رہنمائی کی اہلیت سے عاری حکمران

قبل مسیح میں سکندر ایران پر حملہ آور ہوا ۔ اسے اپنی فوج کا کچھ حصہ مقدونیہ میں انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے چھوڑنا پڑا۔ جس کے بعد صرف پینتس ہزار فوجیوں کا دستہ اِس کے پاس باقی بچا جس کے ساتھ وہ ایران پر حمہ آور ہوا۔ ایرانی فوج کے مقابلے میں یہ انتائی کم فوج تھی۔ اِس کمی کے باوجود سکندر ایرانی فجو کو شکست دیتا چلا گیا۔ اِس کی کامیابی تین وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ سکندر کے والد فلپ کی تیار کردہ فوج ایرانی فوج سے کہیں زیادہ تربیت یافتہ اور منظم تھی۔دوم سکندر ایک غیر معمولی اہلیت کا سالار تھا۔ غالباً تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو۔ سوم اِس کی ذاتی شجاعت مندی نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ پچھلی صفوں سے ہر مرحلے پر اپنی فوجوں کی رہنمائی کرتا لیکن اپنے خاص سواروں کے رسالہ کی وہ خود قیادت کرتا۔ یہ ایک بہت ہی پرخطر اقدام ہوتا جس میں وہ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوا لیکن اِس کے رسالے کو حوصلہ رہتا کہ اِس نقصان میں وہ اپنے حصے کا پورا کردار ادا کر رہا ہے۔وہ کبھی اِن سے ایسا خطرہ مول لینے کو نہیں کہتا تھا جس سے وہ خو د نہ گزر سکتا ہوَ اِس اخلاقی مثال کا اثر بے پایاں تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا جنگجو بننے کی خواہش رکھنے والے سکندر نے پوری دنیا کو روند ڈالا۔ اور تینیتس سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ سکندر کی کہانی کا مقصد یہاں یہ بتا نا مقصود ہے کہ ہمیشہ وہی سچا قائد گردانا جاتا ہے کہ وہ جس کے پیروی وہ اپنے لوگوں سے چاہتا ہو اُس پر خود بھی پورا اُترئے۔افعال اور اقوال کا تضاد قوموں کو تباہ برباد کر کے چھوڑتا ہے۔ ہمارئے معاشرئے کا المیہ اِس وقت یہی ہے کہ ہمارئے اوپر مسلط ہوئے ہوئے حکمران خود پر کوئی قانو ن لاگو نہیں کرتے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی رعایا تابعداری کرئے۔ مذہبی طبقے نے عبادات کو رسم بنا ڈالا ہے۔ اور مذہب کی روح افعال کو فراموش کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر آن ہر لمحہ مذہب و قوم و ملت سے محبت کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر وہی جھوٹ لوٹ مار ٹیکس چوری،زنا ، ڈاکے چوریاں،قتل، سود خوری، رشوت سفارش عما ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہمارئے حکمران جس طرح سکند رنے کیا وہ خود پر کچھ نافذ نہیں کرنا چاہتے۔ جس کی وجہ سے سماجی معاشی تقسیم عروج پر ہے۔نبی پاک ﷺ کا رحمتِ دوعالم ہونا اور قیامت تک آپﷺ کا ہی نبی ورسولﷺ قرار پانا درحقیقت عظمت مصطفے ﷺ کی دلیل ہے کہ جس طرح ہمارا رب یکتا ہے اِسی طرح جس نبی پاکﷺ کی غلامی کا دعویٰ مسلمان کرتے ہیں وہ بھی اپنے تمام تر کمال میں بالکل یکتا اور بے مثال ہے۔نبی پاک ﷺ کی رحمتیں سارئے جہانوں پر ہیں اور نبی پاکﷺ کو اﷲ پاک نے قاسم کے رُتبے پر سرفراز فرمایا ہے کہ نبی پاکﷺ اﷲ پاک سے لے کر تقسیم فرماتے ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ایک رب ایک نبیﷺ ایک قران کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور نبی پاکﷺ نے ہمیشہ اپنے پرائے سب کے لیے دُعا فرمائی۔جس سال نبی پاک ﷺ کو بہت ہی عظیم صدمات سے گزرنا پڑا یعنی آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرتِ خدیجہ ؓ کا وصال اور آپ ﷺ کے شفیق چچا جنابِ ابوطالبؓ کا وصال ہوا ۔ اِس دور میں جب کہ آپ پر غم کے پہاڑ گر پڑئے۔آپ ﷺ وادی طائف میں تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو مشرکین آپ پر سنگ باری کرتے ہیں آپ ﷺ لہو لہان ہو جاتے ہے حتی کہ آپ کے نعلین مبارک میں خون بھر جاتا ہے۔اﷲ پاک فوراً جبریل امینؓ کو بھیجتے ہیں اور وہ آکر کہتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو پوری طائف کی وادی کو نیست و نابود کردیتے ہیں لیکن آقاکریمﷺ فرماتے ہیں کہ نہیں میں تو رحمت ِ عالم ہوں اِن لوگوں کو نہیں پتہ کہ میں اُن کا کتنا خیر خوا ہ ہوں-

دین اسلام کی حقانیت کے حوالے سے تو سب مسلمان عقیدت و احترام کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں لیکن یہ عقیدت در حقیت صرف زبانی کلامی ہے۔نبی پاکﷺ سے محبت کا دعویٰ اور اِس عقیدت اور محبت کا یہ عالم کہ یہ عقیدت عمل میں نہیں ڈھل پارہی۔مسلمانوں کی سابقہ تاریخ عدل وا نصاف کے عظیم ستونوں پر کھڑی ہے اور موجودہ حالات میں مصر، افریقہ کے دیگر ممالک، لیباء، شام، فلسطین نوحہ کناں کیوں ہے۔ وجہ صرف یہ ہی ہے کہ اﷲ سے محبت اور نبی پاکﷺ سے محبت کا دعویٰ اخلاص سے خالی ہے مطلب یہ کہ یہ دعوئے عمل میں نہین ڈھل پارہے۔مثال کے طور پر اگر ہم کسی مرض میں مبتلا ہیں اور اُسکی شفایابی کے لیے دوائی ہمارئے ہاتھ میں ہے اور ہم چیخو پکار کر رہے ہوئے کہ مجھے تو آرام ہی نہیں آیا تو ہر ذی شعور شخص یہ ہی کہے گا کہ آپ نے تو دوائی تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے جب تک دو ا استعمال نہیں کریں گے تب تک مرغ کا تریاق کیسے ہوگا۔مسلم اُمہ خصوصاً پاکستانی قوم کا بھی حال مریض جیسا ہے کہ رب،نبی پاکﷺ اور قران پاک سب کچھ اُمت کے پاس ہیں لیکن یہ صرف عقیدت کی حد تک ہیں یہ عقیدت عمل میں نہیں ڈھل پا رہی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمل کیسے ہو۔ موجودہ نفسا نفسی کے دور میں ہم نے ہر اُس رسم اور عادت کو اپنا رکھا ہے جس کی وجہ سے کردار سازی و تربیت ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معاشرئے کے ہر شعبے کے دیوالیہ پن نے آج ہمیں اُس مقام پر لاکھڑ کیا ہے جہاں پر ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔کسے بدلیں گئے حالات ۔علماء، اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء، تاجر تو معاشی حثیت کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں تو پھر کو نسی ایسی قیادت قوم کو میسر آسکتی ہے جو کہ کھوئی ہوئی میراث واپس لا سکے۔ جو اطیوا ﷲ و اطیوالرسولﷺ کی کسوٹی پر پوری اُترتی ہو۔جو جعلی ڈبہ پیروں کے چنگُل سے آزاد ہو۔ جس کی سوچ کے تانے بانے صرف اُمت کی یکجہتی سے وابستہ ہوں۔جو بھی پارٹی اِس وقت سیاست میں ہے خواہ وہ مذہبی جماعتیں ہیں یا اُن کا انداز سیاست لبرل ہے ۔سب اِس وقت عہدوں کے لالچ میں ہیں۔نام نہادعلماء اور سیاسی رہنماء جب پروان چڑجاتے ہیں تو تب اُن کے اندر ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں انہیں انسانیت سے دور اور مادیت کے نزدیک کر دیتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ بدترین منافقت کی چکی مین پس رہا ہے اور ہم ہیں کہ خوابِ غفلت میں ہیں۔ حکمرانی کے دعوئے دار طبقے کی اپنی اخلاقی جرات صرف اتنی ہے کہ وہ گدھ کی طرح اپنی ہی عوام کو نوچ رہے ہیں۔اِس وقت نوکر شاہی نے سرکاری دفاتر کا جو حال کیا ہے اَس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری ملازم اپنی مرضی سے دفتر آتے ہیں اور جس وقت دل چاہے چلے جاتے ہیں اور تو اور جب جی میں آجائے تو کئی کئی روز دفتر کی صورت نہیں دیکھتے اور پھر ایک دن تشریف لاکر پچھلے کئی دنوں کی اکھٹی حاضریاں لگ جاتی ہیں ۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ نام نہاد ورکرز رہنماء اور یونین کے نمائندئے ایسے ملازمین کو سپورٹ کرتے ہیں۔ وکیل اور انسانی حقوق کا ایک کاکارکن ہونے کے ناطے اکثر مختلف دفاتر میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ ضلع کچہری لاہور میں ائے ڈی سی کے ڈسپیچ کلرک کا رویہ اتنا عجیب اور ہتک آمیز ہوتا ہے کہ خدا پناہ۔ اگر سائل وہاں کوئی درخواست جمع کروانے جاتا ہے تو موصوف اُس سے اِس طرح سلوک فرماتے ہیں جیسے وہ کوئی نچلی ذات کا کوئی شودر اور دلت ہے اور جناب خود برہمن ہیں۔ اگرکوئی سائل اپنی جمع کروائی ہوئی درخواست کا پتہ کروانے چلا جاتا ہے تو اُس کو درخواست کا سٹیٹس بتانے کی بجائے سو طرح سے زچ کرتے ہیں اور واپس بھیج دیتے ہیں ۔ اِس ساری رام کہانی اور بدترین سلوک کے پیچھے صرف ایک ہی عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ جناب جیب کو ہلکا کریں۔ ایسا سب کچھ میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں کہ ڈسپیچ پر بیٹھا ہوا کلرک کس طرح سائلین کو گدھ بن کر نوچ رہا ہے۔کسی بھی تھانے میں اگر ایف آی آر درج کروانے کوئی سائل جاتا ہے تو اُس کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا ہے اِس سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ واقعی خادم اعلیٰ کی گڈ گورنس عروج پر ہے۔ سائل اپنی ایف آئی آر کو بھول کر اپنی جان بچا کر گھر واپس آجاتا ہے اورخون کے آنسو روتا ہے کہ اِس معاشرئے میں پولیس مظلوموں کے ساتھ کس طرح سلوک کرہی ہے۔ اِس بات کی گواہی سیشن کورٹ میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمہ درج کروانے کے لیے درخواستیں زیر سماعت ہیں کس طرح لوگ عدالتوں کا دروازئے کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں اور عدالتوں میں بیٹھے اہلکار جن میں ریڈر اہملد، سٹینو اور چپڑاسی اور تعمیل کنندگان اِس طرح تاک لگائے ہوتے ہیں کہ کوئی سائل بھی خرچہ دئیے بغیر نہ جائے۔ جو جج اپنے ماتحت چار پانچ لوگوں کو راہ راست پر نہیں رکھ سکتا اُس نے رعایا کو کیسے انصاف دلانا ہے اُس نے عوام کی جان کا تحفظ چوروں ڈاکوؤں لٹیروں سے کیسے کروانا ہے۔سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے ہلکان ہی اِس لیے ہوا جاتا ہے کہ نہ تو کام کرنا پڑئے اور اوپر سے حرام کی کمائی سے قبر کو بھاری کیا جاسکے۔اِسی طرح محکمہ صنعت پونچھ ہاوس میں سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت این جی او وغیرہ کو رجسٹرڈ کرنے والا دفتر ایسا ہے کہ وہاں کے اہل کار منہ سے پیسے مانگتے ہیں اور پیسے نہ دینے کی صورت میں برسوں ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ یہ ہی وہ دفتر ہے جو مساجد کی رجسٹریشن کرتا ہے۔محکمہ تعلیم کا دفر واقع ہال روڈ کا عملہ ہر کام کے لیے منہ مانگے دام لیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سرکاری دفاتر اِن اہلکاروں کی فرنچائز ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر گدھ کا روپ دھار کر مردار کھانے کے لیے اپنی دکان پر آتے ہیں اور غریب مجبور عوام کو نوچتے ہیں۔ پٹواریوں نے محلے میں اپنے دفاتر اِس طرح کھول رکھے ہیں جیسے وہ سرکاری دفتر نہیں ہیں بلکہ اُن کا آباواجداد کی جانب سے ملنے والی وراثت ہے۔ رات گئے دفاتر کھول کر بیٹھے رہتے ہیں اور معمولی کاموں کا بھی لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں کام جائز ہے یا ناجائز انھیں سروکار صرف اپنی قبر کو بھاری کرنے سے ہے۔پٹوراریوں کی دفاتر اسٹنت کمشنرکے دفاتر میں ہی ہونے چاہیے اور دفتری اوقات کے علاوہ اُنھیں علحیددہ سے پرائیوٹ دفتر کے طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں چاہیے۔یہ صرف چند سرکاری محکموں کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ پورا آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ہر شاخ پہ الو بیتھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا۔ہسپتالوں سکولوں کی حالت ِ زار کی وجہ بھی سرکاری اہلکاروں کی رشوت خوری کی لت ہے ۔ اور یہ ہوس اِس لیے بڑھتی جارہی ہے کہ نوکر شاہی اِس میں اُن کی حسے دار ہے اور حکمران کیونکہ خود کسی قانون قاعئے کو خاطر میں نہیں لاتے اِس لیے سرکاری اہلکار بھی اپنے ناخداؤں کی پیروی کرتے ہوئے دولت اکھٹی کر رہے ہیں۔ حالانکہ جو لباس ابدی طور پہ سب نے پہننا ہے اُس میں جیب ہی نہیں ہے۔کیا ایسے حکمران جو اپنی قوم کے لے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں اُن کو حکمرانی کا حق ملنا چاہیے۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 388929 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More