح سے کراہ رہا تھا۔
"مسٹر عباسی میں آپ کو پہلے کہہ چکا ہوں کے یہ شخص بہت ظالم ہے اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو مجھے افسوس ہے آپ کی چیخیں سن کر یہاں آپ کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔ مگر میرا آپ سے وعدہ ہے اگر آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے تو ہم آپ کی ڈریسنگ بھی کریں گے اور آپ کو عزت کیساتھ آپ کے گھر بھی چھوڑ کر آئیں گے" چوہان نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"مم میں بتاتا ہوں۔ سب کچھ بتاتا ہوں ۔۔۔ لیکن مجھے پپ پانی چاہیے پلیز پانی پلا دو میر احلق خشک ہورہا ہے۔" وجاہت نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے تعاون کے لئے رضامندی ظاہر کی۔
"مسڑ عباسی پانی تب ملے گا جب تم ہمیں کچھ بتاؤ گے۔۔۔۔۔۔ چلو شاباش اچھے بچوں کی طرح شروع ہوجاؤ اب ۔۔۔" خاور نے اسے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا۔
"مم میں سر بلیک کوبرا کے بارے میں تو نہیں جانتا پر آپ کو اتنا بتا دوں وہ وہ احمد منیر کو ایک اسٹوری کی ضرورت تھی اسی لئے اس نے زبردستی ہم سے وہ میٹنگ روم بک کروایا تھا، ہمیں اپنی عزت بہت عزیز تھی لحاظہ ہم نے اسے چند گھنٹوں کے لئے روم الاٹ کردیا۔ بس اس سے زیادہ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔" وجاہت عباسی نے بہ مشکل اپنی بات مکمل کی ، تکلیف کی شدت سے اس کی حالت غیر ہورہی تھی۔ اس کی بات ابھی ختم ہی ہوئی تھی کے خاور نے پلاس اُٹھا کر اس کا الٹا ہاتھ جس میں پہلے ہی گولی پھنسی ہوئی تھی ، اس کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لیکر اس کی پہلی انگلی پر ناخن کی جگہ پلاس رکھ کر بے دردی سے ناخن کھینچ کر الگ کردیا۔ وجاہت عباسی کی بھیانک چیخوں کا ایک نیا شور بلند ہوا اس کی متاثرہ انگلی سے خون کا فوار نکلا اور اس کے ساتھ ہی وجاہت تڑپتا ہوابے ہوش ہوگیا۔
"کافی سخت جان ثابت ہورہا ہے جو انتہائی غیر متوقہ ہے، کیسے دیدہ دلیری سے جھوٹ بول رہا تھا ۔ " چوہان نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"اسی سے لگ رہا ہے کے یہ کتنا شریف انسان ہے۔۔۔۔" خاور نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا جبکہ اس دوران اس نے پلاس ٹیبل پر رکھ دی اور پھر اس نے ٹیبل کی دراز کھول کر اس میں سے ایک تیز دھار خنجر نکال لیا۔ پھر وہ اُٹھا اور آگے بڑھتا ہوا اس کی پشت پر آگیا اور پھر اس نے اس کا ایک کان پکڑ کر نہایت سفاکی سے کاٹ دیا۔ وجاہت عباسی درد سے بلبلاتا ہوا چیخ مار کرہوش میں آگیا۔
"بتاؤ جھوٹ کیوں بولا؟۔۔۔" خاور چلایا۔
"مم مجھے معاف کردو۔۔۔۔ مم میں بتاتا ہوں سب کچھ بتا ہوں۔۔۔۔" ا س سے زیادہ وہ نہ بول سکا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔خاور نےاس بار اس کی ناک پکڑ کر خنجر کی مدد سےبے دردی سے کاٹ دی۔ وہ پھر چیختا ہوا ہوش میں آیا۔ اس کا چہر ہ خون سے لت پت تھا ،وہ اس پل کافی خوفناک لگ رہا تھا۔
"مم میں ایک بلیک میلر ہوں اور میرا دھندہ بڑے بڑے بزنس ٹائکونز کو بلیک میل کر کے ان سے بڑی بڑی رقمیں بٹورنا ہے۔ مم میں شروع سے ہی یہ دھندہ خفیہ طور پر کسی اور دھندے کے ساتھ ملا کرکرتا چلا آیا ہوں۔ اس سے قبل میں ایک شیشہ کیفے کا مالک تھا ، جن کے کیبنز میں میں نے خفیہ کیمرے لگائے ہوئے تھے۔ میرے کیفے پر بڑے بڑے دولت مندوں کے لڑکے لڑکیاں آتے اور غیر اخلاقی فیل میں ملوث ہوجاتے تھے، جن کی ریکارڈنگ کرکے میں انکے امیر والدین کو بلیک میل کیا کرتاتھا۔ وہ والدین اپنے بچوں کی اور اپنی عزت کی خاطر بڑی سےبڑی رقمیں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔مگر ایک دفعہ اتفاق سے ایک آرمی آفیسر کی بیٹی کی ویڈیومیرے ہتھے چڑھ گئی جس کی سنگینی کا اندازہ مجھے نہیں تھا۔ میں نے اسے بھی بلیک میل کرنا چاہا مگر وہ بلیک میل نہ ہوا الٹا رات کے وقت کچھ فوجی دندناتے ہوئے میرے کیفے میں گھسے اور انہوں نے مجھے اٹھا یا اور اپنے ایک خفیہ مقام پر لےگئے۔ وہاں انہوں نے میری جم کر چھترول کی اور پھر تمام بلیک میلنگ سٹف بھی مجھ سے نکلوالیا۔ انہوں نے مجھے وہاں پر کوئی ایک ہفتہ رکھا اور پھر مجھے بے ہوش کرکے ایک کوڑے کے ڈرم میں ڈال گئے۔ اس قسم کی چھترول ہونا اور پھر دھندہ بند ہوجانا میر ے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ میں ایک چھوڑ دوسرا شروع کردیتا تھا۔ جب میرے پاس بہت دولت اکھٹی ہوگئی تو میں نے غیر ملکی دورے کرنا شروع کردیئے۔ ان دوروں کا مقصد کسی موٹی آسامی کو پھنسا کر اس کے ساتھ مل کر اپنی بلیک منی کو وائٹ کر نا تھا، تا کہ میرا شمار بھی پاکیشیا کے معزیزین میں ہوسکے۔۔۔۔" اس کے بعد وہ پھر بے ہوش ہونے ہی والا تھا کے خاور نے زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا تو وہ ہڑبڑا کر پھر سیدھا ہوا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا:
"آج سے چند سال قبل اٹلی کے ایک دورے کے دوران میری ملاقات ایک اطالوی بزنس مین کرنل ولسن سے ہوئی جو اپنے ہوٹلوں کی ایک کامیاب چین چلاتا تھا۔وہ کافی سادہ لوح واقع ہواتھا، اس سے ایک دو ملاقاتوں میں ہی میں نے اسےاپنے جال میں پھنسا لیا اور وہ پاکیشیا میں ایک سیون سٹار ہوٹل کھولنے کے لئے راضی ہوگیا۔ میں نے اس سے سارا خرچاکرواکر پاکیشیا کے سب سے بڑے ہوٹل سی سٹار ون کی داغ بیل ڈالوا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ وہ چونکہ سارا سال یہاں نہیں رہ سکتا تھا اس لئے میں نے کرنل ولسن سے ڈیل کرکے خود کو اس ہوٹل کا ففٹی پرسنٹ مالک بنوالیا اور اس سے کہا کے وہ یہاں سے بے فکر رہے ،یہاں ہوٹل کی دیکھ بھال میں کروں گا اور اسے وہاں سالانہ منافع بھجوا دیا کروں گا۔ اس ڈیل پر وہ بخوشی راضی ہوگیا اور میں نے ایسا ہی کیا ،سالانہ کامنافع اسے لازمی بھجواتا ہوں۔
میں اپنی پرانی عادت سے مجبور تھا، لحاظہ میں نے ہوٹل سٹار سی ون میں بھی پرانا دھندہ پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ بلیک میلنگ کی خاطر میں نے میٹنگ رومز میں اپنے خفیہ کیمرے اور مائیکس لگوادیئے۔ لیکن اس بار میں نے اپنا طریقہ کار قدرے مختلف رکھا، ان کیمروں کی مدد سے سب کچھ ریکارڈ تو ہوجایا کرتا تھا ، مگر میں اس بار ان بڑے بزنس مینوں کی گفتگو سن کر،ان کی کچھ دوسری نوعیت کی کمزوریاں پکڑ کر ،ان پر خود کو ظاہر کئے بغیر ان کی انہی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں مجبور کردیتا تھا کے وہ
میر ے خفیہ اکاؤنٹس میں ہر ماہ بھاری رقوم جمع کرادیں۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھاکے میں ہوٹل سٹار سی ون کا ففٹی پرسنٹ پارٹنر ایک بلیک میلر ہوں۔ لوگ آج تک مجھے معزز سمجھ کر میر ی خوب عزت کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کے وہ بزنس مینز بھی جو میر ے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے ہیں، مگر انہیں اب تک ہوٹل سٹار سی ون کی سروسز سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
خیر اب میں آتا ہوں آپ لوگوں کے اس سوال کی طرف جس کی خاطر آپ لوگوں نے مجھ پر اتنا ظلم کیا ہے۔ لیکن پلیز مجھے دوگھونٹ پانی پلادو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں صدیوں سے پیاسا ہوں۔۔۔۔" وہ بات کر تے کرتے ایکدم خاموش ہوگیا۔ جبکہ گفتگو کے دوران وہ برابر بری طرح سے تڑپ رہا تھا اور مزید تشدد سے بچنے کی خاطر لاشعوری طور پر روانی سے بولے چلے جارہا تھا۔ اس کے سارے انکشافات کیمرے کی مدد سے کنٹرول روم میں رکھے ہوئے ایک ریکارڈر پر باقاعدہ ریکارڈ ہورہے تھے۔
اتنے میں نعمانی بلیک روم میں پانی کا جگ اور گلاس لیکر داخل ہوا اور پھر اس نے وہ جگ اور گلاس میز پر رکھ کر پانی بھرا ا وروجاہت عباسی کے منہ سے لگا لیا۔ وجاہت عباسی طوطے کی طرح بول رہا تھا اور اب وہ مزید اہم انکشافات کرنے والا تھا تو وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کے اس کی چونچ بند ہو لحاظہ انہوں نے اس کی خواہش کے مطابق پانی پلا دیا۔پانی پیتے ہی وہ کچھ بولنے کے قابل ہواتو اس نے اپنی بات پھر شروع کی
"سر بلیک کوبرا سے میری ملاقات کوئی دو ہفتے قبل ہوئی تھی۔ایسا پراسرار شخص میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔اس کی آنکھوں میں ایسا طلسم ہے جو مجھے عمروعیار کی کہانیوں کی طر ح طلسم وادی میں لے جاتا ہے۔آپ یقین کریں،اس کی آنکھوں میں کوئی بہت ہی عجیب بات ہے آدمی دو پل اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتا۔ شاید وہ ماہر ہپناٹسٹ ہے یا پھر وہ کسی اور ہی جزیرے کی مخلوق ۔ لیکن ایک بات کنفرم ہے، اس کے پاس کوئی بہت ہی پراسرار علم ہے جس کی مدد سے وہ ہر انسان کو اپناغلام بنالیتا ہے۔یہی وجہ تھی کے اس نے مجھ سے میرا سب سے خوب صورت فارم ہاؤس جو پاکیشیا کے کیپیٹل کے نواح میں ایک ہل پوائنٹ پر واقع ہے، نہ جانے کیسے لے لیا۔ میں تو جب بھی اس بارے میں جتنا غور کرتا ہوں ،تواتنا ہی الجھتا چلا جاتا ہوں، عقل بالکل ماؤف ہوجاتی ہے۔خیر اس نے مجھ سے وہ فارم ہاؤس لے لیا اور جہاں تک میرا اندازہ ہے، وہ اب بھی وہیں رہائش پذیر ہے، کیونکہ اس کا پتہ نہیں چلتا وہ ایک پل میں یہاں ہوتا ہے تو دوسرے پل میں کسی اور جگہ ۔
اس ہفتے کی رات ،جس رات ہمارا اسپیشل سیچرڈے نائٹ شو ہوتا ہے۔ وہ احمد منیر اچانک میرے آفس میں آگیا اور اس نے شو والے ہال میں ایک سیٹ کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ایک میٹنگ روم کی بھی فرمائش کردی۔ اس کو تو انکا ر نہیں کیاجاسکتاتھا، اتفاق سے ایک بزنس مین بیمار تھا، جس نے فون کر کے اپنی سیٹ پہلے ہی کینسل کرادی تھی۔ تو وہی سیٹ میں نے احمد منیر کے حوالے کردی۔ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کے احمد منیر کی میٹنگ سربلیک کوبرا سے ہونے والی تھی۔ اس بات کا انکشاف مجھے میٹنگ روم کی فوٹیج دیکھ کر ہوا کہ احمد منیر کی ملاقات سربلیک کوبرا سے ہوئی تھی اور اس میٹنگ کی ساری گفتگو کوڈ ورڈز میں تھی ۔ لیکن ایک بات قابل ذکر تھی اور وہ یہ کے اس میٹنگ میں ایک بریف کیس کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ،کسی چڑیا کے پھنسے کا ذکر خیر بھی ہوا تھا، مگر ابھی اس میٹنگ کو بر خاست ہوئے چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کے اگلے دن سر بلیک کوبرا میرے آفس پہنچ گیا اور مجھ سے اس فوٹیج کا مطالبہ کرڈالا جو میرے لئے کسی بم شل سے کم نہیں تھا ۔کیونکہ اس راز کا علم صرف میرے چند مخصوص کارندوں کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا اور وہ میرے اعتباری ہیں، کیونکہ ان کی روزی روٹی بھی اسی سے منسلک ہے ۔ اس بات سے مجھے لگا کے اس کے پاس کوئی پراسرار علم ہے یا وہ کوئی کالا جادو کرتا ہے۔ میں نے وہ فوٹیج بغیر کسی ترد کے ڈیٹا سٹور روم سے ایک ڈی وی ڈی میں کاپی کرکے اس کے حوالے کی اور اپنا ڈیٹا ہمیشہ کے لیے واش کردیا۔ پھر مجھے معلوم نہیں اس نے اس فوٹیج کا کیا کیا، بس اس دن کے بعد میں نے خود کو اس سے دور کرلیا۔ اب وہ جب بھی نظر آتا ہے میں اس سے نظریں بچا کر چھپ جا تاہوں۔ وہ اکثر ہوٹل سٹار سی ون میں آتا جاتا رہتا ہے۔مگر میں اس سے کتراتا رہتا ہوں۔۔۔" وجاہت عباسی کی کراہوں ، سسکیوں اور کرب سے لتھڑی ہوئی لاشعوری گفتگو ختم ہوئی تو نعمانی نے اس سے چند ضروری معلومات لیں تاہم وہ پھر بے ہوش ہوگیا، اس دوران صدیقی بھی بلیک روم میں آگیا تھا ۔
"آزاد کر دو اسے۔۔۔"صدیقی نے کرخت لہجے میں کہا جس کامطلب یہ تھا اسے زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لئے آزاد کردو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
علی عمران ان دنوں انٹیلی جنس بیورو کی کسٹڈی میں تھا۔ اس کا حلیہ ہی بدل گیا تھا ،اس کا شیو بڑھا ہوا تھا اور وہ جسم پر اکثر شال لپیٹ کر رکھتاتھا۔ اس کا خصوصی سیل انٹیلی جنس بیورو کی عمارت کے تحہ خانے میں سب سے الگ تھلگ تھا۔ جبکہ باقی تحہ خانہ وقتی طور پر خالی کرلیا گیا تھا۔ یہاں پر اور بھی سیلز موجود تھے، مگر اب خصوصی طور پر انہیں عمران کی اسکیورٹی کے پیش نظر خالی کرا لیا گیا تھا تاکہ کسی اور کی طرف سے عمران کو مدد نہ
ملے ۔عمران کے سیل میں اسکی نگرانی کے لئے باقاعدہ کیمرے لگے ہوئے ،یہ کیمرے بیک اینڈ پر دس افراد دو ،دو کرکے مختلف شفٹوں میں چوبیس گھنٹے مونیٹر کرتے تھے ۔ عمران کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے وہاں اسکیورٹی ہائی الرٹ تھی، انٹیلی جنس کے کچھ افسران کے علاوہ انہوں نے کوئی دو سوخصوصی تربیت یافتہ افراد حکومت سے منگوائے ہوئے تھے وہ سب کے سب مارشل آرٹس کے اسپیشلسٹ تھے۔ یہاں پر میڈیا سمیت کسی بھی اجنبی شخص کو تحہ خانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس تحہ خانے میں کیپٹن فیاض کے آرڈر کے بغیر کوئی بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کے عمران کی گرفتاری کے بعدکیپٹن فیاض ایک بار بھی عمران کے سامنے نہیں آیا تھا اس نے اپنے دیگر آفیسرز کو عمران سے تفتیش کرنے بھیجا تھا۔
کل عمران کا تاریخ میں پہلی بار فل میڈیا کورٹ ٹرائل تھا۔ اس وقت رات کے آٹھ کا عمل تھا، ثریا عمران کے سیل سے باہر موجود تھی ، سلاخوں کے اندر عمران تھا اور سلاخوں کے باہر ثریا کھڑی روئے چلے جارہی تھی۔
"عمران بھیا! ڈیڈی نے گھر میں مکمل مارشل لاء لگا دیا ہے، آپ کا ذکر کرنا تو ایک طرف کوئی آ پ کا نام بھی نہیں لے سکتا۔ مجھے بھی بڑی مشکلوں سے یہاں آنے کی اجازت ملی ۔ اماں بی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے، ان کی آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔ ان کے آنسو نہیں نکلتے، مزید یہ کے انہوں نے بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ آپ سوچ نہیں سکتے ہم کس قدر کرب سے گذر رہے ہیں۔ میڈیا نے ہمارا جینا مشکل کردیا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں مان سکتی کے آپ نے سرداور کو مارا ہوگا۔۔۔۔۔" ثریا نے اپنا چہرہ اپنے ڈپٹے کے پلومیں چھپایا ہوا تھا۔ اس کی حالت بہت غیر ہورہی تھی اور عمران خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہارتھا۔ ایکدم سے ثریا نے اپنا چہرہ ڈپٹے سے ہٹایا اور عمران کا ہاتھ پکڑکر اپنے سر پر رکھ دیا۔
"آپ کو میرے سر کی قسم سچ سچ بولیں۔۔۔۔۔ بول دیں کے آپ نے سر داور کو نہیں مارا۔۔۔۔۔ بولیں۔۔۔۔۔ آپ کو میرے سر کی قسم ۔۔۔۔۔" ثریا کے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کے دل کا کرب اس کی آنکھوں سے ظاہر ہورہا تھا۔ عمران خاموش تھا اور پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ اس کا بھی قلب تھا، عام انسانوں کی طر ح وہ بھی دھڑکتا تھا ،اس کے بھی احساسات تھے اور وہ بھی اپنی بہن کے آنسو دیکھ کر پگھل سکتا تھا۔ ثریا کچھ دیر اس کو دیکھتی رہی پھر جواب نہ پاکر ، اپنے آنسو پونچے اور اپنا چہرہ اپنے ڈپٹے میں چھپا کر وہاں سے چلی گئی۔عمران نے جب آنکھیں کھولیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ، ثریا کے آنسوؤں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ مگر فوراً ہی اس نے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں، اس کے بعد وہ جاکر زمین پر بیٹھ گیا۔
نہ جانے پھر اچانک تحہ خانے میں کیا ہوا، کچھ افراتفری سی مچ گئی۔ کچھ چہ مگوئیاں ہونے لگیں، پھر وہاں سے تما م اسپیشل فورس جانے لگی اور بعدازاں تحہ خانہ خالی ہوگیا۔ عمران خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا، اسے یہ سب کچھ عجیب وغریب لگا ۔اس کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹے بجادی ۔اسے لگا جیسے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔کوئی بیس منٹ بعد تحہ خانے کا دروازہ کھلا اور کسی کے قدموں کی آواز آنے لگی کوئی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ عمران محتاط اندز میں زمین سے اٹھا اور پھر آہستہ آہستہ سیل کی سلاخوں کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ وہ جو کوئی بھی تھا سیڑھیاں اتر کر اب آرام آرام سے چلتا ہوا عمران کے سیل کی جانب بڑھنے لگا۔سسپنس میں اضافہ ہو رہا تھا،عمران حیران تھا کے ایسا کون ہوسکتا ہے جس کے اعزاز میں پوری اسپیشل فورس تک ہٹا دی گئی ہے۔قدموں کی آواز اچانک رک گئی ، چند لمحوں کے لئے مکمل خاموشی چھا گئی۔ ایسی خاموشی جس نے اعصاب کو شل کردیا۔ ۔۔۔۔قدموں کی آواز پھر سے آنے لگی ۔۔۔وہ چلنے لگا ۔۔۔۔۔۔ چلتے چلتے پھر رک گیا۔۔۔۔۔ ایک قیامت خیز خاموشی ۔۔۔۔ خاموشی پھر اس کے قدموں کی آواز سے ٹوٹی ۔۔۔۔ قدموں کی آواز بھاری ہونے سے عمران نے اندازہ لگایا کے وہ کوئی مرد ہے۔۔۔۔۔۔۔عمران کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا عمران کی نفسیات سے کھیل رہا تھا۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ قدموں کی آواز بالکل قریب آگئی ۔۔۔۔ مگر وہ ہستی ظاہر نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ عمران سے صبر نہ ہوا تو وہ چیخ کر بولا
"کون ہے ؟ اگر کوئی ممی نہیں تو سامنے آئے ڈرتی کیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" اتنے میں وہی پراسرار شخص سر بلیک کوبرا اپنی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ ظاہر ہوا اس کی آنکھوں میں وہی مقناطیسی کشش تھی ۔ علی عمران محض اک پل کے لئے تھوڑا سا حیران ہوا اور پھر وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنے لگا۔دنیا کا وہ شاید پہلا اور واحد شخص تھا جو یوں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھور رہا تھا۔ آج تک جس کی آنکھوں میں مسلسل دیکھنے کی کوئی ہمت نہ کر سکا تھا ،آج علی عمران اسے دیکھ نہیں بلکہ گھور رہا تھا۔
"ہیلو مسٹر علی عمران ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سر بلیک کوبرا کہتے ہیں، اس سارے کھیل کا ماسٹر مائنڈ۔۔۔" سر بلیک کوبرا جو اب اس کے بالکل قریب آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ اس نے علی عمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔دونوں کے درمیان اب صرف سیل کی سلاخیں تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ،گھور کر دیکھ رہے تھے۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دونوں ناقابل تسخیر شخص ایک دوسرے کو اندر ہی اندر تول رہے ہوں۔ کیونکہ سر بلیک کوبرا نے بھی آج تک کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ شاید علی عمران کی زندگی میں وہ پہلا ناقابل تسخیر شخص آیا تھا جس نے محاوراتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اسے تگنی کا ناچ نچا دیا تھا۔ عمران کے بچنے کی اب کوئی قانونی صورت نظر نہیں آتی تھی اور اس سب کے پیچھے سر بلیک کوبرا کا ہاتھ تھا۔ لیکن وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا تھا؟ اس کی وجہ کیا تھا؟ یہ بات تاحال راز تھی ۔وہ نہ جانے کتنی دیر یوں ہی ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔ اندر ہی اندروہ ایک دوسرے کی طاقت کا جائزہ لے رہے تھے۔وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا،جسے لفظوں میں سمیٹنا مشکل تھا۔ ان کی خاموشی میں بہت سے ان کہے پیغام چھپے ہوئے تھے۔۔۔۔ وقت تھا کے جیسے تھم سا گیا ہو۔ تحہ خانے کی ہرچیز سکتے کے عالم میں وہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اس کے درودیوار آج حیران تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں سربلیک کوبرا نے اپنی نظریں عمران سے ہٹائے بغیر خاموشی کو توڑا۔
"مسٹر علی عمران ! تمہیں آج تک اپنے ذہن کو لاک کرنے اور سنگ آرٹ پر بڑا
مان ہے ۔سنگ آرٹ تم نے اپنے چچا سنگ ہی سے سیکھا جبکہ ذہن کو لاک کرنا تمہاری اپنی ایجاد ہے اور تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ آج تک تمہارے اس "مائنڈ لاک"کو کوئی اَن لاک نہیں کرسکا۔ تم جب ایک بار اپنا مائنڈ لاک کرلو تو کوئی تم پر جتنا مرضی تشدد کرلے تم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ،آج تک کوئی تم سے تمہاری مرضی کے خلاف ،کو ئی کام نہیں لے سکا اور نہ ہی تمہاری مرضی کے خلاف تمہارے ذہن سے کوئی معلومات لے سکا ہے۔ اس بات پر تمہیں بہت مان ہے اور اسکی میں بھی قدر کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ لیکن آؤ میں آج تمہارے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں ، میں نے تمہارے مائنڈ کو اَن لا ک کرنے کے لئے ایک اینٹی لاک ایجاد کیا ہے۔ تم اسے اپنے چچا سنگ ہی کے سنگ آرٹ کی طر ح کوبرا آرٹ کہہ سکتے ہو۔ مگر میں اسے کوبرا لاک کہتا ہوں۔۔۔۔" سر بلیک کوبرا نے سانپ کی طرح کی پھنکارتے ہوئے کہا۔تو عمران نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور کہا
"ہوں ۔۔۔۔او کے۔۔۔ اگر تم نے میرے ذہن کو اَن لاک کردیا جیسے تم کہہ رہے ہوتو تمہاری مرضی تم مجھ سے اپنی مرضی کا کام لے سکتے ہو۔ لیکن اگر تم اپنے مقصد میں ناکام ہوئے یا دوسرے لفظو ں میں تمہارا کوبرا لاک اگر میں نے فیل کردیا تو ۔۔۔۔تو جو بساط تم نے میرے خلاف بچھائی ہے وہ تم واپس لپیٹو گے، میڈیا کے سامنے اپنے کئے ہوئے سارے کرائم جو تم نے میرے کھاتے میں ڈلوائے ہیں وہ تم قبول کرو گے اور خود کو قانون کے حوالے کردو گے۔۔۔۔۔ بولو منظور ہے۔۔۔؟؟؟ " علی عمران نے سنجیدہ اور ٹھوس لہجے میں اس کے سامنے اپنا چیلنج رکھ دیا۔سربلیک کوبرا کے چہرے پر انتہائی زہریلی مسکراہٹ ابھر آئی۔
"منظور ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ چیلنج قبول کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اگر میں اپنے لاک میں ناکام ہوگیا تو جو کچھ میں نے تمہارے خلاف کیا ہے ، وہ سب کچھ قبول کرکے میں خود کو قانون اور میڈیا کے حوالے کردوں گا۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تمہارے ملک کا قانون جانے اور تمہارے ملک کی حکومت، وہ جو سزا تجویز کریں گے میں قبول کرلوں گا۔۔" سربلیک کوبرا نے سانپ کی طرح پھنکارے ہوئے کہا ، تاہم علی عمران کی آنکھوں میں اب گہری چمک آگئی تھی اور پھر وہ تن کر کھڑا ہوگیا۔
دونوں ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سر بلیک کوبرا نے علی عمران کو پہلا ذہنی جھٹکا دیا تو عمران کاسر ہلکا سا ہلا اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے دماغ میں پوری شدت کے ساتھ برقی کرنٹ کا جھٹکا دیا ہو اور پھر یہی سلسلہ چل نکلا ۔ عمران اپنا ذہن لاک کرتا ہی تھا ، یاکرنے کی کوشش بھی کرتا تھا کے اس کے ذہن پر شدید نوعیت کا جھٹکا لگتا تو اس کی ساری یکسوئی ٹوٹ جاتی اور پھر اس کو بھرپور ذہنی تکلیف کا احساس ہوتا۔
انسان کا دماغ ہی دراصل انسان کو کنٹرول کرتا ہے، اس کا کھانا ،پینا، سونا، جاگنا،چلنا، پھرنا غرض ہر کام دماغ کے حکم کے بغیر ممکن نہیں ۔ حتیٰ کے انسان کے دل کا دھڑکنا بھی انسان کے دماغ کے کنٹرول میں ہے، وہ حکم دیتا ہے تو انسانی دل دھڑکتا ہے۔ بالکل اسی طرح عمران بھی جو آج تک ناقابل تسخیر رہا تھا اس کی کنجی بھی اس کا دماغ ہی تھا۔ جیساکے عمران کا ایکسٹو ہونا اور پھر اس سے منسلک سیکرٹ سروس کا پورا سیٹ اَپ انتہائی راز داری سے چلنا یہ سب عمران کے زرخیز دماغ کا ہی کرشمہ تھا۔ اسی طر ح عمران کا دنیا کے ہر شخص کی آواز اوار لب و لہجہ مہارت سے نقل کرنا اس کے پیچھے بھی اس کے دماغ کا کمال تھا۔علی عمران کا مارشل آرٹس کے فن میں ایکسپرٹ ہونا بھی اسکے دماغ کی وجہ سے تھا۔ اسی طرح اس کی شخصیت سے جڑے دیگر اور حیران کُن کام بھی اس کے شاطر دماغ کی مرہون منت تھے۔ اپنے اسی نایاب دماغ کی حفاظت کی خاطر اس نے ایک بہترین سائنسی طریقہ ایجاد کیا تھا اور وہ تھا اپنے ذہن کو لاک کرنا ۔ اس نے اسی کی بدولت کئی راز اپنے دماغ میں ہمیشہ کے لئے لاک کرلئے تھے، نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنے دماغ کو لاک کرکے ہر قسم کے تشدد کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔اس لا ک کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دنیا میں کوئی بھی اسے ہپناٹئز نہیں کرسکتا تھا۔ وہ دماغ کو ایک خاص نکتے پر مرکوز کرکے سانس روک کر دماغ سے ہرقسم کا خیال نکال کر اس کو خالی کرلیتا تھا اور پھر یہ عمل جب اپنے نکتہ عروج کو پہنچتا تھا تو عمران کا ذہن لاک ہوجاتا تھا ۔ اس کا آج تک کوئی توڑ یا اینٹی لاک نہیں بنا تھا مگر بلیک کوبرا نے آج اسے فیس ٹو فیس یہ چیلنج دے دیا تھا۔ جس میں درحقیقت مخالف کو سانس روکنے اور اسے کسی خاص نکتے پر ایک خاص وقت تک مرکوز رکھنے سے روکنا تھا۔ بس وہی کام سربلیک کوبرا کر رہا تھا اور وہ تھے ذہنی جھٹکے۔ جس سے ساری توجہ ہٹ جاتی تھی اور عمران اپنا ذہن لاک نہیں کر پاتا تھا۔ علی عمران کے ذہن کو لاک کرنے والے اس حیران کن علم کی چند کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر عمران کوتسخیر کرنے کا ایک فارمولا سربلیک کوبرا نے ایجاد کرلیا تھا ۔ جو کے دراصل ٹیلی پیتھی تھی، جسے سر بلیک کوبرا نے" کوبرا لاک" کا نام دیا تھا۔
ٹیلی پیتھی کی مدد سے عامل اپنی سوچ کی لہروں کو اپنے معمول کی سوچ کی لہروں سے
کیسا تھ ملا کر اس کے دماغ میں گھس کر اس کے ہر قسم کے خیالات پڑھ سکتا ہے ۔ ٹیلی پیتھی ایک ایسا خطرناک ہتھیار ہے کے جس کو ٹیلی پیتھی کے ذریعےاپنا معمول بنا یا جائے اس کا دماغ مکمل طور پر عامل کی مٹھی میں آجاتا ہے اور اگر دماغ ہاتھ میں آجائے تو پورا وجود ہاتھ میں آجاتا ہے ۔ پھر عامل چاہے اس سے خودکشی ہی کیوں نہ کروالے معمول کو وہ کرنی پڑتی ہے ،کیونکہ اس کا دماغ عامل کے کنڑول میں ہوتا ہے۔ اگر عامل کا معمول اس کا دشمن ہوتو وہ ٹیلی پیٹھی کی مدد سے اپنے معمول کو ذہنی جھٹکے بھی دے سکتا ہے۔ اگر عامل چاہے تو وہ اپنی سوچ کی لہروں سے اپنے معمول کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے بلکہ اس کا معمول اپنے ذہن میں سوچ کر اپنے عامل کو جواب بھی دے سکتا ہے۔
یہ ذہنی جھٹکے بظاہر انتہائی کارگر ثابت ہورہے تھے۔ آہستہ آہستہ سر بلیک کوبرا کے ذہنی جھٹکوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ان جھٹکوں کو دیکھا نہیں بلکہ محسوس کیا جاتا ہے ۔یہ ذہنی شاک کوئی مذاق نہیں تھے، اگر اس جیسے بیس پچیس جھٹکے لگاتا ر بھی کسی عام انسان کو لگ جائیں تو وہ شایہ پاگل ہوجائے یا پھر اس کو برین ہیمرج ہوجائے ۔ اگر یہی جھٹکے ایک مخصوص حد سے بڑھ جائیں تو انسان کی موت بھی واقعی ہوسکتی ہے ۔لیکن مقابل میں عمران تھا، جسکے مقابلے پر آکر پہاڑ بھی اپنا راستہ بدل لیتا تھے اور بعض کا خیال تھا کے عمران تو پیدا ہی فتح حاصل کرنے کے لئے ہوا ہے۔
وہ دونوں اپنی ضد کے پکے معلوم ہوتے تھے۔ اب عمران کا چہرہ لال ہوگیا تھا، ذہنی جھٹکے اسی رفتار سے جاری تھے۔ عمران کے جسم کا سارا خون اس کے چہرے پر اکٹھا ہوگیا تھا۔ یہ ذہنی کش مکش اب موت کی فائٹ بن چکی تھی۔ کوئی ہار تسلیم نہیں کررہا تھا، ایسی فائٹ آج تک کسی نے کبھی دیکھی ہوگی اور نہ ہی شایہ آئندہ کبھی کوئی دیکھ پائے۔یہ اپنی نوعیت کی واحد فائٹ تھی جس میں کوئی خون خرابا نہیں ہوا تھا، کمال کامنظر تھا۔ دونوں کی ضد اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ جب پندرہ منٹ گزر گئے تو سر بلیک کوبر ا نے اپنا پینترا بدلا اور جھٹکوں کی رفتار کم زیادہ کرنی شروع کردی ۔ وہ دو ہلکے جھٹکے دیتا تھا تو تین شدید نوعیت کے ، دیکھتے ہی دیکھتے عمران جو دنیا میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اب آہستہ آہستہ ڈھیلا پڑتا جارہا تھا۔ اس کے ذہن میں جھٹکوں کا درد اب ناقابل برداشت ہوتا جارہا تھا۔ لیکن پھر بھی عمران نے ہارتسلیم نہیں کی تھی ، بہت سے لوگوں نے عمران کے برداشت کی آخری حد نہیں دیکھی تھی ۔ کئی لوگو ں کا خیال تھا کے اس کا برداشت کرنے کا مادہ اتنا ہے جتنا سمندر میں پانی کے قطرے ، تو کوئی کہتا تھا اس کے برداشت کی حد وہ ہے جتنا صحرا میں ریت کے ذرے وہ بھی لامتناہی ہیں اور عمران کی برداشت کی حد بھی کوئی نہیں ۔
سر بلیک کوبرا کی یہ نئی حکمت عملی اثر کررہی تھی۔ دونوں کی آنکھیں ابھی بھی ایک دوسرے پر گھڑی ہوئی تھیں اور دماغ ایک دوسرے سے گھتم گھتا تھے۔ وہ پندرہ منٹ آدھے گھنٹے میں بدلے توعمران کی صبر کی وہ حد بھی ختم ہوگئی اور اس نے سرینڈ کر دیا۔ ایک عجیب منظر تھا عمران اپنا سر تھامے اب سیل کے فرش پر گرنے ہی والا تھا کے سربلیک کوبرا نے اس بار ہپناٹزم سے اسے کنڑول کرلیا
"علی عمران تمہارا دماغ اب میرے کنٹرول میں ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو میں کہوں گا تم ویسے کرو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " سر بلیک کوبرا نے گرجتے ہوئے کہا
"ہاں تم جو کہو گے میں وہ کروں گا۔۔۔۔۔" عمران جو شاید فرش پر گر کر ڈھیر ہوجاتا اسے سر بلیک کوبرا نے کنڑول کرکے دوبارہ اپنی آنکھوں میں د یکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
"تم اب میر ے محکوم ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اب سر بلیک کوبرا کے محکوم ہو"
ہاں میں اب تمہارا محکوم ہوں۔۔۔۔ اب میں سر بلیک کوبرا کا محکوم ہوں""
"اب میں تمہیں جو حکم دوں گا ،وہ تم کرو گے۔۔۔۔۔ جو حکم اب تمہیں سر بلیک کوبرا دے گا تم ویسا ہی کرو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بولو کرو گے۔۔۔۔"
"ہا ں جو تم کہو گے میں بالکل ویسا ہی کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سر بلیک کوبرا کہے گا میں ویسا ہی کروں گا"
"میں تمہیں حکم دیتا ہوں کے تم کل عدالت میں جاکر اپنا جرم قبول کرلو گے کے تم نے سر داور کو قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بو لو قبول کرلو گے۔۔۔"
"ہاں میں کل عدالت میں جاکر اپنا جرم قبول کرلوں گا۔۔۔۔۔ کے میں نے ہی سر داور کو قتل کیا ہے۔"
"تم نے انہیں انکی کوٹھی میں قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔ تمارے ساتھ جوزف اور جوانا بھی تھے۔۔۔"
"ہاں میں نے انہیں انکی کوٹھی میں قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور میر ے ساتھ جوزف اور جوانا بھی تھے ۔۔۔۔۔۔"
"میں تمہیں حکم دیتا ہوں کے جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں تم نے بالکل وہی بیان عدالت میں دینا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس کے بعد سربلیک کوبرا عمران کو ہپناٹزم کے ذریعے ہدایات دینے لگا کے وہ کل عدالت میں کیا بیان دے گا۔۔۔۔۔ وہی عمران جو دوسروں کو اپنی انگلیوں پر نچاتا آیا تھا آج خود سربلیک کوبرا کی انگلیوں پر ناچ رہا تھا۔ وہی علی عمران جو پوری دنیا کی سیکرٹ سروسز کے لئے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا آج ہمیشہ کے لئے تسخیر ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56678 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More