حافظ سعیدکا معاملہ اور حکومت کی سرد مہری

رواں سال کا ہر دن ایک نئی خبر کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔پہلے ڈان لیکس کا معاملہ پھر پانامہ کیس پھر عدالت میں پیشیاں پھر وزیرِاعظم نواز شریف نااہلی اور اسی طرح عالمی حالات تبدیلیاں بھی بہت تیزی کے ساتھ رونما ہوئیں۔اسی دوران عالمی دباؤ کا بہانہ کرتے ہوئے نواز حکومت نےحافظ سعید کو ان گھر میں نظر بند کر دیا۔ اس کے بعد حافظ سعید صاحب کورٹ میں چلے گیے اور پھر عدالت کر اندرکیس شروع ہو گیا حافظ سعید صاحب نے اپنے خلاف ثبوت کا مطالبہ کیالیکن بہرحال اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ کیس صرف پیشیوں اور اگلی تاریخ کے حصول تک محدود ہو گیا۔نواز حکومت کی جانب سے تو ویسےہی کبھی کشمیریوں کے حقوق کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ماسوائے چند ایک بیانات کے، لیکن حافظ سعید کی نظر بندی سےکشمیریوں کے دلوں واقعتاً ٹھیس پہنچی کیونکہ کشمیری حافظ سعید کو اپنا محمد بن قاسم اور اپنا محسن سمجھتے ہیں۔

حافظ سعید کی نظر بندی کے دوران ان کی جماعت اور شخصیت کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا گیا اور نااہل حکومت کے نااہل وزراء نے امریکہ کی سستی خوشنودی کے حصول کے لیے جس طرح کے بیانات دیے اور بالخصوص خواجہ آصف صاحب نے ایشاء سوسائٹی کو دیے گیے انٹرویو جس طرح پاکستان کی غلط تصویر پیش کی، حافظ سعید کو بوجھ قرار دیا اورپاک فوج و دیگر سکیورٹی اداروں کے کردار کو متنازعہ بنا دیا اس سے قوم کو کشمیروں اور پاکستان کے عوام میں مایوسی کی ایک فضا پھیل گئی۔حکومتی نمائندوں برملا اس بات کا اقرار بھی کیا کہ حافظ سعید کو محض عالمی دباؤ کی وجہ سے نظر بند کیا گیا تھا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ یا انڈیا کا یہ کہنا ہی کافی ہے کہ فلاں آدمی کو بند کر دو تو کیا ہم اس قدر کمزور ہیں کہ ہم یہ سوال بھی نہیں کر سکتے کہ کیوں بھئی ہم اس شخص کو کیوں بند کریں؟؟؟ ہمارا ایک پر امن شہری ہے۔ اگر امریکہ اور بھارت یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ شخص دہشت گرد ہے تو اصولی طور پر انہیں اس بات کے ٹھوس ثبوت پاکستان کو فراہم کرنے چاہیئے ۔ گزشتہ ایک لمبے عرصے سے حافظ سعید کو لے کر پاکستان پر دباؤ تو ضرور ڈالا جاتا مگر آج تک ایسا نہیں ہوا کبھی ان کے خلاف کوئی ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہوں۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جانب کچھ ایسا ردِّ عمل سامنے آتا کہ آپ جلد از جلد ثبوت فراہم کریں وگرنہ ہمارے پاس تو حافظ سعید کو نظر بند کرنے کا کوئی جواز نہیں۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ لیجئے کہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ہماری حکومت نے بخوشی امریکی آرڈر کو تسلیم کیا اور پاکستان کی عدالتوں میں امریکہ کے وکیل بن کر کیس لڑتے رہے۔

قارئین جس شخص کو دنیا ایک انتہا پسند اور دہشت گرد کہہ رہی ہے یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے وہ کس قدر امن پسند شخصیت ہیں۔پاکستان میں یہ ایک نئی روش چل نکلی ہے کہ جس کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ اسلام آباد جائے دھرنا دے، مارچ کرے اورمتعلقہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنائے یا وزیروں کو استعفے کا مطالبہ کرے۔ پاکستان کے اندر موجود ہر بڑی جماعت یہ کام کر چکی ہے خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ، از خود نواز شریف صاحب کو جب پاکستان کی اعلی عدالتوں نا اہل قرار دے دیا تو وہ بھی جناب ایک کارواں لے کر نکل پڑے اور عدلیہ، جج صاحبان اور اسٹبلشمنٹ پر تنقید کی جس سے ملک اند ر ایک عجیب سے انتشار کی فضا قائم ہو گئی جس سے ہم ابھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔لیکن اگر ہم حافظ سعید اور جماعت الدعوہ کی جانب دیکھیں تو انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔ نہ انہوں نے کوئی دھرنا دیا نہ ہی کوئی عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور نہ ملک کے اندر کوئی توڑ پھوڑ کی۔جماعت الدعوہ بھی پاکستان اندر موجود ایک منظم ترین جماعت ہے لیکن انہوں نے کوئی "اسلام آباد لاک ڈاؤن" نہیں کیا بلکہ حق پر ہوتے ہوئے بھی از خود حافظ سعید صاحب نے نظربندی سے قبل اپنے کارکنان کو یہ نصیحت کی کہ آپ نے کوئی توڑ پھوڑ کا راستہ نہیں اپنا نا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرنا ہے جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال متاثر ہو باوجود اس بات کے کہ وہ حق پر تھے۔

اب یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر سوچنا ہو گا کہ کوں امن پسند ہے اور دہشت گرد ہے۔ ملک کا محسن کون ہے اور غدار کون ہے۔اب وقت آ چکا ہے ہم صحیح اور غلط کی پہچان کریں اور ایسے لوگوں کو آگے لائیں جن کا مقصد پاکستان کا استحکام ہو، وہ لوگ جو اہل ہوں جن کا کردار ایک کھلی کتاب ہو نہ کہ ایسے لوگوں جن اس قوم دھوکے ،مفلسی اور تباہی کے کچھ نہ دیا ہو۔ جنہوں قوم کو لوٹ کر اپنی تجوریوں کی تسکین کی ہو۔ اللہ پاکستان کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔

Abdullah Qamar
About the Author: Abdullah Qamar Read More Articles by Abdullah Qamar: 16 Articles with 8742 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.