کرکٹ کے ڈکٹیٹرز

پاکستانی عوام کسی لفظ کے معنی اور مفہوم سے واقف ہوں یا نہ ہوں لیکن لفظ ڈکٹیٹر کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہوں گے یہ لفظ پاکستانی قوم کی جڑوں سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ عوام جمہوریت اور ڈکٹیٹر کا فرق بھی بھو ل چکے ہیں ڈکٹیٹر وں کی چا ر دھا ئی سے زائد محیط عر صے نے عوام کے ذ ہنو ں ، مزاجوں اور رو یوں کو اس انداز سے تبد یل کر دیا ہے کہ اب تو ہر ادارے ، محکمے ، تعلیم گا ہوں حتیٰ کہ کھیل کے مید ان بھی اس کی حکمر انی سے محفو ط نہیں رہے ہیں اس کا تاز ہ شا ہکا ر ا ٓپ کو بھا رت کے کا من ویلتھ گیمز میں سلمان شاہ کا پا کستا نی با کسر کے ہا تھوں سے پر چم چھین کر لہرانا اور ہا تھ ہلا نا یا د ہو گا جو اسی ڈکٹیٹرز ذہنیت کی ایک ادنیٰ مثا ل ہے اگر عوام کو ہر محکمے کے سر براہ میں ایک ڈکٹیٹر نظر آتا ہے تو ا س میں ان کا کیا قصور ہے اور جب تما م نظا م پر آقا ئیت چھا ئی ہو تو پھر ایسے میں پا کستا ن کرکٹ بو رڈ کیسے اس کی چھپر چھاؤوں سے بچ سکتا ہے۔

پا کستا ن کر کٹ بو رڈ کے موجو دہ ڈکٹیٹرز کے زما نے میں جتنی جگ ہنسائی اور رسو ائی پا کستا ن کے حصے میں آئی اتنی کسی دور میں نصیب نہ ہو ئی ،میچ فکسنگ ، با ل ٹیمپر ئنگ ، سٹہ با زی ، کھلا ڑیو ں کے با بت غلط فیصلے ،اقر با ء پر وری اور تعصب کی شا ندار مثا لیں قا ئم ہو ئی اور ہر گز رتے پل اس ریکارڈ میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہے۔ پی سی بی کے عہدیدار اپنی کر سی بچا نے کے لیے ہر قسم کے حر بے اپنا نے کو تیا ر ہیں کبھی کسی کھلا ڑی پر تا حیا ت پا بند ی اور جر ما نہ عا ئد کیا جا تا ہے پھر کچھ دنو ں بعد اس کھلا ڑی کے سارے گنا ہ اور جر ائم معا ف کر کے ٹیم میں واپس لے لیا جا تا ہے جس طر ح کہ ہم آج محمد یو سف اور را نا نو ید کے معا ملہ میں پی سی بی کے فیصلے کو دیکھ رہے ہیں یہ سیا ہ کو سفید اور سفید کو سیا ہ کر نے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں اور رکھنا بھی چا ہیے کہ ایک ڈکٹیٹر کو ہر آئین ہر قانو ن ہر پا بندی کو تو ڑ نے کا مکمل اختیا ر حاصل ہو تا ہے وہ جب چا ہے این آر او جیسے قوانین بنا سکتا ہے اور جسے چا ہیں عا م کھلا ڑی کی طر ح ٹیم میں شامل کریں یا بلکل نہ کر یں اور اگلے دورے پر جا نے والی ٹیم میں اسی کھلا ڑی ( مصبا ح الحق )کو کپتا ن بنا کر روانہ کر دے اس ادارے کی اپنی مر ضی ہے کہ پہلے ٹیم کے کھلا ڑ یو ں کا اعلا ن کر ے یا کیپٹن کا اعلا ن کرے جس طر ح کی روش آج کل پا کستا ن کر کٹ بورڈ نے اپنا رکھی ہے پھر ان تما م جد وجہد اور محنت کا حکو مت کی جا نب سے کروڑ وں رو پے کی آمد نی اور مشا ہرہ حا صل کر نا بھی ان کا ذا تی حق ہے نیز بیرونی دوروں سے حا صل معا وضے اور مشا ہرے اس کے علا وہ ہیں۔

پاکستا ن قر ضوں اور دوسرں کے امداد سے پلنے والا غر یب ملک ہے پاکستا ن میں لا کھوں لو گ ایک روٹی اور سر چھپا نے کے لیے سائبان نہ ہو نے پر کھلے آسما ن تلے زند گی گز ار نے پر مجبو ر ہیں وہا ں ان نا م نہا د کر کٹر ز اور بو رڈ کے ذ لتوں بھر ے دوروں پر کروڑو ں رو پے ضا ئع کیے جا نا کسی طر ح منا سب نہیں اس پر طر ح یہ کہ ان دوروں میں آئے دن ایک نئی کہا نی اور اسکینڈ ل بو رڈ اور کر کٹرز کے حوالے سے آنے کے بعد پا کستا نیوں کے لیے خفت اور شرمند گی کا با عث بنتا ہے پا کستا ن کر کٹ بورڈ کے سفا رشوں اور اقربا ء پروری سے سلیکٹ کیے ہو ئے کھلا ڑی جس قدر آج اسکینڈ لز اور کر پشن کے جال میں پھنسے ہو ئے نظر آتے ہیں اتنا پہلے کبھی دنیا میں اسکینڈ لز زبا ن زد عام نہ تھے اگر ہم بر وقت سزا ئیں دیتے تو با ت اتنی آگے نہ بڑھتی کر کٹ بو رڈ نے ان کھلا ڑ یوں کو سزا نہ دے کر مز ید دوسر ے کھلا ڑیوں کو اس راہ پر چلنے کی تر غیب دی ہے اس کا تدارک کر نا ہوگا چلیں آج سے سہی! اچھے کا م کی شروعات جلد کر دی جا ئے کہ ہز ار سال نر گس کی بے نو ری پر رو نے کے بجا ئے چند سال محنت کر لی جا ئے تو کھلا ڑ یو ں میں دیدہ ور پید ا ہونے لگیں۔

اگر ما ضی کی جانب نگا ہ دو ڑا ئیں تو ما ضی کے کر کٹر ز کو یا د کر کے ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان جیسے تعلیم یا فتہ، ایما ندار اور با صلا حیت کھلاڑی پا کستا ن کر کٹ ٹیم کا حصہ ر ہے ہیں جن میں عبد ا لحفیظ کا راداد ، امتیا ز احمد ، فضل محمود ، جا و ید بر کی ، ما جد خا ن ، و قا ر حسن ، جا وید میا ں داد اور ظہیر عبا س جیسے کھلاڑی شامل تھے مگر آٓج کو ئی کھلا ڑی ان جیسا تعلیم یا فتہ اور با صلا حیت نہیں نظر آتا ہے یہ ایک ٹھو س حقیقت ہے کہ سنیئر کھلا ڑ ی سدا ٹیم کے ساتھ نہیں رہ سکتے عہد شبا ب میں کھیل کے میدا ں میں اتر نے والے ہر کھلا ڑی کو ایک نہ ایک دن آ نے والے کھلا ڑیوں کے لیے جگہ خالی کر نی پڑ تی ہے مگر انکے اچھے کا م اور نا م سدا لو گوں کے ذ ہنو ں میں روشن رہتے ہیں اسی طر ح کسی بھی محکمے میں اچھے کا م کر نے والوں کا نام اس کی کا رکردگی دوسرں کے لیے مشعل راہ رہتی ہے۔

انہی روشن مثالوں میں ایک نا م ائیر ما ر شل نور خان کا ہے جنھوں نے پاکستا ن کر کٹ بو رڈ کی سر برا ہ کے طور پر ۷۸۹۱ ء میں ور لڈ کپ کی میز بانی کی جن کی پر عزم ،منظم اور اعلی صلا حیتو ں کی وجہ سے پوری ٹیم نے یکسو ئی سے اپنی پر فارمنس پر توجہ دی اور پا کستا ن کو فتح سے ہمکنا ر کیا۔ کر کٹ میں پا کستا نی کھلا ڑیوں کی جیت پر پوری قوم کی خوشی قابل دید ہوتی ہے یہ چند خو شی کے لمحا ت زخم زخم پاکستا نی عوام کے لیے بڑ ے قیمتی ہو تے ہیں ان لمحا ت کو دو با ر ہ واپس لا نے کے لیے ائیر ما رشل نو ر خا ں جیسی با صلا حیت شخصیت کو پا کستا ن کرکٹ بو رڈ کی ذمہ داری سو نپی جا نی چاہئے اس وقت ایسی قائدانہ صلا حیتوں کے حامل عمران خان کے علا وہ اور کون ہو سکتے ہیں جنھوں نے جس کام کا بیڑہ ا ٹھا یا اسے انجا م تک پہنچایا وہ خواہ ور لڈ کپ ہو یا شو کت خانم اسپتا ل یا پھر نمل کی درس گا ہ۔ ہو سکتا ہے عمران کے سامنے سیا ست کے روشن امکانا ت کی دنیا مو جو د ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ انکی پہچا ن کرکٹ ہے او ر کر کٹ کی پہچا ن عمرا ن خان ہیں جس نے عمران خان کو سپر اسٹار بنا یا پہچا ن دی آج وہی کر کٹ بو رڈ ڈ کٹیٹرز کے ہا تھو ں یر غمال بنا جگ ہنسا ئیوں رسوائیوں کی اتھا ہ گہرا ئیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے اب عمرا ن خا ن پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کر تے ہیں اور سب سے بڑھ کر جنا ب آصف علی زرداری پر منحصر ہے کہ وہ عمران خان جیسی کسی شخصیت کو یہ اہم قو می فر یضہ سو نپتے ہیں یا نہیں؟ کہ اس فیصلے کا اختیا ر تو صر ف اور صرف انھی کے پا س ہے۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 147929 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.