دہشت گردی ختم مگر کیسے

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو براہ راست دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے پاکستان کی معیشت ،اس سے بری طرح خراب ہوئی ہے اور دوسری طرف ماضی میں یا حال میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست رہاہے عالمی سطح پر دہشت گردی کو بلا وجہ اسلام سے جوڑا جاتا ہے جبکہ اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے سب سے زیادہ لوگ غیر مسلم ہی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دنیا کے غریب ممالک کو استعمال کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال ان تمام دہشت گرد تنظیموں کی امریکی سر پرستی ہے جو پور ی دنیا میں اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لئے ایسے مذموم منصوبے بنانے میں ماسٹر ہے عالمی سطح پر اس بحث کا سلسلہ جاری ہے کہ انتہاء پسندی کی وجوہات کیا ہیں اور یہ انتہاء پسندی کب تشدد کا روپ دھار کر دہشتگردی میں بدل جاتی ہے جبکہ اس کا سدباب کیونکر کیا جا سکتا ہے اور کیا محض طاقت کے استعمال سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے یا اس کے علاوہ بھی بعض اقدامات کی ضرورت ہے اس حوالے سے دنیا بھر میں کئی بحث مباحثے ہوتے رہتے ہیں پر تشدد انتہاء پسندی میں مقامی اور بیرونی عوامل کار فرما ہوتے ہیں دونوں عوامل کو روکنے کیلئے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے معاشی محرومی پسماندگی اور ناانصافی جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے حق خود ارادیت سے انکار اور ناانصافی کو دہشتگرد اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں عالمی برادری نے دہشتگردی کے خلاف جامع حکمت عملی کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے مگر اس پر کام کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے پاکستان ہمیشہ سے ہی اس دہشت گردی کا ایک تو شکار رہاہے دوسرا اس نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی ہے معاشی محرومی اور ناانصافی کو ختم کرکے دنیا سے دہشتگردی کو ختم جا سکتا ہے سیاسی مفادات کیلئے دیگر مذاہب اور ثقافت کی جان بوجھ کر کردار کشی بدقسمتی ہے پاکستان ہمیشہ سے ہی پر تشدد انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرتا رہا ہے دوسرے مذاہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کو بدنام کرکے اور خوف کو ابھار کر سیاست چمکانے والے بے اصول سیاستدانوں کو روکنے کی ضرورت ہے مغرب میں غیر ملکیوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ نفرت کی بڑھتی لہر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں میں اسلام دشمنی عام ہے وہ اپنے کیے کرائے کو اسلام سے جوڑ دیتے ہیں یہ سوچے بنا ہی کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ان کے ہی ممالک ہیں جو اپنے زرا سے فائدے کے لئے دنیا کہ کئی معصوم ملکوں کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہے ہیں بدقسمتی سے کوئی اس پر غور نہیں کررہا اس سے انتہاء پسندی کو فروغ ملتا ہے انتہاء پسندی اور دہشتگردی کسی ملک نسل مذہب یا ثقافت یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا بھی قابل مذمت ہے عالمی برادری کو تسلیم کرنا ہوگا کہ سب کچھ ان کے قومی اور بین الاقوامی اقدامات کا رد عمل ہے غیر ملکی قبضوں کے دوران ناانصافیاں حق خود ارادیت دینے سے انکار طویل عرصہ سے حل نہ ہونے والے تنازعات اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جس سے انتہاء پسندوں اور دہشتگردوں کو اپنے الٹے سیدھے نظریات کا پرچار کرنے کا موقع ملتا ہے اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرے یقینا عالمی برادری کو اب ان تمام اقدامات پر توجہ دینی ہوگی جو انتہاء پسندانہ رویوں کا باعث بنتے ہیں اقوام متحدہ کو بھی اس طرف توجہ دینی ہوگی اگر آج کشمیر اور فلسطین ،شام ، عراق ، افغانستان کے مسائل پر نظر دوڑائی جائے تو متعلقہ قوموں کو حق خود ارادیت کے نہ ملنے اور ان تنازعات کے حل نہ ہونے کے نتیجے میں ان کے بعض افراد نے بندوق اٹھائی ہے سب وہ آزادی کی جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں اور عالمی برادری نے اب اسے دہشتگردی کہنا شروع کردیا ہے چند سال پہلے تک عالمی برادری بھی اسے عسکری جدوجہد کہتی رہی ہے مگر اب جب آگ اس تک پہنچ رہی ہے تو وہ اسے دہشت گردی کہہ رہے ہیں اگر مذکورہ تنازعات حل ہو چکے ہوتے ان خطوں میں دہشتگردی یا عسکریت پسندی نہ ہوتی اسی طرح بعض دیگر عوامل میں غربت اور معاشی پسماندگی بھی سرفہرست ہیں غربت اگر بعض جرائم کی وجہ بنتی ہے تو یہ دہشتگردی کی بھی وجہ بنتی ہے محض طاقت کے زور پر ہی انتہاء پسندی اور دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ان تمام وجوہات کو ختم کرنا ہوگا جو اس عفریت کو جنم دیتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے امیر ممالک جن میں امریکہ ،فرانس ،جرمنی ،چین، برطانیہ شامل ہیں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام ضروری اقدامات کریں اور ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ دنیا سے اس عفریت کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208052 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More