موج ہے دریا میں ، بیرون دریا کچھ نہیں!

امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے امریکی اعلان کے بعد عالم اسلام میں شدید اضطراب اور غم و غصہ کا اظہار نظر آرہا ہے ۔ پوری دنیا میں مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں ، اسرائیلی اور امریکی پرچم نذر آتش کیے جار ہے ہیں ، ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پتلے جلائے جا رہے ہیں ۔ مسلم ممالک کے سربراہوں ، اعلیٰ سیاسی عہدیداروں اور مذہبی راہنماؤں کی طرف سے شدید مذمت کے بیانات سامنے آرہے ہیں ۔تاہم ان سب میں سے زیادہ موزوں اور وزنی موقف ترکی کے صدر طیب اردوان کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کی حیثیت مسلمانوں کے لیے خطرے کی حد کی طرح ہے ۔ اگر اسرائیل نے اس حد کو عبور کرنے کی کوشش کی تو ترکی اسرائیل سے قطع تعلق بھی کر سکتا ہے۔مسلم ممالک کی تناظیم عرب لیگ اور OICکے منعقدہ ہنگامی اجلاسوں میں بھی امریکی صدر کے اس فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار دیکھا گیا۔ 9دسمبر کو قاہرہ میں منقعد ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں ٹرمپ کے اس فیصلے کو عالمی برادری کی خواہشات اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے دنیا سے آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔اس کے بعد 13دسمبر کو استنبول میں ترکی کے صدر طیب اردوان کے زیر صدارت ہونے والے OICکے ہنگامی اجلاس میں القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ OICکے اس اجلاس میں طیب اردوان نے اسرائیل کو قابض اور دہشت گرد ملک قرار دیا ۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف کئی غیر مسلم ممالک سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ۔ فرانسیسی صدر میکرون نے فون کرکے ٹرمپ کو اس کے فیصلے پر متنبہ کیا اور بعد ازاں پیرس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی حمایت کی۔ فرانس کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی ممالک بھی حالیہ امریکی فیصلہ کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ وہ 1967ء میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ ان علاقوں میں مغربی کنارہ ، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں ۔ حتیٰ کہ یورپ میں اسرائیل کے قریب ترین ملک چیک جمہوریہ نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں کے حوالے سے ایک بُرافیصلہ ہے ۔چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات میں واضح کیا کہ ہم اسرائیلی ریاست کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کی بھی بات کرنا چاہیے ۔اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جو قرار داد لائی گئی (جسے اگرچہ امریکہ نے ویٹو کر دیا)اس میں بھی یہی کہا گیا کہ امریکی صدر کے اس یکطرفہ فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ UNO، یورپی یونین اور OIC کا موقف بڑا وزنی اور اصولی ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی ملک کا دوسرے ملک پر زبردستی قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔اور یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے ۔ خاص طور پر مشرقی یروشلم سمیت بعض علاقوں پر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیا ہے ۔اس لحاظ سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تو دور کی بات ، اسے اسرائیل کا حصہ بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے UNOکی ریزولوشن نمبر 478بھی موجود ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ UNO، یورپی یونین اور OICکے اس اصولی موقف ،امریکی فیصلہ کو مسترد کرنے اور عالم اسلام کے شدید احتجاج ، مظاہروں اور مخالفتوں کے باجو د کیاٹرمپ اور اسرائیل اپنے مزموم عزائم سے باز آجائیں گے ؟جبکہ حالت یہ ہے کہ سعودی عرب ، مصر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان OICکے اس سربراہی اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے جو امریکی صدر کے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعد ہنگامی طور پر بلایا گیا ۔ اسی طرح خلیجی ممالک کی تعاون کی کونسل ( مجلس التعاون لدول الخلیج) کے مقاصد میں مسئلہ فلسطین کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔عرب ممالک کی اس سردمہری کو عالمی سطح پر واضح طور پر محسوس کیا گیا ہے ۔ BBCنے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ : ’’ 57رکنی اسلامی تعاون کی تنظیم میں عرب ممالک کی شرکت اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی جس سے یہ کہا جا سکے کہ امریکی صدر کی یروشلم یا القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ واپس ہو سکے گا ۔

لہٰذا حقیقت میں عرب ممالک کا ’’ مدعی سست اور گواہ چست ‘‘ والا یہ رویہ ہی اسرائیلی جارحیت کو شہہ دینے کا اصل اور بنیادی محرک ہے جس کی وجہ سے وہ UNOکی ریزولوشنز ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز کی شدید مخالفت کے باوجود فلسطینی علاقوں پر اپنے غاصبانہ قبضے کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کی جارحیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ورنہ اگر ترکی کی طرح OICمیں شامل دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل سے قطع تعلق کرنے اور امریکہ سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دیں تو امریکہ یا کسی بھی دوسری طاقت کو مسلم اُمہ کے مفادات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرنے کی جرأت نہ ہو ۔لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب جو کہ اس وقت دیگر کئی عرب ممالک کو بھی لیڈ کر رہا ہے ، کا جھکاؤ OICیا کسی بھی عالمی اسلامی فورم کی بجائے اسرائیل اور امریکہ کی طرف زیادہ ہے ۔اسرائیلی اور امریکی حکام سے ان کی شرمناک دوستیاں ، رقص اور کروڑوں کے تحائف ، حتیٰ کہ ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار کا یہ تک کہہ دینا کہ اگر جنگ ہوئی تو فلسطین کی بجائے ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے ،یہ سب ثابت کرتا ہے کہ ان کو مسلم اُمہ کے اجتماعی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہی یہ اُمہ کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ذاتی اقتدار ہی ان کے نزدیک اصل مطلوب اور مقصود ہے ۔

لہٰذا ہمارے نزدیک اگرچہ اسرائیلی جارحیت بھی بہت بڑا عالمی مسئلہ ہے لیکن اصل مسئلہ مسلم ممالک کے درمیان پائی جانے والی افراتفری ، پھوٹ اور انتشار ہے جس سے اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتیں بھر پور فائدہ اُٹھا رہی ہیں ۔خاص طور پر گذشتہ ایک صدی سے مسلم اُمہ میں بوئے گئے افتراق کے بیج اپنے اثرات کھل کر دکھا رہے ہیں ورنہ اس سے قبل بھی ان طاقتوں نے مسلم اُمہ سے یروشلم چھین لینے کی متعدد کوششیں کی ہیں ۔ پہلی صلیبی جنگ جس میں 70ہزار مسلمان شہید ہوئے اور عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا، یورپ کو اس جنگ کے لیے اُبھارنے والے پوپ اربن ثانی کے یہودی مالداروں سے گہرے تعلقات تاریخ میں کسی ثبوت کے محتاج نہیں ۔ اس کے بعد دو صدیوں تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں یورپ نے جس قدر مالی اور جانی نقصان اُٹھایا اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مگر اہل یورپ پورا زور لگانے کے باوجود بھی بیت المقدس پر قبضہ بحال رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں حالانکہ خلافت کا ادارہ اتنا مستحکم نہیں رہا تھا اور ترکی حکومت بھی مقروض تھی لیکن اس کے باوجود صیہونی تحریک کا بانی تھیوڈر ہرزل سلطان عبدالحمید کے پاس یہ پیش کش لے کربار بار آیا کہ کہ اگر آپ فلسطین میں چند یہودی بستیاں قائم کرنے کی اجازت دے دیں تو بدلے میں ترکی کے ذمہ واجب الادا قرضے نہ صرف ادا کر دیے جائیں گے بلکہ ترکی کی معیشت کی بہتری کے لیے مزید امداد بھی دی جائے گی۔ لیکن مسلم دنیا کا سربراہ ہونے کے ناطے سلطان نے یہ کہہ کر یہودیوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا کہ میں اپنے جسم کا کوئی حصہ کٹوا سکتا ہوں لیکن میرے جیتے جی یہ ممکن نہیں کہ اُمت کا کوئی حصہ کاٹ کر یہودیوں کے حوالے کردیا جائے ۔

ہمارے نزدیک یہ عثمانی سلطنت کی عسکری قوت سے زیادہ عالم اسلام کے اجتماعی سیاسی نظام کی برکت تھی جس نے یہود و نصاریٰ کو اُمت مسلمہ کے دل یعنی یروشلم میں مکروہ پنجے گاڑھنے سے روکا ہوا تھا ۔چنانچہ یہود کو بھی اس بات کا گہرا احساس تھا کہ جب تک مسلمان اجتماعی سیاسی نظام کی چھتری تلے رہیں گے اسرائیل کے قیام کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔ لہٰذا اس کے بعد ہی انہوں نے ’’ ینگ ترک موومنٹ ‘‘کی بنیاد رکھی ۔جس کا بظاہر ایجنڈا ترکی کو ماڈرنائز کرنا تھا لیکن حقیقت میں مقصد مذہب کو سیاست سے الگ کرنا تھا ۔ جس کے لیے اس نے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد اور نظام کی بجائے ترک قومیت اور مذہب کی بجائے آئین کی بالا دستی کا نعرہ لگایا ۔جس کا لازمی نتیجہ مختلف نسلی ، لسانی ، علاقائی قومیتوں کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی صورت میں سامنے آیا ۔بدقسمتی سے آج بھی کئی مسلم ممالک ماڈرنائزیشن کے اسی خبط میں مبتلا ہیں اور نتیجہ میں ان کا ہر گزرنے والا دن اسرائیل کے مفاد میں جا رہا ہے ۔خاص طور پر سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے الائنس کا ایجنڈا بھی ینگ ترک موومنٹ کے ایجنڈے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے جبکہ عرب حکمران اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے اس ایجنڈے پر عمل درآمد کو ضروری سمجھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ انہوں نے تاریخ کے ان تلخ ابواب سے کوئی سبق نہیں سیکھاجن میں سقوط عثمانیہ کی دردناک تاریخ رقم ہے ۔ حالانکہ اتنی بڑی ٹھوکر کھانے کے بعد مسلم حکمرانوں کو جان لینا چاہیے تھا کہ اقتدار کی مضبوطی کا راز ماڈرنائزیشن میں نہیں بلکہ سیاسی اسلام کے غلبہ میں ہے ۔ذاتی اقتدار میں نہیں بلکہ اجتماعی مفاد میں ہے اورقومیتوں میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی سیاسی نظام کے احیاء میں ہے ۔ کیونکہ
موج ہے دریا میں ، بیرون دریا کچھ نہیں !
 

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 47168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.