"یہ تیرا دیہان کدھر ہے۔۔۔۔ تیرا ہیرو ادھر ہے۔" یہ گانا
مجھے ہمیشہ ہی بہت مزے کا لگتا ہے۔ اس وجہ سے کہ واقعی میں زندگی کا "ہیرو"
چاہے کچھ بھی ہو۔ اگر آپکا دیہان ادھر اُدھر ہو گا تو اس پر دیہان لگانا
مشکل ہی نہیں ناممکن رہے گا۔ جب آپکا دیہان ادھر اُدھر ہو گیا تو ہیرو تو
ادھر اُدھر ہی کھسکے گا۔
آج ہمیں جو سب سے بڑا مسئلہ لاحق ہو کے حل جُل کے قابل نہیں چھوڑ رہا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ یا دیہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہی ہے۔ توجہ لگائی ہی اتنی ذیادہ ادھر
اُدھر ہوتی ہے کہ ہمیں خود بھی نہیں پتہ لگتا کہ کدھر لگانی ہے اور کدھر
نہیں لگانی ہے۔ انسان خود کو بے حد بے بس اور بے چین بھی محسوس کرتا ہے جب
وہ وقت سارا اُس چیز پر لگا دیتا ہے جس پر نہیں لگانا تھا اور کام کا کام
کہیں پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو اگر ہم تسلی سے دیکھیں کہ جی دییہان ہے کیا ۔۔۔۔۔؟ آسان ترین
الفاظ میں اگر کہا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکی صلاحیت کہ آپ اپنا دماغ
اور انرجی اُس کام پر مکمل طور پر رکھ سکیں جو کام آپ لمحہ موجود میں کر
رہے ہیں۔ آپ اس کئے جانے والے کام پر اتنا مرتکز ہوں کہ آپکو کہیں اور
جھانکنے کی فرصت نہ ہو اور آپ اپنی مکمل قابلیت اور صلاحیت کو استعمال میں
لاتے ہوئے ہی اس کام پر اپنا دیہان لگا کر اچھے انداز میں کم سے کم غلطی کے
ساتھ اسکو انجام دینے کی اور اچھے سے اچھے انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچانے
کی کوشش کریں۔
اگر ہم اُسوقت کی بات کریں جبکہ زندگی میں کرنے کے لئے اور توجہ لگانے کے
لئے چیزیں بہت کم تھیں تو ہاں واقعی میں تب آپ توجہ آسانی سے لگا سکتے تھے۔
کوئی جاندار ٹکتا سو ٹوکتا کوئی بے جان اتنا ٹوکنے کے لئے نہیں تھا۔ اب کے
زمانے میں اگر ہم آجائیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ آپکے ارد گرد اتنی چیزیں
ہو رہی ہیں جو آپکو ادھر اُدھر متوجہ کر رہی ہیں۔ جو آپکو بھٹکانے میں بہت
قابل کردار ادا کرتی ہیں اور اسی لئے آپکو سمجھ خود کو بھی نہیں آتی کہ ہو
کیا رہا ہے۔
ہمارے موبائل فونز کو خود ہم نے اتنی آزادی دے رکھی ہے کہ یہ جب بجنا چاہیں
بجتے ہیں اور ہماری توجہ بجا کے رکھ دیتے ہیں۔ ہم خود ہی خود کو سُپر
کامیاب تب سمجھتے ہیں جب ہم ایک وقت میں بے شمار چیزیں ایک ساتھ کر سکیں۔
ہمیں لگتا ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ آپ جتنا
ذیادہ کرنا چاہتے ہیں ایک وقت میں اُتنا ذیادہ کام کرلیں تاکہ ہمارا وقت
بچے۔ عملی طور پر دیکھیں تو پتہ نہیں وقت تو بچتا ہے کہ نہیں ہاں کام کی مت
ضرور وَج جاتی ہے۔
کچھ ہم اب کولٹی سے ذیادہ تعداد پر بھی دیہان دیتے ہیں کہ جیسے تیسے کر
سکیں کر ڈالیں ذیادہ سے ذیادہ ٹھکانے لگا ڈالیں۔ جب ٹھکانے لگ جائیگا تو
فائدہ ہی فائدہ ۔ اسی لئے آج ہم کام کو انجوائے کرنے کے فیز سے بھی نکل گئے
ہیں اور کام کو ایک بوجھ کی طرح کرنے لگ گئے ہیں۔ چاہے ہمیں کوئی بھی کام
کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو ہم اسکو ایک بوجھ کی طرح کر کے ایک طرف ڈال دینا
چاہتے ہیں۔
ہمیں کہیں نہ کہیں موبائل کو لگام ڈالنا آنا ہوگی۔ ہمیں ہہر وقت میسجز واٹس
ایپ فیس بک ٹوئٹر ایپلیکیشنز کے نشے سے جان چھڑانی ہوگی۔ ہمیں یہ خود کو
سمجھانا ہو گا کہ دُنیا آج ہر لمحے بدل رہی ہے اور ٹھیک ہے کہ دُنیا میں
کیا کیا ہو رہا ہے جاننا ہوگا ۔ مگر اپنی توجہ اور ذہنی سکون کو قربان نہیں
کرنا۔ ہم اُس مقام پر ہیں جہاں ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے پتہ
ہو ۔ ہمارے اپنے بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ہمیں یہ بھلے سے پتہ نہ ہو۔ سو
سب سے پہلے تو ہمیں خود فیصلہ کرنا سیکھنا ہو گا کہ کسکو ہماری زندگی میں
گھسنے کی کتنی اجازت ہونی چاہئے۔
انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ انسان کو اسی لئے وقت کو استعمال کرنا
سیکھنا ہوگا۔ آجکا سب سے بڑا مسئلہ ہم دیکھیں تو وہ یہی ہے کہ ہمیں بہت
مشکل ہوتہ ہے کہ وقت کو مینج کیسے کریں۔ ہر انسان وقت کی کمی کا رونا روتا
ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں وقت کو نہیں خود کو مینج کرنا ہوتا ہے۔ آپ کو
زندگی مینج کرنی سیکھنی ہوتی ہے۔ آپکو اپنی ذات کو اس قابل بنانا ہوتا ہے
کہ کب کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے۔
لوگ جو سب سے ذیادہ وقت کو روتے ہیں وہی اکثر سب سے ذیادہ سوتے ہیں۔
اسکے علاوہ لکھ کر یا پلان بنا کر کہ کیا کیا کرنا ہے بھی آپ اپنی توجہ کو
بتاتے ہیں کہ وہ آپکو بتاتی رہے کہ کیا کیا کرنا چاہئے۔ مگر یہ بھی آپ لکھ
کر اور ٹائم ٹیبل بنا کر ہی خود کو بتاتے ہیں۔
پہلے آپ اسی لئے خود اپنی توجہ کو اہم سمجھیں جتنی اہمیت اسکی آپکی زندگی
میں ہے اسکو اسکا مقام دیں یہ آپکو فائدہ تب ہی دے گی۔ |