انٹیلی جنس معلومات افشاء کرنے
والی ویب سائٹ وکی لیکس نے اپنے تازہ ترین انکشافات میں ایک انکشاف سعودی
فرمانروا شاہ عبداللہ کے صدر زرداری کے بارے میں ریمارکس کا بھی کیا ہے جس
نے ایک طرف حکومت پاکستان اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں کھلبلی مچا رکھی ہے
تو دوسری طرف بہت سے سیاسی لوگوں کی خوشی کا سامان بھی کردیا ہے۔ شاہ
عبداللہ نے جو کہا اس کو بعد میں دیکھتے ہیں، پہلے ذرا موجودہ حکومت کی گڈ
گورننس کا تھوڑا سا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ
حکومت کو برسر اقتدار آئے تقریباً تین سال ہوچکے ہیں جبکہ صدر زرداری کو
ایوان صدر منتقل ہوئے اڑھائی سال، اگر مشرف کی صدارت کا عرصہ نکال دیا جائے
تو صدر زرداری کی سربراہی میں حکومت اڑھائی سال سے مسند اقتدار پر موجود ہے۔
آمریت کے خاتمے، عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی کے لئے کس شعبہ زندگی، کس
سیاسی جماعت اور سول سوسائٹی نے کیا قربانیاں دیں، یہ ایک الگ کہانی ہے
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی (یہ
بھی ایک الگ کہانی ہے کہ یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے بعد ازاں جمشید دستی کا
بیلٹ باکس، اس کی جعلسازی اور فراڈ کا پرچہ چاک ہونے کے باوجود ووٹوں سے
بھردیا تھا)چونکہ ہمارے یہاں جمہوری نظام رائج ہے اور جمہوریت میں ”بندوں
کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے“ کا قانون ہے اس لئے جس پارٹی کو عوام ووٹ
دیں اس کا حق ہے کہ وہ حکومت بنائے اور اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائے
تاکہ جو عوام اسے ووٹ کی طاقت سے حکومت میں لے کر آتے ہیں ان کی خدمت کی
جاسکے اور ان کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ایسی خارجہ پالیسی اپنائی جائے
جس سے ریا ست اپنا سربلند کرکے دوسری قوموں اور ملکوں کے ساتھ برابری کی
بنیاد پر تعلقات کو استوار کرسکے۔ چنانچہ عوامی ووٹوں کی طاقت سے
برسراقتدار آنے والی حکومت کو اس کی طے شدہ میعاد تک حکومت کرنے کا قطعی حق
حاصل ہونا چاہئے، لیکن اس کے حق حکومت کے ساتھ ہی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں
بھی طے شدہ ہیں کہ حکومت ملک و قوم کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے
گی ، عوام کی فلاح و بہبود کو اولیت حاصل رہے گی اور ان کے ان بنیادی حقوق
کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا جس کی ضمانت انہیں آئین دیتا ہے۔
کیا موجودہ حکومت اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھا رہی ہے،
عوام کو ان کے حقوق مل رہے ہیں یا پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی سزا؟ اگر
حکومت اپنے فرائض منصبی بالکل اچھے طریقے سے ادا کررہی ہے تو عوام کی
اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انہیں دن بدن مہنگائی کے جہنم میں کیوں
جھونکا جارہا ہے، آئے روز ان پر نئے سے نیا ٹیکس اور نئے سے نیا جرمانہ
کیوں عائد کیا جاتا ہے، ایسا کیوں ہے کہ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر
ہوتا جاتا ہے، اگر آمریت ملک کے لئے ایک گالی ہے، اگر بری سے بری جمہوریت
بھی بہت اچھی آمریت سے اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے تو مشرف حکومت میں روز مرہ
اشیاء کی قیمتوں کی نسبت اب کئی گنا زیادہ مہنگائی کیوں ہے، کیا لوگ اپنی
قربانیوں کی بدولت لائی گئی جمہوریت کی خوشی مناتے ہوئے اپنے بال بچوں کو
ذبح کر کے موجودہ حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں یا ان قربانیوں اور
ذبیحوں کی کوئی اور وجوہات ہیں، کیا پاکستان کے عوام آمریت کی رخصتی پر
شادی مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہوکر اپنے جگر گوشوں کو ”برائے فروخت“ پیش
کردیتے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل ہیں؟
کسی بھی حکومت کا سربراہ اس کے اعمال و افعال سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا، جس
طرح گزشتہ ایام میں ہونے والی فسطائیت کی ذمہ داری مشرف پر ہوا کرتی تھی،
جس طرح بینظیر کے قتل سے مشرف کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، جس طرح
عدلیہ پر شبخون مارنے کا سہرا مشرف کے سر باندھا جاتا ہے، جس طرح لال مسجد
پر ہونے والی بربریت مشرف کے کالے کرتوتوں میں سے سب سے سیاہ حیثیت رکھتا
ہے، جس طرح بگٹی کا ماورائے قانون و آئین قتل مشرف کے خلاف چارج شیٹ کا ایک
اہم حصہ ہے، جس طرح قوم کی بیٹی عافیہ کی امریکہ کو فروخت مشرف کی بے غیرتی
کا ایک اہم نشان ہے، جس طرح گمشدہ افراد کا معاملہ مشرف کی خباثت کا منہ
بولتا شاہکار ہے بالکل اسی طرح اگر آج کے دور میں، موجودہ جمہوری حکومت میں
، اگر مملکت پاکستان میں دن رات مہنگائی کرکے عوام کا جینا اجیرن بنایا
جائے، اگر ہر جگہ رشوت ستانی کے بازار گرم ہوں، ڈکیتیاں، رہزنیاں، چوریاں
اپنے عروج پر ہوں، آج بھی بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے وہاں
سے دن دیہاڑے نوجوانوں کو ایجنسیوں کے لوگ لے جائیں، اگر لوگوں کو صرف اس
جرم کی پاداش میں نامعلوم لوگ اٹھا کر لے جائیں کہ وہ پانچ وقت کے نمازی
اور باریش ہیں، اگر آج بھی میڈیا کی آزادی بلکہ مادر پدر آزادی کے باوجود
ایک طرف تو شادی ہالوں میں وقت کی پابندی کا یہ عالم ہو کہ لاہور میں ایک
دولہے کو ٹریفک کے رش میں پھنسنے اور دس بجے کی پابندی کی وجہ سے سجی سجائی
گاڑی کو چھوڑ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شادی ہال پہنچنا پڑے اور پوری
بارات کچھ بھی کھائے پئے بغیر واپس آجائے جبکہ دوسری طرف وزیر اعظم کے بیٹے
کی شادی پر نہ صرف پورا ڈیفنس تین دن تک جگمگ کرتا رہے بلکہ پورے لاہور کی
پولیس فورس کو وہاں تعینات کردیا جائے، اگر ایک طرف پیپلز پارٹی اپنا یوم
تاسیس منا رہی ہو اور دوسری طرف ناہید خان کی بنیادی رکنیت ایک بار پھر اس
لئے معطل کردی جائے کہ انہوں نے بینظیر کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی بات
کیوں کی، آج کے ”سلطانی جمہور“ کے زمانے میں بھی اگر غربت کی وجہ سے لوگ
حرام کھانے اور اپنے بچوں کو بیچنا شروع کردیں تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت
چلانے والوں میں سے صرف ایک کا دماغ نہیں بلکہ اکثریت کے سر گلے سڑے، بدبو
دار اور بساند میں رچے بسے ہیں، یعنی
”جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے“
اور حقیقت ہے کہ اگر سر یعنی دماغ ہی گلا سڑا ہو تو باقی جسم سے کیا کام
لیا جاسکتا ہے سوائے اس کے کہ دماغ کے غلط سلط احکامات پر عملدرآمد کیا
جاتا رہے، شاہ عبداللہ نے کچھ غلط تو نہیں کہا، کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر
سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے کو سب سے اعلیٰ منصب پر بٹھا دیا جائے تو وہ
پورے ملک اور پوری قوم کی لوٹ سیل لگانے میں ہرگز نہیں چوکے گا، عوام کو ہی
ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے، خود اپنی خبر گیری کرنا پڑے گی، اپنے حقوق حاصل
کرنے کے لئے پہلے اپنے فرائض ادا کرنا پڑیں گے، سب سے پہلا اور بڑا فریضہ
یہی ہے کہ صالح، ایماندار، نڈر، بے باک، ذہین، درد دل رکھنے والے، کوئی وژن
رکھنے والے لوگوں کا بطور حاکم انتخاب کیا جائے کیونکہ جمشید دستیوں اور
اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور یہی نمائندے اسمبلیوں
میں پہنچ کر بلیکیوں ، فیصدیوں اور بکیوں کو ہمارے سروں پر بٹھا دیتے ہیں۔
اگر ہم خود اپنی حالت پر رحم نہیں کھائیں گے تو قدرت نے کیا ٹھیکہ لے رکھا
ہے؟ |