تیری امید تیرا انتظار کرتا ہوں

6 مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کردوں تو میرا نام بدل دینا
’’وہ آرہی ہے؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’کب گئی تھی؟‘‘

’’وہ بتا کر کب جاتی ہے؟ ایسی روٹھ کر گئی ہے کہ اب آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔‘‘

’’اچھا، جب آجائے تو بتانا مجھے کام ہے‘‘۔

’’سلام نہ دعا ہر وقت اُسی کا پوچھتے ہو، تمہاری بیگم کو پتا چلا تو وہ تو مجھے چھوڑے گی نہیں‘‘۔

’’بیگم تو کب کی چھوڑ کر جاچکی ہے۔ جاتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ جب بجلی آجائے تو بتا دینا۔ اب اور نہیں جیا جاتا اس گرمی اور اندھیروں میں۔‘‘

’’تم نے اب تک اپنی مدد آپ کے تحت جنریٹر کا بندوبست کیوں نہیں کیا؟ ہم نئی صدی میں داخل ہوگئے ہیں، یہ دور جنریٹر کا ہے۔‘‘

’’ایک شریف نے کہا تھا کہ 6 مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کردوں تو میرا نام بدل دینا۔ بس اس پر یقین کر لیا تھا۔‘‘

’’تم بھی کتنے بھولے ہو، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی باتیں تو ہم پچھلے کئی برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔ یاد نہیں جب راجہ صاحب نے کہا تھا 2009ء تک لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔‘‘

’’وہ راجہ تھے، یہ شریف ہیں۔‘‘

’’بس یہی فرق ہے۔ پہلے لوڈ شیڈنگ سب کی برابر ہوتی تھی پاکستان کے معیاری اوقات کے مطابق اور عید، بقرعید اور چھٹی پر بجلی بونس میں بغیر تعطل کے ملتی تھی اور اب لوڈ شیڈنگ علاقوں کو دیکھ کر کی جاتی ہے‘‘۔

’’اسی لئے اب علاقوں کی زمینوں اور پلاٹوں کی قیمتیں بھی اسی حساب سے طے ہو رہی ہیں۔‘‘

’’لوگ پہلے مکان خریدنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ مکان میں پانی آتا ہے کہ نہیں اب یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بجلی آتی ہے کہ نہیں کیونکہ بجلی کے بغیر تو پانی بھی نہیں آسکتا۔‘‘

’’عجیب قانون ہے کہ میں نے بجلی کی ادائیگی بر وقت کی ہے، لیکن اگر میرے پڑوسی نے نہیں کی تو مجھے بھی اس کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا مزا چکھنا پڑے گا۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے؟‘‘

’’ انصاف چاہیئے تھا تو انصاف کو ووٹ دیتے۔‘‘

’’جس نے انصاف کو ووٹ دیا تھا وہاں کون سی بجلیاں چمک رہی ہیں۔ سنا ہے کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں بھی کبھی بجلی ہوا کرتی تھی۔‘‘

’’پورے ملک میں ایسے علاقوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جہاں بجلی کے پول دیکھ کر بتایا جاسکتا ہے کہ وہاں کبھی بجلی ہوا کرتی تھی۔‘‘

’’آثار قدیمہ والوں کو ایسے علاقوں کی کھوج کرنی چاہیئے اور دنیا کے سامنے یہ بات لانی چاہیئے کہ کس طرح آج کے دور میں بھی لوگ بجلی کے بغیر جی رہے ہیں۔ ‘‘

’’تمہیں یاد ہے پچھلی گرمیوں میں کتنی زیادہ اموات ہوئیں تھیں اسی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے۔ مریضوں سے اسپتال بھر گئے تھے۔‘‘

’’اچھا اسی لئے اب انہوں نے جناح اسپتال کی بھی بجلی منقطع کر رکھی ہے تاکہ غریبوں کا اسپتال کا خرچہ بچ سکے۔‘‘

’’ایسے میں عوام جائے تو جائے کہاں؟‘‘

’’جانا کہاں ہے، سڑک پر جا کر دھرنا دو، ٹائر جلاؤ اور نعرے لگاؤ۔

’کل بھی بجلی جاتی تھی
آج بھی بجلی جاتی ہے‘

’’لیکن نعروں سے بجلی پیدا نہیں ہوتی اور ٹائر جلانے سے مزید گرمی میں اضافہ ہوگا۔‘‘

’’گرمی لگے گی تو عوام کا تیل نکلے گا، اور عوام کے تیل سے جو بجلی پیدا ہوگی اس سے پھر کبھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔‘‘

’’ٹھیک کہا اب بجلی پیدا کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں کہ عوام باہر نکلے اور ایوانوں میں بیٹھے ان پانامہ کے پاجاموں کو فروخت کرکے بجلی پیدا کرے۔‘‘

’’خیر ابھی تو میری بجلی آگئی ہے بعد میں دیکھیں گے۔

’’اللہ حافظ‘‘
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 39282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.