بھارتی ایٹمی آبدوزوں کا غیرمحفوظ حفاظتی ریکارڈ

شاہین اختر

میڈاِن رشیا بھارتی آبدوز نے آگ پکڑ لی جس کے نتیجے میں اٹھارہ سیلرز آبدوز کے اندر ہی محصور ہو گئے جبکہ بہت سارے دیگر عملے نے چھلانگیں لگا کر جان بچائی۔ بھارت میں ایٹمی آبدوزوں کے خراب حفاظتی ریکارڈ کی لمبی تاریخ ہے تاہم بھارتی ایٹمی آبدوز ہو یا ایٹمی اثاثے غیر محفوظ بھی ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کے لئے شدید خطرہ بھی۔ کچھ عرصہ قبل روس کی مدد سے ملکی سطح پر تیار کردہ ’’آئی این ایس ایریہانت‘ ‘یعنی خاموش قاتل نامی پہلی ایٹمی آبدوز بھارتی بحریہ میں شامل کرلی گئی تھی تاہم یہ آبدوز 2020ء سے پہلے میدان جنگ میں اترنے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ بھارت کی ساختہ ایٹمی آبدوز کا ری ایکٹر خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ابھی آپریشنل ہونے سے قبل اس ایٹمی آبدوز کے سمندری ٹرائل جاری تھے۔
بہرحال بھارت ان پانچ ممالک کے کلب میں شامل ہے جو ایٹمی آبدوز کی تیاری کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملکی سطح پر تیار کی جانے والی ایٹمی صلاحیت کی حامل آبدوز کی چوڑائی 11میٹر، لمبائی 110 میٹر، وزن 6 ہزار ٹن ہے جسے ایک سال بندرگاہ اور دو سال کھلے سمندر میں مختلف آزمائشوں کے بعد بھارتی بحریہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ بھارتی ایٹمی آبدوز سمندر کے اندر طویل عرصے تک رہنے اور ایٹمی ہتھیار داغنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت اس طرح کی تین آبدوزیں تیار کریگا۔ روسی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی بحریہ جلد ہی 10 سالہ لیز پر حاصل کی جانے والی آبدوز آئی این ایس چاکرہ 65 کروڑ امریکی ڈالر کے خفیہ معاہدے کے تحت حاصل کریگا جو روسی آبدوز چارلی دوم کی جدید شکل اور ایڈوانس ٹیکنالوجی وہیکل (اے ٹی وی) ہونے کے ناطے 35ناٹس رفتار کے ساتھ کنونشنل آبدوز کے مقابلے میں دوگنا زائد 600 میٹر تک غوطہ لگانے، ایک ہزار کلو گرام تک ایٹمی وار ہیڈ لیجانے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ بھارتی ساختہ کروز میزائلوں اور 5 ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے اگنی تھری میزائلوں سے بھی لیس کیا جائیگا۔
اس طرح 12ہزار ٹن وزنی آکولا ٹو کلاس ایٹمی آبدوز بھی رواں سال دسمبر میں بھارتی بحری بیڑے میں شامل کرلی جائیگی لیکن بھارتی ایٹمی اثاثے غیر محفوظ اور پروگرام ناقص ہونے کی تاریخ کچھ اور ہی کہانی بتاتی ہے جس کے پیش نظر بھارتی ایٹمی پروگرام کا پھیلاؤ خطے کی تباہی اور خود بھارت کے وجود کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنی 1993ء کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں ایٹمی شعبے میں کام کرنے کے دوران خطرات کا تناسب دنیا بھر کی اوسط سے 6 سے 8 گنا زیادہ ہے۔ ایک بھارتی پارلیمانی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1995ء سے 1998ء کے دوران ایٹمی شعبے میں 147 حادثات رونما ہوئے جن میں سے 28 خطرناک نوعیت کے تھے۔ ڈاکٹر اے گوپالا کرشنن جو کہ بھارت کے ایٹمی انرجی ریگولیٹری بورڈ کے سابق چیئرمین ہیں۔ انہوں نے 1996ء میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو بھیجی گئی اپنی رپورٹ میں مندرجہ ذیل باتوں کی نشاندی کی۔ بھارت کی نیو کلیائی تنصیبات کو 130 قسم کی مشکلات کا سامنا ہے جن میں 95 ایسی ہیں جن پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل قریب میں بھارت کو کسی بڑے ایٹمی حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پرانے ایٹمی پاور پلانٹس میں حفاظتی اقدامات کی صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ کوئی بھی شخص یہ سوچنے میں دیر نہیں لگاتا کہ حادثے کے نتیجے میں بھارت کو جاپان جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت کے لئے یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ اس کی حساس تنصیبات کی انتظامی اور حفاظتی خامیاں اس کے لئے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔نیو کلیئر پلانٹس کے بارے میں عدالتی فیصلہ:6 جنوری 2004ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کی جس میں پیپلز پارٹی یونین فار سول لبرٹی کے اس رٹ کے خلاف فیصلہ دیا گیا تھا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اٹامک انرجی ریگولیشن بورڈ کی رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ پٹیشن ان الزامات کی بنیاد پر دائر کی گئی تھی کہ بھارت بھر میں موجود ایٹمی تنصیبات اپنے قریب علاقوں میں رہنے والوں کے لئے خطرات پیدا کررہی ہیں۔ درخواست دینے والوں ’’اے ای آر بی‘‘ کا سابق چیئرمین ڈاکٹر اے گوپالاکرشنن بھی شامل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اُتر پردیش میں نروڑا نیو کلیئر پلانٹ اور کرناٹک کے کائیگانیو کلیئر پاور پلانٹ میں شدید قسم کے حادثات کا خطرہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ قومی مفاد کی خاطر قومی سلامتی سے متعلقہ امور اور نیو کلیئر پلانٹ سے متعقل عوام کو معلومات سے آگاہ نہ کرے۔ سائرس ایک 40 میگاواٹ کا ریسرچ ری ایکٹر ہے جو بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر کے زیر اثر ٹرامیے میں قائم ہے۔ یہ ری ایکٹر 14کلو افزودہ یورینیم کی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے۔ 1991ء میں تابکاری کے اخراج سے اس کے متعلقہ علاقے میں زیر زمین پانی آلودہ ہوگیا اور علاقے میں سبزے کو نقصان پہنچا۔ ٹرمبے میں ہی ایک اور ری ایکٹر دُھروا جو 30 کلو گرام یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ڈیزائن کے مسئلے سے دو چار ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک وہ اپنی پوری صلاحیت سے کام نہیں کرسکا اس وجہ سے ایندھن کی مشکلات پیش آئیں جو ابھی تک درت نہیں کی جاسکیں۔ یورینیم کی افزودگی سے خارج ہونے والا فضلہ ’’بی اے آر سی‘‘ نے سمندر میں ٹھکانے لگایا جس کے باعث ممبئی کی بندرگاہ تابکاری سے متاثر ہے۔ کل پا کم میں اندرا گاندھی سنٹر فار اٹامک ریسرچ میں نصب 40 میگاواٹ کا فاسٹ بریڈر ٹیسٹ ری ایکٹر جسے فرانسیسی امداد سے قائم کیا گیا تھا شدید خطرات سے دو چار ہے۔ اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے سوڈیم استعمال ہوتا ہے جو کہ پانی یا ہوا کے ملنے سے دھماکہ خیز ثابت ہوتا ہے اور چونکہ حفاظتی تدابیر کی کمی ہے اس لئے کسی بڑے حادثے کا خطرہ رد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی ری ایکٹر کو کئی بار تکنیکی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سے ایک بار 1987ء اور 1989ء کے دوران اسے بند کردیا گیا اور 1989ء تا 1992ء یہ صرف 1 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کرتا رہا۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.