زندہ بچھو اور انسان، ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والی نرالی اور انوکھی اشیاء

رائل میل کے لیے کرسمس کا تہوار سال کا مصروف ترین وقت ہوتا ہے جب کمپنی کام نمٹانے کے لیے مزید 20000 افراد کو وقتی طور پر نوکریاں دیتی ہے تاکہ سامان کو مطلوبہ تاریخ سے پہلے پہلے پہنچا دیا جائے۔
 

image


لیکن اس کمپنی کی 500 سالہ تاریخ میں وہاں کام کرنے والوں کو کئی مرتبہ ایسی عجیب و غریب چیزیں ڈاک کرنی پڑی ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔

بی بی سی نیوز نے ماضی میں رائل میل سے بھیجے جانے والی چند ایسی ہی چیزوں کا جائزہ لیا۔
 

image


1883 میں رائل میل نے پارسل پوسٹ بھیجنے کا نظام شروع کیا جس کے بعد سے عجیب و غریب اور انوکھی چیزیں ان کے پاس آنا شروع ہو گئیں۔

پوسٹل عجائب گھر کے ہیڈ آف کلیکشن کرس ٹافٹ نے کہا 'ماضی میں آپ مختلف نوعیت کی بہت سے چیزیں بھیج سکتے تھے۔ اس وقت قواعد وضوابط تو تھے لیکن وہ اتنے جامع نہیں تھے۔'

اس عجائب گھر میں ایسی ہی کچھ چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ وہاں معروف مصنف جیمز جوائس کی شہرہ آفاق کتاب الیئےسس ، جسے اُس زمانے میں فحش قرار دیا گیا تھا، اور لارڈ کرزون کو لکھا گیا خط جس میں خط بھیجنے والا پتہ 'غیر مہذب' تھا۔
 

image

 

image


کبھی کبھار تو رائل میل کو جیتے جاگتے انسان اور دوسری زندہ مخلوقات بھی ڈاک کرنی پڑ جاتی تھیں۔
 

image


آج کل کے دور کی طرح پہلے بھی کھانے پینے کی اشیاء کو ڈاک کے ذریعے بھیجا جاتا تھا لیکن انھیں کھلے ڈبوں میں بھیجنے کی اجازت تھی۔

1890 کی دہائی میں میں ایک جریدے میں شامل مضمون کے مطابق رائل میل کے اہلکاروں کو زندہ بچھوؤں سے بھرا ہوا ایک جار دیکھنا پڑا تھا جو کہ ڈاک سے واپس کر دیا گیا تھا۔
 

image

کرسٹ ٹافٹ نے بتایا کہ 'قواعد میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ آپ زندہ انسان کو بذریعہ ڈاک نہ بھیج سکیں۔'

سال 1909 میں حق رائے دہی کا مطالبہ کرنے والی دو خواتین، مس سولومن اور مس میک لیلن نے رائل میل کی فوری ڈاک کی سہولت استعمال کی اور خود کو بذریعہ ڈاک برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ تک پہنچا دیا تاکہ وہ بذات خود اس وقت کے وزیر اعظم ہربرٹ ایسکؤتھ کو اپنے پیغام پہنچا سکیں۔
 

image

لیکن وزیر اعظم کے عملے نے اس خط کو وصول کرنے سے انکار کر دیا اور ڈاکیے کو اپنے منتظم کو بتانا پڑا کہ وہ ڈاک پہنچانے میں ناکام کیوں رہا۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دونوں خواتین برطانیہ کی پہلی 'انسانی ڈاک' نہیں تھیں۔ اس سے پہلے لندن کے علاقے فاریسٹ ہل سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹنٹ ریجینالڈ برے خود کو بذریعہ ڈاک بھجوانے کا اعزاز حاصل کر چکے تھے جب انھوں سب سے پہلے 1900، پھر 1903 اور آخری دفعہ 1932 میں خود کو ڈاک کروایا۔
 

image

ریجینالڈ برے پر تحقیق کرنے والے جان ٹنگے کہتے ہیں کہ لندن سے تعلق رکھنے والے ریجینالڈ برے تھوڑے 'سنکی مزاج' اور 'پاگل' تھے۔ 'وکٹورین دور میں وہ واحد انسان نہیں تھے جنھوں نے ایسا کیا لیکن انھوں نے ڈاک کے نظام کی حدوں کو چھو لیا تھا۔'

تفصیلات کے مطابق ریجینالڈ برے نے ڈاک بھیجنے کے قواعد و ضوابط کی کاپی حاصل کی جس میں انھیں معلوم ہوا کہ رائل میل کے ذریعے کسی بھی زندہ مخلوقات کو بھی بھیجا جا سکتا ہے جس کا حجم شہد کی مکھی سے بڑا یا ہاتھی سے چھوٹا ہو۔

اس کو دیکھتے ہوئے انھوں نے خود کو اور اپنے پالتو کتے کو بذریعہ ڈاک مختلف جگہ بھجوایا۔

اس کے علاوہ ریجینالڈ برے نے ایک کڑاہی، خرگوش کی کھوپڑی اور ایک کدو بھی بذریعہ ڈاک بھجوایا۔ .
 

image

1939 میں 60 سال کی عمر میں وفات پانے والے ریجینالڈ برے نے ڈاک کے ذریعے 30000 اشیاء بھجوائیں۔ "
 

image
 

image

کبھی کبھار ریجینالڈ برے کی بھیجی ہوئی ڈاک ان کو واپس ہو جاتی تھی۔ ان میں سے ایک خط انھوں نے سانٹا کلاؤس کو بھیجا جو ناقابل ڈاک ہونے کی وجہ سے واپس ہو گیا جبکہ ایک اور خط انھیں اس لیے واپس ہو گیا کیونکہ ڈاک کا عملہ پتہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
 
image
 
image

لیکن ریجینالڈ برے کی روش کو قائم رکھتے ہوئے کئی ایسے لوگ ابھی بھی موجود ہیں جو بذریعہ ڈاک ایسی نرالی چیزیں بھجواتے ہیں۔

عمومی طور پر لوگوں کو ریجینالڈ برے کے بارے میں علم نہیں مصنف ڈیوڈ برامویل کہتے ہیں کہ وہ ان سے ہی متاثر ہیں۔

برامویل اور ان کے دوسر ڈیوڈ رابنسن نے ایک دوسرے کو پورا سال مختلف چیزیں ارسال کیں۔ ان میں انڈرویئر، سیب، پتہ اور ڈبل روٹی کا ٹکڑا شامل ہے۔

'ایک چیز جو ہم نہیں بھیج سکے وہ ٹشو پیپر کا رول تھا جو کہ شاید کھل گیا ہوگا۔'
 
image
 
image
 
image

مصور ہیرئیٹ رسل نے سو سے زائد خطوط کامیابی سے بھیجے جن پر پتہ خفیہ گتھی کی شکل میں درج تھا جس کے بعد انھوں نے اپنی کتاب 'اینویلوپ' یعنی لفافے شائع کی۔

ہیرئیٹ رسل نے کہا کہ انھوں نے کئی تجربے کیے جن کی مدد سے خط بھیجنے والے پتے مشکل سے پڑھے جائیں جیسے کبھی پتے کو الٹا لکھ دینا یا کبھی ان کو ناپڑھنے کے قابل لکھائی میں درج کرنا شامل تھا۔

'لیکن وہ تمام خطوط اپنی منزل تک پہنچ گئے جس کے بعد میں نے گتھیوں کی شکل میں پتے درج کرنے شروع کیے۔"
 

image

لیکن رائل میل کے بے چارے عملے کا کیا جن کو ایسے خط ان کے درست پتے پر ارسال کرنے ہوتے ہیں۔

رائل میل کے بیان کے مطابق وہ ترجیح دیں گے اگر ان کے پاس ایسی ڈاک نہ آئے کیونکہ وہ ڈاک ترسیل کرنے کے عمل کو دشوار بناتے ہیں جس کی وجہ سے وقت پر ڈاک نہیں جا پا تی۔ انھوں نے کہا کہ 'ہم اپنے صارفین کو مشورہ دیتے ہیں کہ خط نہ ارسال ہونے کی صورت میں واپسی کا پتہ لازمی درج ہونا چاہیے۔'
 


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

The introduction of Parcel Post in 1883 saw the first packages being delivered by Royal Mail and it was not long before all sorts of weird and wonderful things were being despatched. "In the past it was possible to send any manner of things," Chris Taft, head of collections at the Postal Museum, explains.