مناظرہ․․․!

 وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز بڑے عرصے کے بعد پاکستان تشریف لائے ہیں، چونکہ وہ پاکستان سے باہر کاروبار کرتے ہیں، اور ان کے والد اور چچا پاکستان میں حکمرانی کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، اس لئے یار لوگ چھوٹے میاں صاحب کے بیرونِ ملک کاروبار پر انگلیاں اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔فطری طور پر یہی بحث منظر پر آئی ہے، کہ آخر باہر کی دنیا میں اربوں ڈالر کا کاروبار کیسے شروع ہوا؟یہی الزام ہے، اور اسی کی بنا پر مناظرے کے چیلنج منظر عام پر آرہے ہیں۔ فریقین کی طرف سے یہ چیلنج قبول بھی کیا جارہا ہے، اس سب کچھ کے باوجود اس مناظر ے کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مناظرے کا منظر بھی عجیب ہوتا تھا، پہلے ایک دوسرے کو چیلنج کیا جاتا، منادی کروائی جاتی، وقت اور تاریخ مقرر ہوتی، اشتہار شائع ہوتے، تیاریاں مکمل ہوتیں۔ یہ مناظرہ مختلف مذاہب کے درمیان ہوتا تھا۔ معاملہ کس قدر مہذب تھا کہ مناظرے اور مخالفت کے باوجود حالات پر امن رہتے تھے۔ مذاہب سے فارغ ہوئے تو یہ کام علمائے کرام نے آپس میں شروع کردیا، یعنی ایک فرقے کا دوسرے کے بارے میں نظریات کا اظہار ۔ یہیں سے آپس میں لڑنے کی کہانی کا آغاز ہوا۔ یہیں سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ اس قسم کی مناظروں کی مذہبی (اختلافی) رجحان رکھنے والے لوگوں میں بہت مقبولیت ہوتی تھی، ایک عرصے تک تیاریاں ہوتیں، اور بہت سے لوگ مقررہ مقام اور تاریخ کو جمع ہوتے، اورا پنے پہلوانوں کو لڑاتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے، فتح یاب ہونے اور شکست کھانے والے اپنے اپنے حالات کے مطابق واپس چلے جاتے۔ اسی قسم کا ’’مناظرہ‘‘ کسی زمانے میں سٹیج پر گانے کا بھی ہوتا تھا، پنجاب کے دو بڑے لوک گلوکار عالم لوہار اور عنایت حسین بھٹی فنکار ہوتے اور لوگ رات بھر ان کے گانے سنتے تھے، تاہم یہ لوگ آمنے سامنے نہیں بلکہ الگ الگ ڈیرہ جماتے تھے۔

اب دو سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو مناظرے کا چیلنج دے کر دلچسپ صورت حال پیدا کردی ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اگر حسین نواز نے عمران خان کو چیلنج دیا ہے کہ وہ ہمارے(میاں برادران کے) کاروبار کے بارے میں الزامات لگائیں، ان کا ثبوت دیں اور جواب حاصل کریں، اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جوابات بھی دیں۔ مگر عمران خان نے ایک جلسے میں خطاب کے دوران نیب کے سامنے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وہ پنجاب کے ڈاکوؤں پر کب ہاتھ ڈالے گی، اور یہ بھی کہ پیسہ کس کی جیب میں جارہا ہے، اس کا حساب نیب نے ہی لگانا ہے۔ نندی پور، میٹرو اور اورنج ٹرین کی بھی تحقیقات ہونی چاہیئں، حسین نواز کے مناظر ے کے جواب میں عمران کان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا بیٹا تو مراد سعید کے ساتھ مناظرے کا بھی اہل نہیں۔ ہماری سیاست کی یہ ایک روایت ہے کہ بڑے کے مقابلے میں کسی چھوٹے کو لایا جاتا ہے، جس کا سب سے اہم مقصد بڑے کو بے عزت کروانا ہوتا ہے۔ دیہات میں کسی وڈیرے نے کسی پڑھے لکھے یا مناسب آدمی کی مخالفت کرنی ہوتی تھی تو اس کے مقابلے میں کسی بہت ہی کمتر آدمی کو کھڑا کردیا جاتا تھا (یہ روایت اب بھی قائم ہے) حکومتوں میں بھی یہ دیکھنے کو ملتا ہے، کہ کسی بھی بڑے سیاستدان کو جب بے عزت کروانا مقصود ہو تو اپنے ترجمانوں کی ذمہ داری لگا دی جاتی ہے کہ ان کا کوئی بھی بیان مخالفانہ تبصرے سے خالی نہ جانے پائے۔ پنجاب کے دو اہم ترجمان مستقل یہی فریضہ نبھانے میں مصروف ہیں کہ عمران خان کے ہر بیان پر انہوں نے ہی جواب دینا ہے۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، مگر اُن کو ذاتی طور پر کوئی جواب نہیں ملتا۔ یہ کلچر ہر پارٹی میں موجود ہے، حفظِ مراتب کا خیال کوئی نہیں رکھتا۔ اصولی طور پر اپنے ہمہ پلہ لوگوں سے ہی سینگ اڑانے چاہیئں۔ خیر مناظرہ ہو یا نہ ہو، یقینا ہوگا بھی نہیں، مگر عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکمران خود تو سرتاپا مراعات کی دلدل میں غرق ہو چکے ہیں، ان کی اولادیں پاکستان میں رہنا یا یہاں کاروبار کرنا بھی پسند نہیں کرتیں، ان کے پیسے کا حساب لگانے کی کسی کو جرات نہیں، یا یوں کہیے کہ اس حساب وغیرہ تک رسائی کسی کے بس کا روگ نہیں، تو اِ ن کی لڑائی میں عوام کو کیا فائدہ ملے گا۔ حکمرانوں سمیت ہر سیاستدان خود کو دیانتدار اور ملک کا مخلص ہی ظاہر کرتا ہے، مگر یہ ’مخلص‘ لوگ اپنے مفلس عوام کی حالت پر کیوں توجہ نہیں دیتے، ایک مناظرہ عوام اور حکمرانوں کا بھی ہوجائے ․․․․!
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435174 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.