امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا
دارالحکومت تسلیم کئے جانے اور امریکی سفارت خانہ کوتل ابیب سے یروشلم
منتقل کرنے کے فیصلہ نے عالمی سطح پر ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف بڑے پیمانے
پرمذمتی بیانات اور احتجاج جاری ہے ۔امریکی صدر کے اس فیصلہ کو عالمی سطح
پر دہشت گردعمل تصور کیا جارہا ہے۔18؍ ڈسمبر کواقوام متحدہ کی سیکیوریٹی
کونسل میں مصر کی جانب سے امریکی فیصلہ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی گئی تھی
جسے امریکہ نے ویٹو کردیا۔سیکیوریٹی کونسل کے دیگر 14ارکان نے اس قرارداد
کے حق میں ووٹ دیئے۔اس قرارداد کو امریکہ کی جانب سے ویٹو کئے جانے کے بعد
فلسطین نے اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے
کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکان کو کسی بھی فیصلے
کے خلاف ویٹو کا اختیار ہے لیکن جنرل اسمبلی میں ویٹو نہیں کیا جاتا ہے ۔
اب دیکھنا ہے کہ امریکی فیصلہ کے خلاف جس طرح عالمی سطح پر احتجاج جاری ہے
سلامتی کونسل میں کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل
میں ویٹو کرنے کے بعد اقوام متحدہ میں متعین امریکی سفیر نکی ہیلی نے طاقت
کے ذریعہ ویٹو کئے جانے پرفخر کا اظہار کیا، وہیں فلسطین کے وزیر خارجہ
ریاض المالکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جہاں تک نکی ہیلی ویٹو کو فخر
اور طاقت کا ذریعہ سمجھتی ہیں وہاں ہم انہیں دکھا دینگے کہ بین الاقوامی
سطح پر وہ تنہا ہیں اور ان کے موقف کو مسترد کیا جاچکا ہے۔ امریکہ نے جس
طرح بین الاقوامی اتفاق رائے سے انحراف کرتے ہوئے 6؍ ڈسمبر کو یروشلم کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اس سے امریکہ کی دہشت گردی کا اظہار ہوتا
ہے عالمی سطح پر احتجاجاً مظاہرے ہونے کے باوجود امریکی صدر اپنے فیصلہ پر
اٹل ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم
کرنے کے اعلان پر امریکی نائب صدر پینس کے احتجاجاً ایک ملاقات منسوخ کردی
تھی اور اس ملاقات کے بجائے انہوں نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن
عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔
فلسطینی صدر،ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف مسلم دنیا کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر عالمِ اسلام کے تقریباً تمام ممالک امریکی صدر کے فیصلہ کے خلاف متحدہ
طور پر آواز اٹھائے ہیں۔ امریکہ ماضی اور حال میں عالمِ اسلام کو دہشت گرد
بتانے کی بھرپور کوشش کیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ اپنی معیشت کو مضبوط و
مستحکم کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کوششیں کرتا رہے گا۔ آج مشرقِ وسطیٰ کے
حالات نے سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کو خطرناک
ہتھیار اور دیگر فوجی سازو سامان خریدنے پر مجبور کردیا ہے۔ اپنی سلامتی
اور دفع کے لئے سعودی عرب، عرب امارات کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار مغربی و
یوروپی ممالک خصوصاً امریکہ سے خرید رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی و
یوروپی ممالک چاہتے بھی یہی ہے کہ عالمِ اسلام پر خوف اور دہشت کا ماحول
بنا رہے تاکہ یہ دشمنانِ اسلام ممالک پورے اطمینان کے ساتھ اپنی اسلحہ کی
تجارت جاری رکھ سکیں۔امریکہ ایک طرف فلسطینیوں کے ساتھ نا انصافی کی اور
اسرائیلی حکومت و یہودیوں کو خوش کرنے کی کوششکرتے ہوئے عالمی سطح پر دہشت
کا ماحول بنایا ہے ،یہی امریکہ اب پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے وضع کی گئی قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی میں
ایک مرتبہ پھر پاکستان سے بہتر تعلقات بنائے رکھنے کے لئے ’’ڈومور‘‘ کا
مطالبہ کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والی قومی
سلامتی کی حکمت عملی کی دستاویز جو68صفحات پر مشتمل ہے میں نئی حکمت عملی
کے تحت کہا گیا ہے کہ ’’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جاری
کوششوں میں تیزی لانے کے لئے دباؤ ڈالیں گے‘‘ کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت
پسندوں اور دہشت گردوں کیلئے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ
سکتی۔ امریکہ کی نئی حکمت عملی قومی سلامتی اسٹریٹجی میں پاکستان کے حوالے
سے کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے پاکستان میں سیکیوریٹی صورتحال بہتر ہوتی جائے
گی اور پاکستان یہ یقین دلاتا رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
امریکہ کی مدد کرتا رہے گا تو امریکہ اس کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے
تعلقات بڑھائے گااور پاکستان اس بات کا بھی ثبوت دیتا رہے کہ وہ اپنے جوہری
اثاثوں کا محافظ ہے ورنہ امریکہ پاکستان کے خلاف کچھ بھی کارروائی کرسکتاہے
۔ امریکہ نے اس بات کا بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اسے مسلسل خطرات لاحق ہونے
کی بات کہی ہے ۔امریکہ ہندوستان اورافغانستان کے ساتھ بھی بہتر اور خوشگوار
تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت امریکہ ہندوستان
کے بارے میں کہا ہیکہ ’’امریکہ ہندوستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹیجک شراکت داری
کو مزید مضبوط و مستحکم کرے گا اور سرحدی علاقوں اور بحرہند میں اس کی
قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا ۔ امریکہ چاہتا ہیکہ ہندوستان خطے میں مضبوط
و مستحکم رہے اسی لئے امریکہ ہندوستان کی مالی معاونت بڑھانے میں اس کی
حمایت کا عندیہ دیا ہے۔افغانستان کے متعلق امریکہ کا کہنا ہیکہ وہ خطے میں
امن و آمان و سلامتی کے لئے افغانستان کا پارٹنر رہے گا۔ امریکہ ان دنوں
ہندوستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے اس کے پیچھے اس کی کیا حکمت عملی ہے اس
سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت
گردی کو ختم کرنے کے نام پر مسلمانوں پر مزید ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری
رہ سکتا ہے کیونکہ پاکستان حکومت اور فوج نے جس طرح مختلف آپریشنس کے ذریعہ
دہشت گردوں کے ٹھکانوں نشانہ بنانے کی بات کہی ہے یا انکے خاتمہ کی بات کہی
ہے اس میں کتنے عام لوگوں کی ہلاکت ہوئی اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
خود امریکہ نے بھی اپنے ڈرون حملوں کے ذریعہ معصوم اور بے گناہ عوام کو
نشانہ بنایا اور عالمی سطح پر یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان میں دہشت
گروں کے خاتمہ کے لئے یہ تمام کارروائی کررہا ہے۔ خیر ان دنوں امریکہ نے جس
طرح فلسطین کے ساتھ ناانصافی کرکے اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے یروشلم کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور اپنی سفارتی سرگرمیوں کو وہیں منتقل
کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے ساری دنیا میں امن و سلامتی کی فضا ء خراب
ہوچکی ہے اور اس سے امریکہ کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ عالمِ اسلام وقتی
طور پر امریکہ کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں لیکن مستقبل میں دیکھنا ہے کہ وہ
امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے رہتے ہیں یا اپنے مفاد کے لئے ڈوغلی پالیسی بنائے
رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔
امریکی نائب صدر مائیک پنس کا دورہ پھر ملتوی
امریکی نائب صدر مائیک پنس نے احتجاج کے خدشے کی وجہ سے دوسری مرتبہ اپنا
دورہ مشرقی وسطی ملتوی کردیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فلسطینی حکام نے امریکی
صدرٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے
فیصلے کے بعد امریکی نائب صدرمائیک پنس سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ مصر
کے قبطی چرچ اورجامعہ الازہر کے سربراہوں نے بھی امریکی نائب صدرسے ملاقات
کرنے سے انکار کردیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مائیک پینس نے ملک اور
بیرون ملک عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے پیشِ نظر اپنا
دورہ جنوری تک کیلئے ملتوی کردیا ہے۔جب نائب صدر سے پوچھا گیا کہ کیا دورے
کو ملتوی کرنے کی وجہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر
دنیا بھر سے آنے والا سخت ردعمل ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ماہ
اسرائیل سمیت مشرقی وسطی کا دورے کریں گے اور صدر ٹرمپ کے فیصلے کی توثیق
بھی کرینگے۔واضح رہے کہ بیت المقدس کے حوالے سے فیصلے پر مسلم ممالک سمیت
دنیا بھر میں امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
حوثی باغیوں کا اپنے ہی ساتھیوں پر حملہ
یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے گذشتہ چند روز قبل سابقہ یمنی صدر علی
عبداﷲ صالح کے خلاف لڑائی اور اس میں ان کی ہلاکت کے بعد اب حوثی باغی اپنے
ہی ان ساتھیوں کو ہلاک کررہے ہیں جو یمنی حکومت کے آگے ہتھیار ڈالنے کی
کوشش کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی سرحد کے قریب واقع یمن کے ضلع میدی میں حوثی
شیعہ باغیوں نے اپنے ہی تیس سے زائد جنگجو ؤں کو ہتھیار ڈالنے کی کوشش کرنے
پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان جنگجوؤں نے یمنی فوج
اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے سامنے از خود ہتھیار ڈالنے کی
کوشش کی تھی اور اسی پاداش میں انھیں ہلکے ہتھیاروں سے گولیاں مار کر یا
راکٹ گرینیڈوں سے نشانہ بنا کر ہلاک کردیا گیا۔ان مقتولین نے مبینہ طور پر
یمنی فوج کے مد مقابل لڑنے سے انکار کردیا تھا۔حوثی ملیشیا اب میدی کے محاذ
کو بلاک کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس محاذ پر یمنی فوج کے ساتھ لڑائی میں
حوثیوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے اور ان کے بہت سے جنگجو مارے گئے ہیں
جبکہ یمنی فوج اور عرب اتحاد نے حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ علاقوں کو بازیاب
کرانے کے لیے تیزی سے پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ حوثی باغیوں کا اپنے
ساتھیوں پر حملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب انکے درمیان آپسی اختلافات
نمایاں ہوتے جارہے ہیں کیونکہ یمن میں ہزاروں افراد فاقہ کشی کا شکار ہے
اور یمن کی جنگ مزید جاری رہی تواس کے نتائج المناک ہوسکتے ہیں۔
شاہ سلمان سے سی آئی اے کے سربراہ کی ملاقات
فرمانرواسعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے امریکی سنٹرل انٹیلی جنس
ایجنسی( سی آئی اے) کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے سعودی دارالحکومت ریاض کے
الیمامہ محل میں ملاقات کی ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں قائدین نے سعودی
عرب اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور خطے میں رونما ہونے والی تازہ
ترین پیشرفت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ۔اس موقع پر امریکہ میں متعین
سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان ، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر ،
وزیر مملکت اور شاہی دیوان کے سربراہ خالد بن عبدالرحمان العیسیٰ اور سعودی
انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ خالد بن علی الحمیدان بھی موجود تھے۔سی آئی اے
سربراہ کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت عمل میں آئی جبکہ عالمِ اسلام نے گذشتہ
دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلہ کے خلاف شدید احتجاج کیا جس میں
انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے یہاں پر امریکی
سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اب دیکھنا ہیکہ سی آئی اے
سربراہ سے ملاقات کے بعد سعودی شاہی حکومت اپنے فیصلے پر اٹل رہتی ہے یا اس
میں نرمی پیدا ہوگی۰۰۰
سعودی ولیعہد شہزادہ محمد سلمان
بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان فرانس میں
30کروڑ ڈالر مالیت کے محل کے اصل خریدار بتائے جارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہیکہ سعودی عرب
میں بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والے طاقتور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان
کی غیر معمولی قیمتی خریداریوں کی ایک کڑی ہے۔پیرس کے مغرب میں واقع محل کو
دنیا کا مہنگا ترین محل قرار دیا جارہا ہے ۔ 57ایکر پر مشتمل اس محل میں
سیمنیا گھر، ڈیلکس سوئمنگ پول، فوارے، سرنگ اور زیر آب کمرہ ہے جس کی شیشے
کی چھت سے پانی میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔اب
دیکھنا ہیکہ اتنے قیمتی محل کے خریدار شہزادہ محمد سلمان کی جانب سے کیا
ردّ عمل کا اظہار ہوتا ہے اور جو انکے مخالفین ہیں وہ کس قسم کا اظہار کرتے
ہیں۔ اگر واقعی شہزادہ محمد سلمان اس محل کے مالک ہیں تو پھر سوال پیدا
ہوتا ہے کہ اتنی قیمتی جائیداد انہوں نے کن پیسوں سے حاصل کی ہے۰۰۰ |