چائنا کٹنگ پر جاری آپریشن

کراچی میں جاری تجاوزات اور چائنا کٹنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے احکامات پر آپریشن جاری ہے جس کی وجہ سے جہاں شہر قائد کی خوبصورتی بحال ہورہی ہے وہیں جن لوگوں نے ان غیر قانونی زمینوں کو بغیر تھقیقات کے سستے داموں خریدا وہیں انہیں اب مالی نقصان بحی ہورہا ہے

سپریم کورٹ کے اھکامات پر غیر قانونی شادی ہال اور عمارتوں کو مسمار کیا جاریا ہے

شہر کراچی جو ماضی میں حسین اور خوبصورت ترین شہر تصور کیا جاتا تھا،جہاں لوگ دوردراز ممالک سے آتے تو شہر کی رونق کو چار چاند لگ جاتی ، یہاں کے خوش زائقہ کھانوں کے مراکز ہمیشہ کھانے کے شوقین افراد کو لزت فراہم کرتے، سڑکیں بے حد کشادہ ،تعلیمی نظام اعلی اور معیاری سفری سہولیات کے لیے ٹرام سروس اور ڈبل ڈیکر بسیں ہمیشہ حاضر رہتیں ، یہ تو تھا ماضی کے کراچی کا احوال اگر آج کے کراچی کو دیکھا جائے تو کشادہ سڑکوں کی کشادگی ختم ، کھانوں کے مراکز کی سابقہ جیسی چکاچوند ختم ، ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں ختم ، معیاری تعلیمی نظام ختم یہاں تک کے کھلیوں کے میدان اور باغات کو بھی ختم کردیا گیا اب ان کی جگہ بے ہنگم سی ہونے والی انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی ، اداروں میں کرپشن اور نااہلی نے لے لی ہے ، کراچی کے پرانے علاقوں میں جہاں میدان ، اسکول اور پارک کی جگہ تھی وہاں اب بلند و بالا کانکریٹ کا ڈھانچہ عمارتوں نے لے لی ہے ، جس کے بعد شہر قائد کے باسیوں کے کیے تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابررہ گئے ہیں، شہر قائد کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کی مٹی ہر ایک شخص کو بآسانی راس آجاتی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت کی نااہلی اور آنکھیں بند کرنے یا پشت پناہی کے باعث سیاسی جماعتوں ، اداروں کے افسران ، اور کرپٹ مافیا نے شہر ے کسی رفاہی ، فلاحی پلاٹوں ، ریلوے کی اراضی ، نالے ، فٹ پاتھ بھی قابض ہونے کے بعد فروخت کردٰیئے ، شہر کے علاقے جن میں کورنگی ، نارتھ کراچی ، سرجانی ، گلستان جوہر اور گلشن اقبال سمیت کئی علاقوں کی زمینوں پر غیر قانونی عمارتیں اور شادی ہالز بن گئے ہیں ، چائنا کٹنگ کی اس بہتی گنگا میں جس کا بس چلا ہاتھ دھوتا گیا دیکھا جائے تو شہر پر قابض ہونے کی منصوبہ بندی کوئی تین چار سال پرانی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں گزشتہ تیس پینتیس سال کا کارنامہ دکھائی دیتا ہے جو اب بھی جاری و ساری ہے ، اس کرپٹ مافیا کا جہاں بس چلا اپنا کارنامہ دکھایا فٹ پاتھ سے لے کر کئی ایکڑ زمینوں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا، ملیر ندی اور اس کے اردگرد کی زمینیں جہاں کبھی سرسبز باغات لہلہاتے تھے آج مافیا کی نظر ہوکر سوسائٹیوں کا روپ دھار گئے اور یہ کام ان اداروں کے ساتھ مل کرکیا گیا جو اس کام کو روکوانے پر عمل پیرا ہوتے ہیں،ان اداروں کی اگر بات کریں تو ماضی میں جب کبھی انہیں کارکردگی ظاہر کرنا پڑی ہے تو ہاتھ صرف اور صرف غریب پر ہی پڑا ہے کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے شادی ہالز اور عمارتوں کے سامنے قائم پنکچر کی دوکانیں یا پان کے کھوکے کو اکھاڑ کر یا ان کا سامان ضبط کرکے اخبار میں تصویر اور نیوز چینلز پر خبر کی جگہ پکی کروائی گئی ہے مگر ان کے عقب میں بیٹھے بڑے مگرمچوں پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا ، ہاں اگر بات زیادہ بڑھ جائے تو شہر کے سنسان علاقے میں جاکر چار دیواری کو گرا دیا جاتا اور دو چار دن بعد یہ چار دیواری دوبارہ قانون کو منہ چڑائے عالیشان انداز میں کھڑی نظر آئی ہے ، اگر شہر قائد کے علاقے نیوکراچی کی بات کی جائے تو یہاں تقریبا پچاس فیصد کاروبار ہی نالوں کے اوپر قائم دوکانوں میں ہوتا ہے گودھرا سے دعا چوک ، کالا اسکول سے یوپی ، پانچ نمبر سے صبا سینما سمیت جہاں سے نالا گزرا وہیں ان کے اوپر دکانیں بھی پہنچ گیئں ، یہ دوکانیں کو نئی نہیں بلکہ ایک عرصہ دراز سے قائم ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ کامیاب کاروبار کررہے ہیں ایسے میں اگر ان دوکانوں کے خلاف کاروائی کی بھی جاتی ہے تو ایسا کون شخص ہوگا جو بغیر مزاحمت کیئے اپنے کامیاب کاروبار کو اپنی ہی آنکھوں کے سامنے گرتا دیکھ سکےگا ، ظاہر سی بات ہے کہ ان سب حالات میں یہ کاروباری حضرات بھی کسی حد تک ملوث ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دوکانیں نالے کے اوپر قائم کی گئی ہیں ان لوگوں نے خریدیں اور کاروبار کا آغاز کیا، اس امر میں زمہ دار صرف یہ افراد اور حکومت ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہی دیگر ادارے جن میں محکمہ لینڈ و ماسٹر پلان ، ادارہ ترقیات ، کے ڈی اے ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، محکمہ انسداد تجاوزات شہر کراچی کی بااثر سیاسی جماعتیں اور ان کے زیر سایہ چلنے والے گروہ بھی شامل ہیں ، اب سپریم کورٹ کے زریعے ایک بار پھر چائنا کٹنگ کے مسلئے کو اجاگر کیا گیا ہے ، ایک اندازے کے مطابق شہر قائد کی آٹھ ہزار ایکڑ آراضی پر قبضہ کیا جاچکا ہے ، سپریم کورٹ کے مطابق شہر قائد میں آخری بار گرینڈ آپریشن ایوب خان کے زمانے میں کیا گیا تھا ، عدالت کے برہم ہونے پر ایک بار پھر آپریشن کا آغاز ہوا ہے کئی علاقوں میں کاروائی کرکے شادی ہالز کو توڑ دیا گیا ہے مگر جہاں اس آپریشن سے فائدہ ہوا وہیں ان لوگوں کو نقصان بھی ہوا ہے جنہوں نے شادی بیاہ کی تقریبات ان ہالز میں منعقد کررکھی تھیں ، اب دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ متاثرہ افراد کسی نہ کسی طرح ان منہدم شدہ ہالز میں ہی قناطیں لگا کر تقریبات کررہے ہیں کئی زیر تعمیر عمارتیں بھی گرائی گئی ہیں جس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بھی ہیں ، ان افراد کا کہنا یہ ہے کہ ان کا یہ آشیانہ پائی پائی جوڑ کر بنایا گیا تھا اور جب یہ عمارت یا تجارزات قائم ہورہی تھی تو حکومت یا متعلقہ ادارے کہاں غائب تھے ، مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ آپریشن صرف شادی ہالز یا چند عمارتوں تک ہی محدود رہتا ہے یا اس کا دائرہ آگے بڑھے گا ، اگر آگے بڑھتا ہے تو کئی رہائش پزیر عمارتوں کے علاوہ پوری پوری ہاوسنگ سوسائٹیوں کے نام بھی سامنے آجائیں گے جو کہ غیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہیں ، ان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو ان متاثرہ افراد کا بے گھر ہونا بھی ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا ، اور اب ضرورت اس چیز کی بھی ہے کہ اس کالے دھندے میں ملوث تمام افراد کے ناموں کو سب کے سامنے لانا چاہیے خواہ اس بندے کا تعلق کسی بھی سیاسی و مزہبی جماعت سے ہو ہا وہ بندہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو ۔
 

Salman Khan
About the Author: Salman Khan Read More Articles by Salman Khan: 2 Articles with 1163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.