امہ زبوں حالی کاذمہ دار کون؟

یمن ہویاعراق،شام ہو کہ لبنان،فلسطین ہو یا افغانستان ، بوسنیا ہو یا چیچنیا ،برما ہو یا فلپائن ، غرض جہاں بھی خون ِمسلم کی ارزانی ہو،اس پر خاموش رہنا،یا خوش ہونا ،یا خاکم بدہن اس خونریزی میں کسی بھی طرح آلۂ کا ربننا ،مسلمان کیاکوئی باضمیر انسان سوچ بھی نہیں سکتا ،نیز ان حشر بداماں اور ہولناک مسلم کش جنگوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے ، ان کے سدّ باب کیلئے اپنی بساط بھر کو ششیں کرنا بھی اہل اسلام کا تو فریضہ ہے ہی ،عالمی برادری اور مہذب اقوام کا بھی یہ فرض بنتاہے ، اس وقت شام ویمن کی جو صورت حال ہے ،یا اب تک رہی ہے ،سب کے سامنے ہے ، قیامت کی ان گھڑیوں میں بدقسمتی سے عالم اسلام ، عرب ممالک ، اقوام متحدہ بالخصوص ترکی ، ایران ،پاکستان ،سعودی عرب ،مصر ،روس ، چین ،امریکا اور یورپی یونین نے کوئی قابل ذکر اور قابل فخر کردار ادا نہیں کیا، یا یوں کہاجائے، کہ نہ کرسکے ۔مسلم ممالک تو ظاہر ہے بوجوہ بے بس ہیں ،غیر مسلم بڑی طاقتوں نے یا تو سنگین مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا،یا پھر ان کے اپنے مفادات بھی اس قسم کے ہوتے ہوں گے ، کہ وہ اس حوالے سے کوئی کردارِ امن ادا نہیں کرسکتے تھے۔

دوسری طرف اس ترقی یافتہ دنیا میں بھی کچھ بیماریاں اور امراض ایسے ہیں، جن کا علاج آج تک ناپیدہے ، میڈیکل ماہرین شبانہ روز محنتیں کررہے ہیں ،کہ ان لاعلاج امراض کا کوئی پائیدار علاج تلاش کرسکیں ، مگر تا ہنوزنہ دارند، تو انہوں نے وقتی طور پر اس کے لئے سکون آور دوائیں تجویز کی ہیں ،جن کی مدد سے کچھ نہ کچھ ان خطرناک بیماریوں کی شدّتِ درد کو قرار آجائے ،یہ بیماریاں بعض اوقات کسی ایک انسان کے جسم میں ہوتی ہیں ، اور بعض اوقات یہ انسانی جسم خود اس بیماری کے جراثیم کے بطور کام کرتے ہیں ،اور ہر زمان ومکان میں یہ انسانیت کے لئے خطرہ بنے رہتے ہیں ،جب بھی یہ ’’جراثیمی نوعِ انسانی ‘‘سراٹھاتاہے ،اسکے سامنے پوری انسانیت لرز اٹھتی ہے اور کانپ جاتی ہے ۔

جیسے فرد لاعلاج اور موذی مرض سرطان کے سامنے بے بس ہوتاہے ، اور اعزہ واقرباء ، حکماء اور اطباء کے ہوتے ہوئے ایڑھی رگڑ رگڑ کرمرتاہے ، ایسے ہی یہ انسانی جراثیمی سرطان جس کا نام ’’انتہاء پسندی ‘‘ ہے ،دنیا کے حکمراں ہو ،یا عالم اسلام کے باگ ڈور سنبھالنے والے، ان کی طب اور میڈیکل میں اب تک اس بیماری یعنی کوتاہ نظری کا علاج دریافت نہیں ہواہے ،تو انہیں خامخاہ کیلئے کوسنا بےکارہے ،ان پر جرح وتنقید بھی سود مند نہیں ہے ،ان کی کردار کشی سے بھی امہ کی کوئی بھلائی نہیں ہوگی۔کاش ہم انتہا پسندی اور کوتاہ بینی کے بجائے وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ایک دوسرے کو برداشت کرتے،تو آج ہماری یہ دگرگوں حالت کبھی نہ ہوتی۔

ہم نے سوشل میڈیا میں دیکھاکہ مسلم حکمرانوں کو نااہلی پر کافر ومرتد قرار دیاجارہاہے ، ترکی ،ایران، مصراور سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہودی قرار دیاجارہاہے ،بعض نے توبادشاہتوں تک کو کفر قرار دیاہے ،حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور طالوت سب کے سب نصِّ قرآنی کے مطابق ملوک اور بادشاہ ہی توتھے ،انبیاء میں بھی نبوت کاتوارث ہواہے ، حضرت محمدعربی ﷺ ،حضرت عیسی ؑ،حضرت موسیؑ،حضرت یوسف ؑ،حضرت یعقوب ؑ،حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیلؑ یہ تمام کے تمام ابوالانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد نہیں تو اورکیاہیں ؟

پھر یہ بھی دیکھاجائے ،کہ ایک طرف دشمنوں کی جانب سے امت پر آتش وآہن کی بارش ہو،او ردوسری طرف ہم جوخود بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ، دشمنوں کا مقابلہ کسی بھی وجہ سے نہیں کرسکتے ،الٹاہم اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کی کردار کشی کریں ، ان کے خلاف مہم چلائیں ، ان کو نیچا دکھانے کی وہ مساعی نامسعود کریں ،جن سے متعدد روایات کے مطابق سختی کے ساتھ پرہیز کا حکم ہے، یہ کہاں کی منطق ہے؟ کیا اس طرح امت کے اس گروہ کو کمزور کرنے میں ہم دشمن کاساتھ نہیں دے رہے ؟

بوسنیا، چیچنیا، افغانستان ، عراق وشام ، لیبیاوسوڈان سب جگہ مسلمان یاتوجہاد کررہے ہیں ، جہاد میں تو یہ سب ہوتاہی ہے ، یا پھر وہ مظلوم ہیں ، تو جیسے وہ مظلوم ہیں ،اس طرح پورا عالم اسلام اس وقت مظلوم اور بے بس ہے ، تو کیا جب مظلوم ظالم کاہاتھ نہ روک سکے ،تو اپنے ہی مظلوم ساتھیوں جو قدرے سلامتی سے ہیں پرتیروتفنگ کی بارش کریں ، کہ تم کیوں سلامت ہو، ارے بھائی،کیا آپ نے نہیں سنا؟’’ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری ضعیفی کی داستان صدیوں پر محیط ہے ،اب دنیا نے ترقی کی ، ہمیں بھی سرکھجا نے کا موقع مل گیا، توہم نے خوش فہمی میں آکر اپنے آپ کوطاقتور تصور کرلیا، اسباب وآلات کے ماتحت ہم آج بھی غلامی کے دور کی طرح کمزور اور ضعیف ہیں، البتہ روحانی لحاظ سے آسمانی طاقت اور نصرتِ خداوندی سے ہم قوت حاصل کرسکتے ہیں اور فرشتے بھی گردوں سے ہماری مدد کو اتر سکتے ہیں قطار اندر قطار، لیکن کیا امہ کی اکثریت کے اعمال وافعال اور ایمان میں وہ کشش ہے، جو اﷲ کی مدد کو کھینچ لائے ؟کیامساجد میں حاضری اور فقراء ومساکین کی داد گیری قرونِ اولی کی طرح ہے ؟ یقین نہ آئے ،توذرہ آج جاکر نوحہ کناں مساجد کا وزِٹ کیجئے او ریتیم،یسیر،اسیر،فقیر،بیوہ اور کسی بھی مفلوک الحال انسان کا حال معلوم کیجئے ، روزِ روشن کی طرح امہ کے ایمان وعمل کا اندازہ ہوجائے گا۔

اس قسم کے احوال۔ قبل الہجرہ وبعد الہجرہ۔ سیرت نبوی ﷺ میں بھی ملتے ہیں، اس وقت اہل اسلام نے ایک دوسرے پر کیجڑ نہیں اچھالے ، نہ ہی باہمی دست وگریباں ہوئے، بلکہ وہ سب اﷲ کی طرف راجع وراغب ہوئے ، اس مافوق الطاقۃ والقدرۃ ذات سے التجائیں کیں ، گڑگڑا ئے ،دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کرقنوتِ نازلہ وغیرہ میں آہ وزاری کر کے دعائیں مانگیں، تو اس قہاروجبار نے ایسی نصرت فرمائی کہ دنیا محوِ حیرت ،اوروقت کے ظالم وجابرلوگ انگشت بدنداں رہ گئے، آج بھی وہی خدا ہے ، وہی خالق ہے ، وہی ہم اس کی مخلوق ہیں ،آئیے ہم سب باہمی طعن وتشنیع کے بجائے بارگاہِ إلہی میں اپنے آپ کو منوائیں،اپنے آپ کو اس لائق بنائیں کہ اپنی ذات اور امہ کے حق میں ہماری دعائیں قبول ہوں،تاکہ ہم خود بھی اور پوری امہ امن وسکون پاسکیں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816747 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More