مسلم اقلیات بھی تو اپنے ہیں

 اگر چہ اس وقت مسلم اکثریتی ممالک بھی خاصی زبوں حالی کے شکار ہیں،فکری ونظریاتی طورپر فرسودگی کا عنصربھی غالب آیا چاہتاہے،فرقہ واریت اور تشدد کے بھی مسائل ہیں،لیکن مسلم اقلیات میں کس مپرسی اور ڈس انفارمیشن کی وجہ سے یہ صورت حال دوبالا ہے، غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کی طرف عالم اسلام کی فوری توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ اقلیتیں غیر مسلم اکثریت میں ضم ہوکررہ جائیں گی، اور ان کی اسلامی تہذیب و تمدن غیر مسلموں کی الحادی تہذیب وتمدن کے سیلاب میں بہہ جائیں گی۔ ان مسلم اقلیتوں کی پرانی نسلوں نے ایک زمانے تک اپنے عقائد و روایات کا تحفظ کیا ہے۔ مگر نئی نسلیں جنہوں نے غیر مسلم معاشرے میں پرورش پائی ہے،یہ لوگ وہیں پلے بڑھے ہیں اور اسی ماحول میں پروان چڑھے ہیں، قریب ہے کہ اپنے آبائی دین اور اپنے عقائد وروایات سے منحرف ہوجائیں ، اور ممکن ہے کہ دین حنیف کو عملی طور پر بھی یکسر پسِ پشت ڈالیں۔

لہٰذا اس سے قبل کہ وہ اسلام سے مزید منحرف ہوں،بے گانے ہوں، ان میں صحیح اور معتدل اسلامی شعور اجاگر کرنے کے لئے اکثریتی مسلمانوں کو ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ یہ اقلیتیں عملی طورپر میدان میں اپنی بقاء کا تحفظ کرسکیں۔ عالم اسلام پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ مسلم ماحول سے دور اِن مسلم اقلیتوں کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے میں ان کی مدد کریں جس کے ذریعے ان کو درپیش مشکلات، نئے نئے پیش آنے والے مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔ اور ان کی نئی نسل کو الحاد اور بے دینی کے پنجوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اﷲ تعالیٰ سے مددمانگتے ہوئے اور قرآن کریم سے ہدایت لیتے ہوئے اب مسلمانوں کو اپنی جدوجہد شروع کردینے میں ذرہ بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک روشن چیز(نبوۃ) آئی ہے، اور ایک کتاب واضح کہ اس کے ذریعے سے اﷲ ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں، اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔ (مائدہ:141)۔
اب ہم مسلم اقلیات کی پرانی اور نئی نسل میں فاصلہ، بُعد اور دوری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجودہ حالات کی تفصیل میں جاتے ہیں: اس بُعد کا اصل سبب دو مختلف نظریات (قدامت پسندی اور جدت پسندی) کا پیدا ہونا ہے۔ نئی نسل میں پیدا ہونے والی نظرئیے کی اس خطرناک تبدیلی کی وجہ سے والدین اپنی اولاد کے دینی مستقبل کے بارے میں نہایت فکرمند ہیں۔ انہیں اس کا احساس ہورہا ہے کہ ان کی اولاد کا جدید طرزِ زندگی اختیار کرنے کا اصل سبب دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ہے۔ اس کے ازالے کے لئے انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ دین کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مساجد قائم کی جائیں، لوگوں کی اصلاح کے لئے منظم ہوکر کوشش کی جائے اور دینی وعربی تعلیم کے لئے مدارس کھولے جائیں۔ یہ فکر واحساس مسلمانوں کا اپنے دین کی طرف پہلا قدم تھا۔

یہاں دینی تعلیم اور عربی زبان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے کوئی اچھی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ مگراس میں مسلمانوں کی کوتاہی کا زیادہ دخل نہیں۔ بلکہ تحصیل علم کے لئے مناسب عوامل کا فقدان اس کا بڑا سبب ہے۔ اگر ہم مسلم اقلیات کے بچوں کو کئی لاکھ فرض کرلیں تو انہیں عربی ودینی تعلیم والے چند سے زائد اساتذہ نہ ہوں گے۔ اگر ہم ذرہ غور وفکر کریں اور ان غیر مناسب عوامل میں ماہر اساتذہ کی قلت، جدید طریقۂ تعلیم کے لئے وسائل کا فقدان اور بچوں کی سوچ وشوق کے مناسب کتابوں کی عدم دستیابی کو بھی شمار کرلیں توعدم مطابقت کے اس ماحول میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم میں حائل رکاوٹیں صاف نظر آجائیں گی اور اس کا اندازہ بھی ہوجائے گا کہ مسلمانوں کی نئی نسل کی دینی وعربی تعلیم کا کتنا نقصان ہورہا ہے۔ کچھ عوامل کا تو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ مثلاً جدید وسائلِ تعلیم، ماہر اساتذہ اور ذوق وشوق کی کتابوں کی عدم دستیابی وغیرہ۔

انہی عدم دستیاب وسائل میں سے مدارس دینیہ ہیں۔ اسے قائم کرکے اس میں دینی تعلیم وتربیت ہو جن سے مسلمانوں کی دینی وثقافتی حاجات پوری ہوسکیں۔ ورنہ عالم اسلام سے دور دراز علاقوں میں بسنے والے مسلمان دینی ومذہبی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ نیزضروری ہے کہ اسلامی ممالک میں چند اِیسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں غیر مسلم ممالک کے لئے مبلغین کی خصوصی تعلیم کا انتظام ہو۔ ان مبلغین کو ایسے شہروں میں بھیجا جائے جہاں کی زبان میں یہ مبلغ مہارت رکھتے ہوں۔ تاکہ وہ آسانی سے اور مؤثر طریقے سے مقامی طلبہ کو ان کی زبانوں میں تعلیم دے سکیں۔ اسی طرح انہیں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرایا جائے۔ تاکہ وہ اسلام کے خلاف باطل خیالات کو مضبوط دلائل سے رد کرسکیں۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ ان اداروں کے لئے مسلم اقلیتوں کے نوجوانوں کا انتخاب کیاجائے، تاکہ وہ اپنی ملکی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ خود کو دینی تعلیم کی تحصیل کے لئے فارغ کرلیں اور پھر اپنے ملک میں جاکر دین کی دعوت اور تعلیم وتربیت کے لئے باقاعدہ جدوجہد کریں۔ دینی تہذیب و ثقافت کی اشاعت کے لئے ذرائع ابلاغ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اقلیاتِ مسلمہ کے لئے مخصوص اخبارات ،رسائل اور جریدوں کی ضرورت ہے، جن میں ان کے حالات ،ملی وحدت کی تبلیغ اور ان کے دینی شعور وجذبات کا اظہار ہو۔ چند مخصوص رسائل ایسے ہوں جن میں مسائل شرعیہ کی تفصیل اور اسلام کی بنیادی باتوں کی وضاحت ہو۔ اسی طرح غلط اور باطل افواہوں ، ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈوں کا توڑ ہوسکے۔ شریعت محمدیؐ کے حق ہونے کو ثابت کیا جاسکے اورہر فرد کی فکری وعملی رہنمائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رہنمائی آپس میں تعلق اور مضبوط ملی وحدت کا ذریعہ بنے گی اور معاشرے میں انہیں ایک بلند واعلیٰ مقام حاصل ہوگا۔

اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ نئی نسل کے لئے جن کارابطہ عملی طور پر عالم اسلام سے تقریباً منقطع ہوگیا ہے، ایسی کتابوں کے ترجمے کرکے شائع کئے جائیں جو دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور معاملات پر مشتمل ہوں۔ ایسے کتب خانے اور ویب سائٹس قائم کئے جائیں جن میں تمام بنیادی اور ضروری دینی کتابیں مہیا ہوں۔ ان کے ساتھ ایسی سماعت گاہوں یا چینلوں کی ضرورت ہے کہ جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے الگ الگ وعظ اور نصائح کی محافل کا انعقاد کیاجائے۔

اس وقت مسلم خاندانوں کے لئے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی بھی ایک بہت ہی دشوار مسئلہ بن گئی ہے۔ والدین اپنی دینی روایات کے مطابق اس بات کے خواہاں ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادی مسلم گھرانے میں ہو، پچھلے لوگ تو اس کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ لڑکے کے لئے مسلم لڑکی اور لڑکی کے لئے مسلم لڑکے کو تلاش کیاجائے مگر اب حالات کچھ اور ہیں، کیونکہ اقلیات میں پرورش پانے والی نئی نسل مسلمانوں کے مقابلے میں دیگروں سے زیادہ قریب ہیں۔ نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنے لئے لڑکی کا انتخاب کریں اور جب خود انتخاب کرتے ہیں تو وطن جدید کی لڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بعض مسلم لڑکیاں بھی غیر مسلموں سے شادی کرلیتی ہیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔

بہرحال مسلم اقلیات پر کئی حوالوں سے توجہ کی ضرورت ہے،اللہ کرے ہم اپنے یہاں تبلیغی جماعتوں پر پابندیوں کے بجائے دعوت وتبلیغ میں اگر کہیں کوتاہیاں ہیں،تو ان کی اصلاح کریں،کیونکہ یہ ایک فریضہ ہے۔
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816611 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More