ٹرمپ کی نئی پالیسی اور عالمی منظر نامہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے کہ دنیا میں واحد سپرپاور کا دور اپنی مدت پوری کر چکا ہے، عالمی سطح پر اب مختلف طاقتوں کے وجود کا نظریہ ( کثیر القطبی دنیا ) تقویت پکڑ رہا ہے لیکن شاید یہ حقیقت امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہی ۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی جانب سے قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی پیش کی گئی جس میں روس چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہدف کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کی جانے والی اس پالیسی کی بنیاد چار ستونوں پر رکھی گئی ہیں ۔ ان ستونوں میں امریکی سرزمین کادفاع،خوشحالی کا فروغ، قوت کے ذریعے امن کا قیام اور امریکی اثرات کو بڑھانا شامل ہیں۔ امریکہ کے مدمقابل چین اور روس نے اس پالیسی کو مسترد کر چکے ہیں ۔اس پالیسی میں امریکہ نے روس پردیگر ممالک میں مداخلت کا الزام بھی عاید کیا ہے ۔ عالمی ادارے اور تجزیہ نگار بھی اس پالیسی کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس پالیسی سے ان خبروں کی تردید ہوگئی جس میں کہا یہ جا رہا تھا کہ امریکہ اور روس کے درمیان اختلافات کے خاتمے کا وقت قریب آ پہنچا ہے ۔پالیسی کے اعلان سے دو دن قبل ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے صدر ٹرمپ کو فون کیا تھا ۔یہ دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ایک ہفتے میں دوسرا ٹیلیفونک رابطہ تھا۔ روسی صدر نے امریکی ادارے سی آئی کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات پر شکریہ ادا کیا تھا ۔ امریکی ادارے سی آئی اے کی ان اطلاعات کی بنیاد پر روسی سیکورٹی سروسز نے سینٹ پیٹرز برگ میں کازان کیتھڈرل (گرجا گھر) پر دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کو ناکام بنا دیا تھا۔ انہی اطلاعات کی بنیاد پر روس کے سیکورٹی اداروں نے داعش کے ایک گروہ کو گرفتار کیا تھا۔یہ روس کا وہی شہر ہے جہاں رواں سال اپریل میں میٹرو ریلوے اسٹیشنوں پر خود کش حملوں میں دس سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل دوبڑی طاقتوں کے صدور نے شمالی کوریا کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے والے اس فون میں دونوں رہنماؤں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ اگرچہ اس معاملہ پر رپوٹن اور ٹرمپ متفق ہیں تاہم روس کا یہ کہنا تھا کہ شمالی کوریا جو کچھ کر رہا ہے وہ ردعمل ہے کیونکہ امریکہ بہت سے معاہدوں سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔روسی صدر نے یہ یقین دہانی ضرور کروائی تھی کہ روس اس خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنے کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔امریکی صدر متعدد بار اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے خواہاں ہیں ۔شام میں بھی روس اور امریکی صدر دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے ایک ساتھ کام کرنے پر تیار ہیں ۔ گزشتہ ماہ ایشیا پیسیفک سربراہی کانفرنس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا کہ شام کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اور وہ دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے مل کر کام کرنے پر تیار ہیں۔لیکن ٹرمپ کی ’’پہلے امریکہ ‘‘ کی پالیسی میں جس نے روس اور چین کو اپنا حریف قرار دیتے ہوئے کئی خطرات کو ذکر کیا تھا جو امریکہ کی سلامتی اور اس کے دنیا میں بڑھتے ہوئے اثرات کے لیے خطرہ ہیں جبکہ چین اور دیگر طاقتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ امریکی طاقت کو چیلنج کرنا چاہتی ہیں۔ اس پالیسی نے امریکہ کے دنیا کی دوبڑی قوتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو پھر سے سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا ۔ روس نے ٹرمپ کی پالیسی کو سامراجیت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔روس نے اس پالیسی پر امریکی رویہ کو ’’کثیر القطبی دنیا سے انحراف‘‘ قرار دیا ہے ۔چین نے بھی اس پالیسی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ کو سرد جنگ کی ذہنیت سے چھٹکارا پانا ہو گا ۔چین نے اس پالیسی پر ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے تصادم یا مقابلہ بازی خطرناک ہو سکتی ہے کوئی بھی ملک اختلاف پر مبنی الزام تراشی کے ذریعے حقائق تبدیل نہیں کر سکتا ۔چین باہمی احترام کی بنیا دپر امریکہ سمیت تمام ممالک پرامن رہنے کو تیار ہے تاہم امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھی چین کی ترقی کو قبول کرے۔

ٹرم کی اس پالیسی میں پاکستان سے ایک مرتبہ پھر ڈومور کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر یہ دباؤ برقرار رکھا جائے گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لائے ، پاکستان کسی طرح بھی افغانستان کو غیر مستحکم کرنے میں شامل نہ ہو ، پاکستان یقین دلائے کہ اس کے جوہری اثاثے محفوظ ہیں ۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اگریہ یقین دہانی کروانے میں کامیاب ہو گیا تو اس کے ساتھ نہ صرف تجارتی تعلقات بڑھائیں گے بلکہ سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا جائے گا ۔اس پالیسی میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں کام کرنے والوں دہشت گردو اور انتہا پسند گروپوں سے امریکہ کو مسلسل خطرات ہیں ۔دوسری طرف اسی پالیسی میں بھارت کو پھر سے ایک خاص مقام دینے کی کوشش کی گئی ہے جو جنوبی ایشیا کے دیگرممالک کے لیے قابل قبول نہ ہو ۔ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ دیر پا تعلقات اور پارٹنرشپ کی بنیاد افغانستان میں عدم مداخلت اورملک میں موجود دہشت گروپوں کی حمایت یا سرپرستی کے خاتمے سے مشروط ہے ۔دوسری طرف پاکستان اپنا واضح موقف بھی امریکہ کے سامنے رکھتا آیا ہے ۔ اس امریکی پالیسی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی وزیر دفا ع اور وزیر خارجہ کے دورے ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔یہ دونوں اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے موقف کو سمجھنے میں ناکام رہے یا پھر وہ اپنا موقف پاکستان کو سمجھانے میں ناکام رہے لیکن دونوں صورتوں میں بھارت کی طرف غیر معمولی جھکاؤ پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے جس کا اندازہ شاید امریکہ پوری طرح نہیں کر پا رہا ۔البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان کے موقف کو پوری طرح سمجھتا ہو تاہم ایشیا پیسیفک میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و فوجی طاقت کو روکنے کے لیے بھارت کی حمایت اس کے لیے ناگزیر ہے۔

ان حالات میں روس کی یہ بات بالکل درست نظر آتی ہے کہ امریکہ شاید ’’کثیر القطبی دنیا‘‘ کے تصور کو قبول نہیں کر پا رہا ۔ حالانکہ دنیا میں اب امریکہ کی طاقت اس طرح برقرار نہیں ہے جیسا کہ افغانستان سے روس کے انخلاء کے وقت تھی۔ پاکستان میں بھی اس وقت ایک کشمکش جاری ہے کہ وہ امریکی بلاک سے نکل کر روس اور بالخصوص چین کے معاشی بلاک میں مکلمل طور پر داخل ہو جائے دوسری طرف اسلامی ممالک کے اتحاد کی صورت میں وہ اسلامی دنیا کی کمان سنبھالنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ چین کی طرف سے پاک چائنہ اقتصادی راہداری میں دونوں ممالک کی سرمایہ کاری میں ڈالر کی اجارہ داری ختم کرکے چینی کرنسی میں لین دین کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے جو امریکہ کے اثر سے نکلنے کی ایک بڑی کوشش ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پاک چین اور روس پر مشتمل تعلقات کی تکون ایک نیا منظر نامہ پیش کر رہی ہے ۔امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیامیں مخاصمت کا دور گزر چکا ہے دنیا مفاہمت اور معاشی تعلقات کے ذریعے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے ۔

Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 64619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.