بیان ایک وفاقی وزیر کا ہے، جوکہ خود بھی ایک
مولانا ہیں، اور ایک مذہبی تقریب سے خطاب سے ہی رپورٹر نے یہ بیان اخذ کیا
ہے۔ پہلے ان کے بیان سے خاص نکات ملاحظہ کیجئے؛ ’’․․․ عمران خان اسمبلی
فورم پر عوام کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ جناح کیپ پہن کر جناح
نہیں بن سکتے، بلکہ یہودیوں سے قطع تعلقی کرکے ہی جناح کے نقشِ قدم پر چل
سکتے ہیں، عوام نکاح، جنازہ اور اذان علماء سے کراتے ہیں، ووٹ کی پرچی
اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہیں، حکومت وزارتِ خارجہ کے ذریعے اسرائیل اور
امریکہ سے احتجاج کرے․․․‘‘۔ ہمارا آج کا موضوع عمران خان کی طرزِ سیاست
نہیں، وہ حکومتی سطح پر کس قدرکامیابیاں سمیٹ سکے، یا پھر ناکامیوں سے
واسطہ رہا، ان کا ایجنڈا پاکستان کی ترقی اور بہبود ہے، یا وہ یہودیوں کے
کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، کسی کے دل اور نیت کی بات ہم نہیں جان سکتے، تاہم
یہاں وزیرموصوف نے ایک بہت اہم بات کی، کہ عوام نکاح، جنازہ اور اذان وغیرہ
کے لئے علماء سے مدد حاصل کرتے ہیں، اور جب ووٹ کی باری آتی ہے تو کسی اور
طرف لُڑھک جاتے ہیں۔ پوسٹل سروسز کے وفاقی وزیر چونکہ خود بھی ’مولانا‘ ہیں،
مگر انہوں نے بھی عوام سے یہ گلہ کردیا ہے کہ وہ مذہبی لوگوں کو ووٹ نہیں
دیتے، مولانا کا تعلق جمعیت العلمائے اسلام سے ہے، ان کی پارٹی حکومت کی
اتحادی ہے، ان کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت سازی کی نوبت آتی ہے اور
حکومت سے اتحاد کا ماحول بنتا ہے۔
یہاں ایک بہت باریک نکتہ سامنے آتا ہے کہ عوام ایک کام کے لئے تو سو فیصد
یعنی ہر قیمت پر علماء پر ہی تکیہ کرتے ہیں، علماء کی مدد کے بغیر ایک قدم
بھی آگے نہیں بڑھتے، مثلاً نکاح کوئی کونسلر، سماجی کارکن یا حتیٰ کہ کوئی
ٹیچر بھی نہیں پڑھا سکتا، اس کے لئے مولوی صاحب کا انتظار ہی کرنا پڑتا ہے۔
پھر مساجد میں نمازیں پڑھانے کے لئے مولویوں پر ہی دارومدار ہوتا ہے، یہاں
اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ مولوی نماز سے کبھی لیٹ نہیں ہوتے،
بروقت اذان اور وقت پر ہی نماز ادا کی جاتی ہے۔ پھر کوئی اﷲ کو پیارا ہو
جائے تو علماء کے علاوہ کوئی طبقہ فکر ایسا نہیں جو معاملات کو سنبھال سکے۔
یہاں بھی مولانا صاحب ہی سب سے اہم ہوتے ہیں۔ غور کیا جائے تو انسانی زندگی
کے مندرجہ بالا سماجی اعمال لازم وملزوم ہیں، کون ہے جس کا ان معاملات سے
واسطہ نہیں پڑتا؟ سوائے اس کے کہ ہزاروں میں کوئی ایک ہوتا ہے جو شادی نہیں
کرتا، یوں اسے مولانا کی (صرف نکاح کے معاملے میں) ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
مرنا تو سب نے ہی ہے، اور جنازہ بھی اہم ترین کام ہے جسے ہر قیمت پر
سرانجام دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف عوام ہیں کہ اُن لوگوں کو ووٹ نہیں دیتے، جن پر ان کے ایمان کی
بنیاد رکھی جاتی ہے، بنیادی مذہبی تعلیم بھی علماء سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔
گویا جو چیزیں حقیقی ، یقینی اور مجبوری ہیں، وہ علماء کے بغیر ممکن
نہیں،ان کاموں میں بے ایمانی یا بددیانتی کا عنصر بھی شامل نہیں ہوتا، (نکاح
میں فراڈ کے امکانات ہو سکتے ہیں، بے ایمان لوگ ایسی واردات کر جاتے ہیں)
مگر نماز اور جنازہ وغیرہ میں بے ایمانی اور اسی قسم کے اور جذبے کا کوئی
کام نہیں۔ گویا جو کام انسان کی اصل ہیں اور اخروی زندگی میں فائدہ مند ہو
سکتے ہیں وہ تو مولویوں کے ذریعے ہی سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوام
جن کاموں کو مذاق، غیر سنجیدہ اور شغل میلہ جانتے ہیں، وہ سیاستدانوں وغیرہ
کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اپنے نمائندے بنانا ، کہ وہ ایوانوں میں جا کر
قانون سازی کا فریضہ سرانجام دیں، وہ اُن لوگوں کے سپرد کرتے ہیں جن کے
بارے میں وہ جانتے ہیں کہ معاملہ آگے پیچھے ہو بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
یہاں یہ تصور نہ کیا جائے کہ علماء تمام تر ہی دیانتداری سے کام کرتے ہیں
اور سیاستدان سارے ہی ان کے متضاد ہیں، بلکہ دونوں گروہوں میں اچھے برے لوگ
موجود ہوتے ہیں، مگر عوام کی تقسیم بہت گہری ہے، کہ انہوں نے دونوں کے لئے
الگ فیصلے کر رکھے ہیں۔ اگر عوام سمجھتے ہیں کہ مذہب پر عمل کے لئے علماء
بہتر ہیں تو انہیں ووٹ دے کر منتخب بھی کرنا چاہیے، اگر وہ کہتے ہیں کہ
حکومت اور قانون سازی کے لئے سیاستدان بہتر ہیں تو پھر اُن سے نکاح اور
جنازہ وغیرہ پڑھوانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ دونوں طبقات کے لئے الگ الگ
میرٹ مناسب نہیں۔
|