لیڈر شپ کا امتحان

دنیا کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات میں لیڈر شپ کا کڑا امتحان آن پڑا ،ایک وقت تھا ایک موضوع پر کئی دن بات ہوتی تھی ،آج چوبیس گھنٹوں میں بیسیوں واقعات ہو جاتے ہیں اور ان واقعات سے جنم لینے والے عوامل پر ردِ عمل, لیڈر شپ کی آزمائش ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آزمائش میں سختی آجائے گی۔

پاکستان کو ہی لے لیجیے! پاکستان کی لیڈر شپ پر بھی کڑا وقت ہے ۔

پاکستان داخلی اور خارجی محاذوں پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔حکمران جماعت, تحریکِ انصاف کی دھرنا سیاست سے بمشکل نکل پائی تو گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری کے منصوبے پر ملکی اور غیر ملکی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔نا معلوم وجوہات کی بناپر حکومت منصوبے پردوسری سیاسی جماعتوں اور صوبوں کا مطلوبہ اعتماد حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے ۔چاروں صوبوں کے متفقہ منصوبے پر بد اعتمادی کی فضا ختم کرنے کے لئے نواز شریف کو صرف احسن اقبال پر انحصار کرنا یا اُن کے ذریعے غیر واضح پالیسی کی نامناسب تشریح کافی نہیں ہے ۔نواز شریف کو اس منصوبے پر نہ صرف چاروں صوبوں بلکہ فوج کی حمایت بھی حاصل ہے تو پھر وہ مبہم پالیسی اپنانے سے گریز کیوں نہیں کر رہے ؟بدلتے حالات میں جب کہ غیر ملکی قوتیں بھی اس وطن دوست منصوبے کو ناکام کرنے کے در پے ہیں ،فوری اور دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنا نواز شریف کے لئے ایک اور بڑا امتحان ہے۔اگرچہ نواز شریف اس میدان میں اچھّے کھلاڑی بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر بوجوہ انہیں درکار کامیابی مل نہیں سکی۔ وہ مسئلہ کشمیر کا آبرو مند حل بھی چاہتے ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی کوشش کی جو ناکام ہوئی ۔اب وہ پھر اس محاذ پر ’’ کچھ کرنے ‘‘ کا ارادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس کا اشارہ لیفٹینٹ جنرل (R ) عبدلقادر بلوچ نے دیا ہے۔۔۔۔ان دو محاذوں کے علاوہ پہلے سعودی ،یمن اور اب دعودی ، ایران تنازعہ میں وہ اپنا دامن بچاتے نظر آرہے ہیں ،کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ وقت بتائے گا ۔ مگر ان کی سیاسی فہم کا ایک اور امتحان ہے ۔اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے کہ تمام ’’ نازک معاملات ‘‘ میں ان کا عمل دخل وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیئے،پھر بھی ان پر کڑا وقت یوں ہے کہ وہ پاکستان کو اس بین الاقوامی تنازعہ سے کس حد تک دور رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

انڈیا کی قیادت کا بھی کڑا امتحان ہے ، بدلتے حالات میں انڈیا ،پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش میں کاری ضرب پٹھانکوٹ کے واقعہ نے لگائی ہے۔انڈیا ایک بڑا ملک ہے ، مگر اس کی لیڈر شپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ساتھ چھوٹی یا بڑی عسکری مہم جوئی کسی طرح بھی اس کے مفاد میں نہیں ۔مودی سرکار کو اپنی پرانی سوچ سے نکل کر نئی دنیا کے تناظر میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔پٹھانکوٹ کے واقعہ پر محتاط سرکاری ردِّ عمل نے مودی سرکار کے نقطۂ نظر کی بڑی حد تک وضاحت کر دی ہے ۔آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی نہ کرنے کی پالیسی میں پختگی دونوں ممالک کے حق میں بہتر ہو گی۔

اس واقعہ پر بھارتی دباؤ کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی رہنما کی گرفتاری پر کیا ردِّ عمل سامنے آتا ہے تو وہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو گا ۔انڈیا کے حوالے سے یہ ضرورکہا جا سکتا ہے کہ اسے مطمئن کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔

سعودی عرب ،شاہ عبد اﷲ کی وفات کے بعد پے در پے مشکلات کا شکار ہے ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ شاہ سلمان کا بڑھاپا اور نوجوان قیادت پر ان کا اعتماد ہے ۔جس کی مثال شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کی دی جاتی ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 29 سالہ جارحانہ رویہ رکھنے والے محمد بن سلمان پر شاہ کا بہت اعتماد ہے اور یمن کی مہم جوئی انہیں کے مشورے سے ہوئی۔سعودی عرب ، امریکہ ، ایران اختلافات کے باعث امریکہ کے بہت قریب تھا مگر ان اختلافات میں کمی آنے اور ایٹمی معاہدے کے بعدوہ نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔ اسی تناظر میں34 ملکی ایک اتحاد کا آج کل بڑا چرچا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک اہم ملک ہے اور بدلتے حالات میں اس کا کردار بڑھتا جا رہا ہے ۔اس کے عسکری سپہ سالار نے جس جرأت کے ساتھ اپنے اور پاکستان کے امیج کو بین الاقوامی سطح پر بہتر کیا ہے اس کے مشرق و مغرب میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔اسی لئے سعودی عرب پاکستان کو مجوزہ اتحاد کا ایک اہم رکن بنانا چاہتا ہے ۔ اسی سلسلے میں نو جوان سیاسی قائد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا ہے۔پاکستان کا رویہ اسی سلسلے میں محتاط ہے اور عسکری و سیاسی قیادت کا ایک ہی بات پر اتفاق نظر آتا ہے۔سعودی عرب کی لیڈر شپ کا بھی کڑا امتحان ہے جس میں کامیابی کے لئے سیاسی فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

ایرانی قیادت کو بھی سارے محاذو ں پر بے ہنگم پَر پھیلانین کی بجائے منظم اور مؤثر پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ آج کوئی بھی کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا جب کہ ایران اپنی حدود کو تجاوز کرتے ہوئے ادھر اُدھر چھیڑ خوانی سے بعض نہیں آتا۔ مکہ اور مدینہ کے مقامات مقدسہ سے تمام مکاتب فکر کا جذباتی لگاؤ ہے اس لئے وہاں چھیڑ چھاڑ مناسب نہیں ۔امن و امان بہتر کرنے کے لئے ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ امن دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے اور یہی سعودی عرب نے یہی کیا ہے ۔اس پر پاکستان سمیت کسی کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔

ترکی کی قیادت کو بھی شام، روس کے ساتھ بے مقصد محاذ آرائی سے گریز کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیئے۔ترکی اور پاکستان کا کردار سعودی، ایران تنازعہ میں ایک مصالحت کار کا ہونا چاہیئے۔

مغربی قیادت کو بھی مسلمان دشمن رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ مسلمانوں کو کچل دینے سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔اس سے مسلمانوں میں بے چینی بڑھتی ہے اورانتقامی ردِّ عمل سامنے آجاتا ہے۔

پوری دنیا کے حکمرانوں پر اس وقت کڑا امتحان ہے ۔سیاسی فہم و فراست کے فیصلے ہی انہیں سرخرو کریں گے وَرنہ ساری دنیا آتش و آہن کی لپیٹ میں آجائے گی۔
Tariq Javed Mashhadi
About the Author: Tariq Javed Mashhadi Read More Articles by Tariq Javed Mashhadi: 24 Articles with 24070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.