کیجریوال کا جن لوک پال

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی جن لوک پال بل 2015 کو لے کر ایک بار پھر میڈیا کے بھر پور چرچے میں ہیں گویا ملک کے سارے اہم مسائل کو نظر انداز کر کے میڈیا ان کے لئے وقف کر دی گئی ہو۔بد عنوانی کے خلاف جن لوک پال کے نام سے جانا جانے والا یہ بل 1968 سے فٹ بال کی طرح سیاست کے میدان میں لڑھک رہا ہے ۔ یہ بل مختلف مرحلوں سے گزرا ہے اور اس میں متعدد بار تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ پارلیمنٹ کے گراؤنڈ میں کل گیارہ دفعہ اس کا میچ کھیلا گیا لیکن بے سود اور بے نتیجہ۔ اس بل کوـ کانگریس کی دور حکومت میں منظوری تو دے دی گئی لیکن عملی طور سے اس کے نفاذ کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ‘ اس کی وجہ چاہے جو بھی رہی ہو حزب مخالف کے سربراہ کی عدم موجوگی یا ایک حما م میں سب ننگے ‘کون بول کر مصیبت مول لے۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس بل کے تئیں مکمل خاموشی کے خلاف نہ کسی میڈیا نے اور نہ ہی کسی بلند بانگ سیاسی کھلاڑی نے اعتراض جتایا۔ لگتا ہے سب دل ہی دل میں اپنے جذبات دبائے رہے اورکہا جاتا ہے کہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ اس لئے جب دہلی کے ودھان سبھا میں اس بل کو متعارف کرایا گیا ہے تو ان کے دبے ہوئے جذبات آتش فشاں کی طرح پھوٹ پڑے اور انھیں اپنی مجرمانہ خاموشی پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ اس بل کی مخالفت میں جن چہروں کو آگے کیا گیا وہ بھی کبھی انا ہزارے کی قیادت میں اسی سوراج ابھیان اور عام آدمی پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔

اس بل کی جن شقوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے وہ سلیکشن کمیٹی اورجن لوک پال کی برخاستگی سے متعلق ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی 2014 میں جو بل پیش کرنے والی تھی اورجس کی مخالفت کانگریس اور بی جے پی نے ایک ساتھ مل کر کی تھی‘ اسی 2014 کی بل کو بنیاد بنا کر کانگریس اور بی جے پی کے چٹے بٹے میدان میں کود پڑے ہیں۔ 2014 میں جو بل پیش کیا جانے والا تھا اس میں سلیکشن کمیٹی 7 اراکین پر مشتمل تھی۔ ایک وزیر اعلی‘ ایک حزب مخالف کا سربراہ‘ دو عدالت عالیہ کے جج‘ ایک جن لوک پال کے سابق چیئر پرسن اور دو معروف ریٹائرڈ سرکاری عہدیداران جو عدالت عظمی یا عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ جج بھی ہو سکتے تھے‘ فضائیہ ‘بحریہ یا فوج کے چیف بھی یاکوئی سول آفیسر۔ اس طرح 7رکنی یہ کمیٹی ایک آزاد کمیٹی تھی جس میں صرف دو سیاسی رہنما شامل تھے۔ اس نئے بل میں سلیکشن کمیٹی 4 اراکین پر مشتمل ہوگی جو تین رکنی جن لوک پال کی تشکیل کرے گی۔ان4 اراکین میں ایک وزیر اعلی ‘ ایک حزب مخالف کے سربراہ ‘ ایک دہلی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر اور ایک دہلی عدالت عالیہ کے چیف جج ہوں گے تو گویا اس میں کمیٹی میں 3 سیاست داں شامل ہو گئے۔ چوں کہ اسپیکر بھی برسراقتدار پارٹی کا ہوتا ہے اس لئے اس کمیٹی کی خود مختاریت پر بھی فرق پڑے گا۔ اسی طرح اس بل پر ایک اعتراض یہ وارد ہو رہا ہے کہ جن لوک پال کے برخاست کرنے کا جو طریقہ اس بل میں ذکر کیا گیا ہے وہ 2014کے پیش کردہ طریقے سے بالکل مختلف ہے۔ اس بل کی رو سے لوک پال کو اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی منظوری سے برخاست کیا جا سکتا ہے جب کہ2014 میں عدالت عالیہ کو یہ اختیا دیا گیا تھا کہ وہ شکایت اور معاملے کی جانچ کے بعد لوک پال کو برخاست کر سکتی تھی۔

عام آدمی پارٹی نے ان دونوں اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ دو ریٹائرڈ معروف اور نامی گرامی سرکاری عہدیداران کی سلیکشن کمیٹی میں عدم شمولیت کی نوبت اس لئے آئی کہ اس سے عدالت عظمی کے فیصلے کی خلاف ورزی ہو رہی تھی کیوں کہ این جے اے سی کیس میں عدالت عظمی نے بالکل واضح طور پر نامی گرامی شخصیتوں کو سرکاری قرار دیا ہے۔ البتہ عام آدمی پارٹی نے جج کی تعداد2کے بجائے ایک کرنے اور لوک پال کے سابق چیئر پرسن کی عدم شمولیت کا کو ئی تشفی بخش جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عام آدمی پارٹی جس کی بنا ہی بد عنوانی کے خلاف جنگ ہو اور جس نے بد عنوانی ثابت ہونے پر اپنے ایک اسمبلی کے رکن کو پارٹی سے بے دخل کردیا ہو‘ اتنی جلدی اس پارٹی کی نیک نیتی پر شک کیا جانا غیر مناسب ہے جب کہ دوسری ساری پارٹیاں بدعنوانی اور دوسرے بہت سے سنگین جرائم کے معاملات میں پوری طرح سے ملوث ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ قانون عام آدمی پارٹی صرف اپنے دور حکومت کے لئے نہیں بنا رہی ہے بلکہ پوری دہلی کے لئے بنا رہی ہے اور ہمیشہ کے لئے بنا رہی ہے۔ لوک پال کی برخاستگی سے متعلق شق میں عام آدمی پارٹی نے وہی طریقہ اپنایا ہے جو چیف جسٹس کی برخاستگی کا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کو ملک کا سب سے غیر جانبدار اور خود مختار مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسمبلی کے دو تہائی کی بہ نسبت ایک آدمی کے غلط ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور آئے دن ہمیں ججوں کے خصوصی سمت میں میلان کا احساس ہوتا رہتا ہے۔

اس بل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس جن لوک پال کا صدر یا رکن کسی پارلیمنٹ یا اسمبلی کا ممبر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا رکن ہوسکتا ہے۔ اگر وہ رکن ہے تو اسے پہلے جماعت سے مستعفی ہونا پڑے گا۔جن لوک پال کو پانچ سال کے لئے منتخب کیا جائے گا۔ دہلی کے اندر جو بھی بدعنوانی کے معاملات ہوں گے ان سب کی جانچ یہ لوک پال کرے گی اس میں دہلی پولیس اور ڈی ڈی اے شامل ہیں۔ اس صورت میں دہلی اور مرکز کا ٹکراو یقینی معلوم پڑتا ہے لیکن یہ ٹکراو مثبت ہو تواس سے ایمانداری اور شفافیت کو فروغ ملے گا۔ سب سے اہم بات جو اس لوک پال کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ جن لوک پال کو اپنی جانچ مکمل کرنے لئے جو مدت دی گئی ہے وہ چھ مہینے سے لے کر زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کی ہی ہے ۔ مقدمہ کے لئے جن لوک پال کا ایک خصوصی ادارہ بھی ہوگا جو جن لوک پال کے ہی ما تحت ہوگا۔ جن لوک پال بل میں سزا کا بھی تذکرہ ہے جس میں سب سے زیادہ سزا عمر قید کی ہے ۔ بدعنوانی سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے نقصان کے پانچ گنا تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے ۔ مجرموں کو چھ مہینے سے لے کر بارہ سال تک کی جیل بھی ہو سکتی ہے۔ جن لوک پال کو پرائیوٹ کمپنیوں کے افسران کو بھی سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ چوں کہ انسان کا کوئی بھی کام کمال کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے وقتا فوقتاً اس کی اصلاح کی کوشش ہوتی رہنی چا ہئے اور اسی قسم کا عندیہ عام آدمی پارٹی نے بھی دیا ہے۔ بد عنوانی کے خاتمے کے لئے اب سب کی امیدیں اس قانون کے نفاذ سے وابستہ ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ جس طاقت اور شدت کے ساتھ یہ قانون آیا ہے کیا اسی طاقت اور شدت کو اس قانون کے لاگو کرنے میں بھی استعمال کیا جائے گا؟
Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 10690 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.