2018ء تک 30 ہزار میگاواٹ بجلی کا پیدا کر دینے کا دعویٰ ا ک خواب ہی نظر آتا ہے

2018ء تک مزید 18 ہزار 34 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونا ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ اس طرح وزارت پانی و بجلی کی جاری کردہ وضاحت اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیر پانی و بجلی اپنے تحریری بیان میں 2018ء تک نیشنل گرڈ میں ممکنہ طور پر داخل ہونیوالی مجموعی بجلی 25 ہزار 790 میگاواٹ بتارہے ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی کی وضاحت میں 2018ء تک کی مجموعی بجلی 30 ہزار میگاواٹ ظاہر کی جارہی ہے۔ اگر خواجہ آصف کے بقول بجلی کے 43 میں سے 14 پراجیکٹ مکمل بند پڑے ہیں اور کام کرنیوالے 21 پراجیکٹس کی پیداوار پچاس فیصد سے بھی کم ہے تو پھر کوئی معجزہ ہی ترجمان وزارت پانی و بجلی کا 2018ء کیلئے بیان کردہ 30 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا دعویٰ پورا کر پائے گا
 آن لائن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 2018ء تک بجلی بحران پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا۔ انکے بقول حکومت نے بجلی کے بلوں میں چھ مختلف ٹیکس عائد کر دیئے ہیں جبکہ کوئی بھی خودمختار کمپنی سو فیصد بجلی پیدا نہیں کررہی۔ اس وقت شہری علاقوں میں چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں آٹھ گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ صنعتی علاقے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 21 منصوبے پچاس فیصد سے کم پیداوار دے رہے ہیں اس لئے یہ بالکل ناممکن نظر آرہا ہے کہ حکومت 2018 ء تک بجلی بحران پر قابو پالے گی۔ انکے بقول 2018ء میں بجلی کی طلب 25 ہزار 790 میگاواٹ اور پیداوار 18 ہزار 34 میگاواٹ ہوگی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت کے دور میں صرف 18 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں داخل کی گئی ہے جبکہ بجلی کے 43 میں سے 14 پراجیکٹ بند پڑے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ توانائی منصوبوں کے ماسٹر پلان میں 18ویں نمبر پر ہے جبکہ خواجہ آصف نے اپنے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت اب تک صرف 18 میگاواٹ اضافی نیشنل گرڈ میں شامل کرپائی ہے۔ بجلی پیدا کرنیوالی نجی کمپنیوں کے حوالے سے جو تفصیلات پیش کی ہیں اس میں 2018ء تک مزید 18 ہزار 34 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونا ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ اس طرح وزارت پانی و بجلی کی جاری کردہ وضاحت اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیر پانی و بجلی اپنے تحریری بیان میں 2018ء تک نیشنل گرڈ میں ممکنہ طور پر داخل ہونیوالی مجموعی بجلی 25 ہزار 790 میگاواٹ بتارہے ہیں جبکہ وزارت پانی و بجلی کی وضاحت میں 2018ء تک کی مجموعی بجلی 30 ہزار میگاواٹ ظاہر کی جارہی ہے۔ اگر خواجہ آصف کے بقول بجلی کے 43 میں سے 14 پراجیکٹ مکمل بند پڑے ہیں اور کام کرنیوالے 21 پراجیکٹس کی پیداوار پچاس فیصد سے بھی کم ہے تو پھر کوئی معجزہ ہی ترجمان وزارت پانی و بجلی کا 2018ء کیلئے بیان کردہ 30 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا دعویٰ پورا کر پائے گااس لئے بجائے اسکے کہ توانائی بحران حل کے معاملہ میں حکومتی دعوئوں کی بنیاد پر قوم کو مزید بے وقوف بنایا جائے‘ بہتر یہی ہے کہ اصل حقائق من و عن قوم کے سامنے رکھ دیئے جائیں اور وہ مجبوریاں بھی بتا دی جائیں جن کے باعث توانائی کے بحران کو حل کرنے کا قوم سے کیا گیا وعدہ اب تک حکومت پورا نہیں کرسکی۔ کیا اس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے توانائی کے گھمبیر بحران پر ہی سیاست کی تھی اور وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف مینار پاکستان کی گرائونڈ میں ایک ماہ تک ٹینٹ لگا کر بیٹھے رہے تھے جو وہیں پر سرکاری اجلاسوں میں دستی پنکھا جھلتے پیپلزپارٹی کی حکومت کو کوسنے دیتے رہے جبکہ بطور اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف بھی بجلی بحران کیخلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے عوام کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ قوم یقیناً بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عاجز آئی ہوئی تھی اس لئے اس نے لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کے دعوئوں اور وعدوں پر اعتبار کیا اور 2013ء کے انتخابات میں انہیں مینڈیٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اس وقت میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے بھی پہلے ملک میں اقتصادی دھماکہ کرنے کا اعلان کیا اور اس مقصد کیلئے توانائی کا بحران اپنی حکومت کی ترجیح اول بنایا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے چین کا دورہ کرکے وہاں ایٹمی بجلی‘ شمسی توانائی اور تھرمل پاور پلانٹس کے متعدد معاہدوں اور ایم اویوز پر دستخط کئے اور ملک واپس آکر قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ توانائی کے ان معاہدوں اور ملک میں موجود توانائی کے وسائل بشمول تھرکول اور ہائیڈل پراجیکٹس کے ذریعہ ہم پچاس ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرکے پاکستان کو بجلی برآمد کرنیوالے ممالک کی صف میں شامل کردینگے۔ میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اب تک چین کے علاوہ ترکی‘ فرانس‘ قطر‘ کویت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی توانائی کے حصول کے متعدد معاہدے اور ایم او یوز کرچکے ہیں مگر قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے خلاصی کیاملنی تھی‘ اب گیس کی لوڈشیڈنگ بھی بھگتنا پڑ رہی ہے جبکہ حکمران مسلم لیگ (ن) توانائی کا بحران حل کرنے کے دعوے پر بدستور سیاست کررہی ہے۔ پہلے قوم کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کا وقف مقرر کیا جاتا تھا اور دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اس وقت تک قوم کو لوڈشیڈنگ سے خلاصی مل جائیگی مگر وہ وقت قریب آتے ہی پینترا بدل جاتا اور نیا وقت مقرر کرتے کرتے وزیراعظم نوازشریف نے قوم کو 2018ء تک توانائی کے بحران سے نجات دلانے کی امید کے ساتھ باندھ دیا۔ اب توانائی کے بحران کے حوالے سے اصل حقائق سامنے آرہے ہیں تو انکی روشنی میں 2018ء کے بعد بھی قوم کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات ملتی نظر نہیں آرہی جبکہ اس وقت موسم سرما میں بھی قوم شہری علاقوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بارہ بارہ گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ برداشت کررہی ہے۔ موجودہ حکومت نے پیپلزپارٹی کے دور کے رینٹل پاور پلانٹس کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اور انہیں سفید ہاتھی قرار دے کر سابق حکمرانوں کیخلاف کرپشن اور کک بیکس کی داستانیں نکالیں۔ اسکے برعکس خود حکومت نے توانائی کے نئے منصوبوں کیلئے رتی بھر بھی پیش رفت نہ کی جبکہ اب نندی پور پراجیکٹ سابق حکومت کے رینٹل منصوبوں ہی کی طرح موجودہ حکومت کے گلے پڑا نظر آتا ہے۔ اور اب وزیر پانی و بجلی کے تحریری بیان میں توانائی کے بحران کی جو اصل تصویر دکھائی گئی ہے وہ قوم کے مقدر میں مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اقتدار کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ظاہر کررہی ہے اگر حکومت سنجیدگی کیساتھ بجلی کے ہائیڈل منصوبوں پر توجہ دیتی تو اب تک قوم کو وافر مقدار میں سستی بجلی ملنے کی راہ ہموار ہوچکی ہوتی مگر کالاباغ ڈیم کے علاوہ حکومت نے کسی دوسرے ڈیم کیلئے بھی کوئی عملی پیش رفت نہیں کی۔ اب کالاباغ ڈیم توانائی کے مجوزہ نئے منصوبوں کا پھر سے حصہ بنادیا گیا ہے جس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ حکومت اپنے اقتدار کی مدت ختم ہونے تک اب قوم کو کالاباغ ڈیم پر سیاست میں پھر الجھائے رکھنا چاہتی ہے جس کی تعمیر کی ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پھر مخالفت ہو گی تو حکومت توانائی کا بحران ختم نہ کر پانے کا یہ جواز پیش کردیگی کہ ہمارے مخالفین نے ہمیں کالاباغ ڈیم تعمیر ہی نہیں کرنے دیا ورنہ اب تک قوم کو توانائی کے بحران سے نجات مل جاتی۔ حکمرانوں کو اب اس معاملہ میں آگاہ ہو جانا چاہیے کہ قوم اب محض وعدوں‘ دعوئوں اور بلیم گیم کی سیاست پر مطمئن نہیں ہو سکتی۔ اسے حکومت کی جانب سے توانائی کے بحران کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے نظر آنے چاہئیں‘ بصورت دیگر عوام آئندہ انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو بھی پیپلزپارٹی کے انجام تک پہنچا دینگے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 304705 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More